دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش تک
ظفر محمود وانی� ۔ فلسفہ کالعدم
ظفر محمود وانی ۔ فلسفہ کالعدم
کاش ہم نے انیس سو ستر کے انتخابات کے نتائج کے مطابق اقتدار مجیب الرحمن کو دے دیا ہوتا، تو ہمارا پاکستان کبھی دولخت نہ ہوتا اور آج کی نسبت بہت بہتر اور ترقی یافتہ ہوتا ۔ سچ ہے کہ بری نیت کا نتیجہ بھی برا ہوتا ہے اس وقت مغربی پاکستان کے طاقتور طبقے اور جاگیرداروں کو یہ گوارا نہیں تھا کہ اس استحصالی نظام کو بدلنے کی کوئی کوشش بھی کرے لہزا اس امکان کو ہمیشہ کے لئیے ختم کرنے کے لئیے مشرقی پاکستان کو خود بنگلہ دیش کی طرف دھکیل دیا گیا ، آج دونوں حصوں کا معاشی اور معاشرتی موازنہ سب حقائق آشکار کر رہا ہے ۔

شیخ مجیب الرحمن تحریک پاکستان کا سرگرم اور پرجوش کارکن رہا، اور سترہ سال کی عمر میں قائد اعظم محمد علی جناح کی تقریر سننے کے لئے سات سو میل سائیکل پر سفر کر کے جاتا ہے ، یہی شیخ مجیب الرحمن ایوب خان کے دور میں منعقد ہونے والے صدارتی الیکشن میں مشرقی پاکستان میں محترمہ فاطمہ جناح کا چیف پولنگ ایجنٹ تھا ۔ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے پولیس کے ایک ریٹائرڈ آفیسر کا انٹرویو شائع ہوا جس کو مجیب کی قید کے دوران ایک قیدی کی حیثیت سے شیخ مجیب کے ساتھ اس کی جاسوسی کے لئیے مشقتی کی حیثیت سے، رکھا گیا تھا ، وہ آفیسر لکھتاہے کہ مجیب الرحمن کا نماز کے دوران آنسوئوں سے چہرہ بھیگ جاتا ، اور وہ انگریزی میں بلند آواز سے کہتا ،کہ اے خدا میں تو پاکستان کو توڑنا نہیں چاہتا تھا ، یہ کیا ہو گیا۔ ساٹھ کی دہائی میں ایک بار ایوب خان نے مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے سپیکر کو کہہ دیا کہ آپ ہم سے الگ ہو جائیں ، اور ان سپیکر صاحب کا جواب تھا ، کہ ہم اکثریت ہیں ، ہم پاکستان ہیں ، اگر الگ ہونا ہی ہے تو آپ الگ ہو جائیں۔

پہلے طویل عرصہ تک بنگالیوں نے پاکستان کے اندر رہتے ہوے ہی اپنے جائز حقوق کے حصول کے لئیے جدوجہد کی، لیکن انیس سوستر کے انتخابات میں واضح اکثریت کے باوجود مغربی پاکستان کی طاقتور مقتدرہ اور بااثر جاگیرداروں نے ان کا قانونی حق دینے اور اقتدار ان کے حوالے کرنے کے بجاے، آپس میں سازش کر کے، ان کے خلاف شدید فوجی آپریشن کر دیا، جس کے نتیجے میں ایک کروڑ سے زائد بنگالی اپنی جانیں بچانے کے لئیے سرحد عبور کر کے بھارت چلے گئے ،اور پھر اس صورتحال سے منطقی طور پر ہمارے دشمن ،بھارت نے فائدہ اٹھایا ۔

بنگالیوں کی جدوجہد پہلے اپنے حقوق کے لئے تھی اور پھر مکمل مایوسی اور ان سے اپنائے گئے ظالمانہ روئیے کی بنا پر ان کی یہ تحریک، آزادی کی تحریک میں تبدیل ہو گئی، جیسا کہ پاکستان پر قابض طاقتور مقتدر حلقے اور بااثر جاگیردارں کی خواہش تھی ۔ اس سانحہ کے انچاس سال کے بعد یہ واقعات اور اس کی وجوہات دہرانا اس لئے ضروری ہو جاتا ہے، کیونکہ ہماری نوجوان نسل ان افسوسناک ، اور خونچکاں واقعات اور ان کی اصل وجوہات سے مکمل طور پر ناواقف اور نابلد ہے ، حالانکہ ہمارے آگے کے قومی سفر کو محفوظ بنانے کے لئیے یہ اشد ضروری ہے کہ ہم ان غلطیوں کا ادراک اور تدارک کریں تاکہ یہ دھرائی نہ جائیں اور خدانخواستہ کسی مزید سانحے کا ، جس کا اب پاکستان متحمل نہیں ہو سکتا ، باعث نہ بن جائیں ۔

اس کے ساتھ ہی پاکستان میں معاشی اور سماجی تفریق ظالمانہ اور غیر انسانی حد تک اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے ,اور اس کا حل بدقسمتی سے طاقتور مقتدرہ کی طرف سے یہی تجویز کیا جا رہا ہے کہ عوام کی محروم اکثریت کو جاہل اور بے خبر رکھا جائے ، اور دیرینہ مذہبی اعتقادات اور تعصبات کو، عوام کے اکثریتی محروم طبقات کو اسی حال میں قانع رہنے کے لئے ، ایک آزمودہ ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا رہے ۔ لیکن ان ظالم اور غاصب طبقات کو نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہئے اور محروم و مجبور انسانوں کے اس انبوہ کو اس انتہا تک نہیں پہنچا دینا چاہئے کہ وہ ان کی رہائشی بستیوں کے گرد ، ان کی حفاظت کے لئیے کھینچی ہوئی بلند دیواریں گرا کر سب کچھ تہس نہس کر کے رکھ دیں ۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم پھر سے صدقِ دل کے ساتھ ان مقاصد کی طرف رجوع کر لیں ، جن کے حصول کے لئیے پاکستان بنایا گیا تھا ۔
واپس کریں