دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
نیلم کو بچا لو
حفصہ مسعودی
حفصہ مسعودی
میری صدیاں اجاڑ دی تم نے
اپنے لمحے سنوارنے کے لیے
دو دن سے ہمارے سیدھے سادے کشمیری "پاں پاں، پوں پوں" کرتی جیپوں کی ویڈیوز پوسٹ کر رہے ہیں جو پتلیاں جھیل کے گرد خوبصورت سر سبز گھاس کو اپنے بدصورت ٹائروں سے روند رہی ہیں اور فضا میں گندا دھواں چھوڑ رہی ہیں اور پوسٹ کرنے والے اس فخریہ انداز میں پوسٹ کر رہے ہیں جیسے کشمیر فتح کر لیا ہو"دیکھو جی گڈی آئی ہے" ۔میرا خیال ہے میں وادی نیلم سے واحدذی روح ہوں جس کو سیاحوں کا اتنی بڑی تعداد میں وادی نیلم آنا نہایت ناگوار گزرتا ہے ۔ اس سلسلے میں ایک بار ایک شدید عقلمند دوست سے مکالمہ ہوا جو کچھ یوں تھا ۔
شدید عقلمند دوست: "اس بار وادی نیلم میں اتنے سیاح آئے ہیں کہ صرف عید کے چھ دن بعد تک کی تعداد سوا لاکھ تھی".
شدید بے وقوف میں: "اللہ اکبر ، اللہ میری وادی کو ان لوگوں سے بچائے اور کوئی ایسی راہ نکالے کہ لوگ نیلم کو بھول کر کسی اورطرف کا رخ کریں".
شدید عقلمند دوست: "کیوں تمھیں کیا تکلیف ہے سیاحت کے فروغ سے "؟
شدید بے وقوف میں: "وہاں نہ صرف ماحول آلودہ ہوتا ہے بل کہ سوشل فیبرک پر بھی بہت برا اثر پڑتا ہے"۔
شدید عقلمند دوست :"شکر کرو وہاں کے لوگوں کے پاس پیسہ آئے گا ، ترقی کریں گے".
شدید بے وقوف میں: "وہاں پہلے بھی کوئی بھوکا نہیں سوتا ، سال جب وادی کا زمینی رابطہ مظفرآباد سے منقطع رہا ہے تب بھی کوئی بھوکا نہیں سویا۔ لیکن وہاں کا قدرتی ماحول اربوں ڈالرز سے قیمتی ہے جو تباہ ہو جائے گا".
شدید عقلمند دوست :" ارے تم جیسے ہی قنوطی ذہن لوگ ہوتے ہیں جو نہ صرف اپنی بل کہ دوسروں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں، لوگوں کے پاس پیسہ آنے دو، عیاشی کرنے دو، کھل کر جینے دو".
تو قارئین کرام ، وہاں سیاحت کو فروغ دینے کا مقصد پیسہ، ترقی اور "عیاشی" ہے تو میرا اختلاف برقرار ہے ، میں ایسا نہیں چاہتی .
میرا بچپن "بند" وادی نیلم میں گزرا ہے اور میں وہاں کے سوشل فیبرک کا بڑے فخریہ انداز میں زکر کرتی تھی، جہاں نہ صرف خوشیاں اور دکھ سانجھے تھے، بل کہ پھل اور اناج بھی سانجھے تھے، نہ صرف مہمان سانجھے تھے ، باورچی خانے بھی سانجھے تھے۔ پھر ہم ترقی کی دوڑ میں شامل ہو گئے ، پھر ہماری لوبیا روپے کلو بکنے لگی اور چیری ہو گئی اور نہ صرف ہم دوسروں کو دینے سے محروم ہو گئے بل کہ خود بھی سوچ کر کھاتے ہیں کہ بچا لیں تو کاغذ کے چند نوٹ آجاویں گے جن سے ہم جعلی چیزِیں خرید کر کھائیں گے"ماڈرن" لگیں گے اور شوگر اور بلڈ پریشر جیسی بیماریوں کے مریض ہو کر ترقی کریں گے ۔ رنگین پتھروں کے شوق میں ہم نے چھپے خزانوں کو کوڑیوں کے مول بیچ دیا اور سوشل فیبرک کے تباہ ہونے پر کسی کو کوئی افسوس نہیں ہے ۔
یہ تو رہا خیر سماجی پہلو ۔اس کا ایک اور پہلو ہے جو ہماری بقا سے جڑا ہے ۔اور وہ ہے ماحولیات کی تباہی ۔ نیلم کا دیودار دنیا کا سب سے بہترین دیودار ہے۔سب سے قیمتی لکڑی تو جناب عمارتیں بنانے کو استعمال تو ہوئی اس کو ایندھن کے لیے بھی "انہے واہ" کاٹا گیا۔ پھر حکومت نے ایک نہایت دانشمندانہ فیصلہ کرتے ہوے فائرنگ کے ایام میں "بائی پاس روڈ نکالا جس کی زد میں جنگلات کا ایک بڑا حصہ آیا ، پھر انڈیا کی فائرنگ نے کئی میل تک ک جنگلات کو جلا کر بھسم کر ڈالا اور کسی کے کان پر جوں نہیں رینگی کون سا کسی کے دادے نے بیٹھ کر دیودار کے "رکھ" تروپی کیے۔اللہ نے اگائے تھے وہی راکھا ہو۔ تو ہوا کچھ ہوں کہ جنگلوں کی جگہ کچھ ٹنڈ منڈ پہاڑوں نے لے لی۔
اور پھر کوئی جنم جلا سیاح جا پہنچا جس نے نیلم کی خوبصورتی کو میڈیا اور سوشل میڈیا کی نذر کر دیا اور پھر گاڑیاں بھر بھر کر سیاح نیلم جانے لگے ، کاربن سے فضا آلودہ، پیمپرز اور ریپرز سے زمین آلودہ ، مختلف "مشروبات" سے ماحول آلودہ اور پیسے کی بے تکی ریل پیل سے ذہن آلودہ۔ درخت تیز رفتاری سے کٹنے لگے،کھیتوں میں مکئی کی جگہ پارکنگ لاٹ بننے لگے، ہوٹلز کے "ماحول رنگین" ہونے لگے ، دو روپے کا ایک اخروٹ بکنے لگا، لسی کی جگہ وہ کوکا کولا جو کہ ایک بہترین ٹوائلٹ کلینر ہے ، استعمال ہونے لگا ، جڑی بوٹیاں اور معدنیات اسمگل ہونے لگیں ۔ پوچھنے والا کون تھا، گدھ جیسے مردار کا جسم نوچتے ہیں ایسے ہر کوئی اپنا اپنا حصہ نوچنے لگا اور پھر قدرت نے انتقام لینا شروع کیا، ہر سال ایک کلائوڈ برسٹ۔درجہ حرارت اس قدر بڑھ گیا ہے کہ گرمیوں میں پنکھوں کی ضرورت پڑنے لگی ۔ دیسی اشیا ناپید ہو چکیں ، اور نیلم کے باسی جملہ "شہری" بیماریوں کے مریض ہونے کے باوجود ادراک نہیں کر پا رہے کہ وہ اپنے مستقبل کو اپنے ہاتھوں تباہ کر رہے ہیں۔
ایک بار ایک خوبصورت طوائف کے انٹرویو کا ایک جملہ نظر سے گذرا تھا" کاش میں خوبصورت نہ ہوتی تو اس طرح روز میرا جسم نوچا نہ جاتا"اور میں سوچتی ہوں کاش میری محبوب وادی نیلم خوبصورت نہ ہوتی تو اس کو روز یوں پیروں تلے روندا نہ جاتا۔ سوچتی ہوں کیا یہ سب ختم ہو سکتا ہے؟ کیا نیلم کو تباہی سے بچایا جا سکتا ہے؟یہ سوال تو اربابِ اقتدار سے ہونا چاہیے۔ کون ٹاون پلاننگ کرے گا نیلم میں؟ کون سیاحت کے لیے مناسب انفرا سٹرکچر بنوائے گا؟ کون سیاحوں کے لیے قوانین اور ان کے تحفظ کے لیے اقدامات کریگا؟ جنگلات ، جڑی بوٹیوں اور معدنیات کو کون بچائے گا؟ پاں پاں کرتی جیپوں کو گھاس روندنے سے کون روکے گا؟ شوق سے نیلم کو سوئٹزرلینڈ بنا پہلے اس طرح کی منصوبہ بندی تو کرو یقینا یہ حکومت کی ترجیحات میں نہیں ہے، تو پھر سول سوسائٹی کو جاگنا ہوگا۔ اور ارباب اختیار کو مجبور کرنا ہوگا ، کہ ہر کام حکومت پاکستان کے متھے نہ مارو، خود بھی ہاتھ پیر ہلا، بر سبیلِ تذکرہ عرض ہے کہ اس بار اسمبلی میں نیلم کے چار لوگ ہیں۔
کوئی نیلم کو بچا لو خدارا۔

واپس کریں