دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
گلگت بلتستان یا گریٹ گیم؟
نعیمہ  مہجور
نعیمہ مہجور
حقیقت میں جموں و کشمیر کا یہ خطہ ایشیا کا وہ تکون ہے جس کی افادیت کا اندازہ دنیا کو پھر اس وقت ہوا جب چین نے اس تکون کی تعمیر پر اربوں ڈالرز خرچ کیے تاکہ بحیرہ عرب تک اپنی برآمدات پہنچا سکے۔
جب سے پاکستان نے گلگت بلتستان کو اپنا پانچواں صوبہ بنانے کا اشارہ دیا ہے ناصرف پاکستان کے اپنے سیاسی حلقے ایک انتشاری کیفیت سے گزر رہے ہیں بلکہ خبروں کے مطابق بھارتی فوجی و سیاسی قیادت اس کے مختلف پہلوؤں پر غور کر رہی ہے۔ ان میں سے ایک فوجی حکمت عملی بھی شامل ہے۔۔

لداخ کے سرحدی خطے میں چین اور بھارت کی حالیہ معرکہ آرائی کو روکنے کے لیے عالمی سفارتی سرگرمیوں اور عوامی تحریکوں کا زور بھی بڑھتا دکھائی دے رہا ہے جبکہ جموں و کشمیر کے عوام اپنی سلطنت کے حصے بخرے دیکھنے کے اس عمل پر نوحہ خواں بنے ہوئے ہیں۔
جب یہ سوال کیا جاتا ہے کہ گلگت بلتستان کو اپنا پانچواں صوبہ بنانے کی ضرورت اب کیوں پیش آئی تو فورا یہ جواب دیا جاتا ہے کہ بھارت کو کشمیر کی آئینی خودمختاری ختم کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی جب وہ حقیقی طور پر بھارتی ریاست کی حیثیت اختیار کرچکا تھا۔

حقیقت میں جموں و کشمیر کا یہ خطہ ایشیا کا وہ تکون ہے جس کی افادیت کا اندازہ دنیا کو پھر اس وقت ہوا جب چین نے اس تکون کی تعمیر پر اربوں ڈالرز خرچ کیے تاکہ بحیرہ عرب تک اپنی برآمدات پہنچا سکے۔ البتہ بعض ماہرین کے خیال میں چین نے اس علاقے میں ’گریٹ گیم‘ کے ایک نئے ورژن کا آغاز کر دیا ہے اور یہ دنیا کی بڑی طاقتوں کا دارالحرب بن سکتا ہے۔

73 ہزار مربع کلومیٹر پر محیط گلگت بلتستان کی اٹھارہ لاکھ آبادی اس وقت تین جوہری ملکوں کے بیچ میں گھری ہوئی ہے جہاں لداخ میں 1962 کی جنگ کے بعد پہلی بار بھارت اور چین کے درمیان کشیدگی، معرکہ آرائی اور فوجی نقل و حمل عروج پر پہنچ چکی ہے۔ وہیں ان دونوں ملکوں کے بیچ میں پاکستان کی مشکلات بڑھ رہی ہیں جو اپنی سرحدوں کو بچانے کی حکمت عملی کے تحت پانچواں صوبہ بنانے پر بضد ہے کیونکہ بھارت نے پاکستانی کشمیر پر حملہ کرنے کی کئی بار دھمکی دے دی ہے۔

دوسری طرف یہاں کی مقامی آبادی میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا ہوا ہے اور بھارت پاک سرحدی کشیدگی میں تقریباً ہر روز اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے جا رہے ہیں۔
گلگت کے بارے میں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ 1947 میں بھارت اور پاکستان کے وجود میں آنے سے پہلے ہی گلگت کے عوام نے اس وقت کے برطانوی فوجی کمانڈنٹ میجر براون کی نگرانی میں پاکستان میں انضمام کا فیصلہ کرلیا تھا جس کی اہم وجہ مہاراجہ کی ہندو پالیسیاں تھیں اور جن کے خلاف گلگت میں اکثر شورش کا ماحول رہتا تھا۔

چار نومبر 1947 کو گلگت سکاؤٹس کے اصرار پر میجر براون نے رسمی طور پر پاکستانی پرچم لہرا کر یہاں پولیٹیکل ایجنٹ کی تقرری کی تھی جس کو بعد میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت کے تابع کیا گیا۔ سن اڑتالیس میں گلگت سکاؤٹس نے بلتستان پر دھاوا بول کر سکردو کو گلگت کے ساتھ ملایا۔

حکومت پاکستان نے 1970 میں کراچی معاہدے کے تحت اس کو کشمیر سے الگ کر کے شمالی علاقہ جات کا حصہ قرار دیا۔ بھلا ہو آصف زرداری کا جنہوں نے 2009 میں صدارتی فرمان سے اس خطے کو اپنی اسمبلی بنانے کی اجازت دے دی البتہ یہاں کے عوام کو پاکستانی حکومت سے ہمیشہ یہ شکایت رہی ہے کہ انہیں اپنے سیاسی، شہری اور معاشی حقوق سے ہمیشہ محروم رکھا گیا ہے۔ گلگت بلتستان کی مکمل آبادی مسلمان ہے جن میں تقریباً 60 فیصد اہل تشیع ہیں۔

یہاں کی مقامی ملیشیا، گلگت سکاؤٹس نے1931 سے پہلے جب کشمیر میں پہلی بار عوامی شورش منظر عام پر آگئی تھی تو ڈوگرہ مہاراجہ کی مسلم کش پالیسیوں کے خلاف اپنی مہم شروع کر دی تھی۔ یہ کئی بار ہلاکتوں اور جلاوطنی پر منتج ہوئی تاہم مہاراجہ کا یہاں کے اندرونی معاملات پر اتنا زیادہ عمل دخل نہیں رہا ہے جس کی وجوہات اس علاقے کی دوری، شدید سردی اور رسائی نہ ہونا تھیں۔ مورخین کے مطابق یہ دونوں علاقے علامتی طور پر ڈوگرہ راج میں شامل تھے جو انگریزوں نے سکھوں سے جنگ جیتنے کے بعد مہاراجہ گلاب سنگھ کی جھولی میں ڈالے تھے۔

بقول ڈاکٹر کرن سنگھ جو مہاراجہ ہری سنگھ کے صاحبزادے اور جموں و کشمیر کے پہلے صدر ریاست تھے ’جموں و کشمیر کا یہ پورا خطہ ایک آرٹیفیشل ریاست کے مانند تھا جس میں مذاہب، زبانیں اور ثقافتیں جداگانہ ہیں۔ ان میں کسی طرح کی کوئی مماثلت نہیں دیکھی جاتی۔‘ وہ بی کے نہرو سے ایک مکالمے میں کہتے ہیں کہ ’ان کو ایک ساتھ رکھنا ایک تاریخی حادثہ تھا۔ مہاراجہ گلاب سنگھ نے ان کو فتح کر کے ایک ساتھ ملایا تو تھا مگر ان میں کوئی بھی چیز مشترک نہیں ہے۔‘
اس پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے کشمیری مورخ پنڈت پریم ناتھ بزاز لکھتے ہیں کہ ’ڈوگرہ مہاراجے صرف جموں کو اپنا گھر مانتے تھے اور کشمیر کو فتح کر کے محض ایک کالونی، جو ان کے سامراجی سوچ کی عکاسی کرتی ہے اسی لیے لداخ، گلگت، بلتستان، کرگل، دراس اور کشمیر میں عوام ان کی پالیسیوں کے خلاف زیرزمین مہم چلاتے تھے۔ اور ان کی پالیسیوں کی نفی کرتے تھے۔‘

کشمیر سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے ایک کارکن عزیز احمد کہتے ہیں کہ 1947 کے بعد متحد جموں و کشمیر کا شیرازہ بکھر گیا یا جان بوجھ کر اس کے حصے بخرے کر دیے گئے ہیں۔ اب مہاراجہ کا روپ جمہوری حکومتوں نے اختیار کیا ہے جو پالیسیاں بدل بدل کر عوام کے حقوق سلب کرنے میں لگے ہیں۔ انتہا یہ ہے کہ بھارت نواز رہنما فاروق عبداللہ بھی چین کی تعریف کرتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اب چین ہمارے مستقبل کا تعین کرنے میں مددگار ثابت ہو۔‘

تاریخی لحاظ سے 'سلطنت جموں و کشمیر' کی اتنی ہی اہمیت رہی ہے جتنی ترکی میں آبنائے باسفورس کی جو مشرق اور مغرب کے بیچ ایک ایسی سمندری راہداری ہے جس پر ان بیشتر ملکوں کی فوجی، معاشی اور سیاسی لین دین اور تجارت کا انحصار ہے۔ سلطنت عثمانیہ کو ختم کرنے کے پیچھے ایک بڑا مقصد ترکوں کی اس لائف لائن کو ختم کرنا تھا تاکہ مغربی دنیا کی مشرق کے ساتھ تجارت میں کوئی رکاوٹ نہ رہے۔

ہندوکش، قراقرم اور پامیر کے پہاڑوں کے بیچ میں گلگت بلتستان کی بالائی پوزیشن ایسی مضبوط ہے کہ یہاں کی بلندیوں سے خیبر پختون خوا، کشمیر، لداخ، ۔سینکیانگ اور واخان کا نظارہ بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جسے مغربی، وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کا سنگم کہا جاسکتا ہے۔

گلگت بلتستان سے اگر ایک جانب واخان سے افغانستان پہنچ سکتے ہیں وہیں یہ ۔سینکیانگ کے ساتھ چین اور وسط ایشیائی ممالک کے درمیان سب سے قریبی راستہ فراہم کرتا ہے جو پاکستان کے لیے سرحدی اور فوجی لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہیں۔

پاکستان کو اپنے حریف ملک بھارت کی فوجی سرگرمیوں پر نظر رکھنے میں یہاں برتری حاصل ہے جبکہ چین کی اس علاقے میں بڑھتی تعمیراتی سرگرمیاں بھارت کی تشویش میں اضافے کا باعث بنی ہوی ہیں۔

چین کی اقتصادی راہداری یا سی پیک کے دو بڑے منصوبوں پر گذشتہ ایک دہائی سے یہاں سرعت سے کام جاری ہے۔ ایک 'سلک روٹ' کی تعمیرنو جو چین کو بحیرہ عرب تک براہ راست رسائی فراہم کرے گا جب کاشغر اور گوادر کے بیچ راہداری کا کام مکمل ہوتا ہے۔ جس پر چین نے 65 ارب ڈالرز پہلے ہی خرچ کیے ہیں۔ اس سے وسط اور مغربی ایشیا کے درمیاں نہ صرف فاصلہ کم کیا جاسکتا ہے بلکہ درآمدات برآمدات پر ٹرانسپورٹ کی سہولیات سستی اور بغیر کسی رکاوٹ جاری رہ سکتی ہیں۔

دوسرا شاہراہ قراقرم کا وہ منصوبہ ہے جو 1300 کلو میٹر لمبی سڑک کی تعمیر پر مشتمل ہے۔ یہ پنجاب کے علاقے حسن ابدال سے شروع ہو کر گلگت بلتستان کے خنجراب درے سے گزر کر ۔سینکیانگ میں کاشغر سے ملاتی ہے اور اس کی سرحدی شاخیں افغانستان اور بھارت تک پہنچ جاتی ہیں جو چین اور پاکستان کے لیے فوجی اہمیت کی حامل ہیں۔

گلگت بلتستان، پاکستان کا وہ علاقہ ہے جو قدرتی معدنیات سے مالا مال ہے جن میں ہیرے جواہرات میں تبدیل ہونے والے پتھر شامل ہیں۔ اس خطے میں گلیشیر اور پانی کے وافر ذخائر سے بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت تقریبا چالیس ہزار میگاواٹ ہے۔

پاکستان کو شاید اس خطے کی فوجی اور تجارتی اہمیت کا اندازہ اس وقت ہوا جب چین نے اپنی معیشت کو وسعت دینے کے لیے اس خطے کو بیس کیمپ کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا ورنہ 70 سال تک پاکستان کے زیر کنٹرول رہنے کے باوجود اب تک اس علاقے میں حکومت سازی کا بنیادی ڈھانچہ بھی نہیں بنایا گیا اور نہ یہاں کے عوام کو اپنے وسائل بروئے کار لانے کا موقع فراہم کیا گیا۔
بعض عوامی حلقوں میں یہ سوچ اب تقویت پکڑ رہی ہے کہ پانچویں صوبے کی حیثیت سے قومی دھارے میں شامل کرکے لوگوں کی سیاسی اور معاشی حقوق کی پاسداری کی جائے گی مگر اس میں کتنی دیانت داری ہے اس کا فیصلہ وقت ہی کرسکتا ہے۔
چین اس علاقے کی جغرافیائی اور فوجی اہمیت سے بخوبی واقف ہے۔ وہ یوں ہی بھاری رقوم خرچ کرنے کا عادی نہیں ہے۔ اس بات کی ضمانت بھی نہیں دی جاسکتی ہے کہ وہ پاکستان کو 'حصول جموں و کشمیر' میں دیانت داری سے اس کی فوجی محاذ پر بھارت کے خلاف مدد کرے گا لیکن ان منصوبوں کے بدولت مقامی لوگوں کے لیے آمدورفت میں آسانی اور روزگار کے وسائل ضرور پیدا ہونے ہیں۔

جب سے بھارت نے جموں و کشمیر کو توڑ کر لداخ کو یونین ٹریٹری میں تبدیل کیا ہے اس وقت سے چین کی تشویش میں اضافہ ہوگیا ہے کیونکہ لداخ کا براہ راست مرکزی حکومت کے زیرکنٹرول رہنے کا مطلب ہے کہ اب یہاں فوجی تعداد اور سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا۔ چین کا خیال ہے کہ یہاں سے بھارت سینکیانگ میں افراتفری پھیلانے اور تبت میں آزادی کی تحریک میں دوبارہ روح پھونکنے میں اہم کردار ادا کرنے میں سرعت لائے گا جس کے لیے بھارت کو بعض عالمی طاقتوں کی حمایت حاصل ہے جو چین کی عالمی معیشت بننے اور سیاسی اثر رسوخ کو ذائل کرنے کی حکمت عملی پر مصروف ہیں۔

گلگت کے ایک مقامی سیاسی کارکن حسین انصاری کہتے ہیں کہ ’بھارت کی نظر گلگت بلتستان پر ٹکی ہوئی ہے جو اس کو افغانستان سے ملا کر وسط ایشیا تک راہداری فراہم کرسکتا ہے۔ حکومت بھارت نے منظم طریقے سے بیرونی ملکوں میں آباد بلتیوں اور گلگتیوں پر سرمایہ کاری کا سلسلہ دہائیوں پہلے شروع کیا ہے جو یہاں آکر پاکستان مخالف تحریک اور افراتفری پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آزادی کے حق میں چند آوازیں بھی گردش کرتی ریتی ہیں البتہ یہاں اکثریت پاکستانی صوبہ بنے کے حق میں کافی عرصے سے کوشاں ہیں مگر پاکستان کی سیاسی جماعتیں ہمیں اپنے حقوق دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔‘

بقول ایک کشمیری صحافی ’چونکہ پاکستان کے بعض سیاست دانوں میں حب الوطنی نام کی کوئی شئے موجود نہیں ہے اور ان کی سیاست کرسی حاصل کرنے تک محدود رہتی ہے لہذا گلگت بلتستان اگر پاکستانی کنٹرول سے نکل بھی جائے اور بھارت اسے حاصل کر کے ہندو اکثریتی علاقے میں تبدیل بھی کرے جیسا کہ وہ آج کل کشمیر میں کر رہا ہے، پاکستانی سیاست دان خوشیاں منائیں گے کہ فوج کی بنگلہ دیش کے بعد دوسری بار خفت ہو رہی ہے۔ جب قوم کے معماروں کی ایسی سوچ ہو تو اس ملک کی سرحدوں کو کوئی غیبی طاقت ہی بچا سکتی ہے۔

ہوسکتا ہے آج یہ غیبی طاقت چین کی شکل میں سامنے آئی ہے اور وہ بھارت کو کسی بھی صورت میں اسے ہتھیانے کی کوشش سے روک دے گا کیونکہ اس وقت اب نہ صرف اس کا اپنا سرمایہ داؤ پر لگا ہے بلکہ دنیا میں واحد فوجی طاقت کا مظاہرہ کرنے کا بڑا امتحان بھی ہے جس کو بہر صورت جیتنا لازمی ہوگا۔‘

بشکر یہ انڈپینڈنٹ اردو
واپس کریں