دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
نئی سیکورٹی پالیسی اور قومی مفادات
ظفر محمود وانی� ۔ فلسفہ کالعدم
ظفر محمود وانی ۔ فلسفہ کالعدم
زیر اعظم کے قومی سلامتی امور کے مشیر معید یوسف کے انڈین ویب'' دی وائر'' کو دیئے گئے انٹرویو کو وسیع پیمانے پر دلچسپی سے دیکھا گیا ۔ انڈین صحافی کرن تھاپر کے دیئے گئے اس انٹرویو کی سب سے اہم بات معید یوسف کا یہ انکشاف ہے کہ انڈیا نے پاکستان کو مزاکرات کی دعوت دی ہے اور پاکستان انڈیا سے کشمیر اور دہشت گردی کے امور پر بات کرنے کو تیار ہے۔ معید یوسف نے یہ نہیں بتایا کہ انڈیا نے کس ذریعے سے پاکستان کو مزاکرات کی دعوت دی ہے ۔ اس متعلق سوال پر معید یوسف نے کہا کہ اگر میں یہ بتائوں کی انڈیا نے کس ذریعے سے یہ دعوت دی ہے تو آپ حیران رہ جائیں گے۔

معید یوسف نے اس انٹریو میں کہا کہ '' ہمیں بڑوں کی طرح بیٹھ جانا چاہئے'۔ کشمیر اور دہشت گردی دو مسئلے ہیں،میں دونوں کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں،پاکستان امن کے لئے کھڑا ہے اور ہم آگے بڑہنا چاہتے ہیں، کشمیری ہندوستانیوں سے نفرت کرتے ہیں، اگست 2019 کی آئینی تبدیلیاں بھارت کا داخلی معاملہ نہیں ہیں، مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کے لئے معاملہ ہے۔گلگت بلتستان پر کرن تھاپر کے سوالات پر معید یوسف نے کہا کہ ابھی اس حوالے سے پاکستان میں ڈائیلاگ جاری ہے،ابھی یہ اقدام نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ علاقے کے لوگوں کے مطالبے پر اگر گلگت بلتستان کو پاکستان کا عبوری صوبہ بنایا بھی گیا تو مسئلہ کشمیر کے حل میں یہ خطہ بھی شامل ہو گا۔

پاکستان میں جاسوسی اور دہشت گردی کرانے کے الزامات میں سزائے موت سنائے جانے والے انڈیا کی بحری فوج کے افسر کلبھوشن یادیو کے حوالے سے قومی سلامتی امور کے مشیر نے کہا کہ اس معاملے میں انڈیا کی پتلون نیچے سے پکڑی گئی ہے۔معید یوسف نے انڈیا کی طرف سے پاکستان میں دہشت گردی کے بڑے حملوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان میں انڈیا کے ملوث ہونے کے شواہد بیان کئے اور کہا کہ انڈیا نے افغانستان میں تحریک طالبان پاکستان کے گروپوں کو متحد کرنے کے لئے ایک ملین امریکی ڈالرز دیئے ۔

اس انٹرویو میں کرن تھاپر بہت بے چین نظر آئے اور پاکستان کے سلامتی امور کے مشیر کے جوابات کے دوران، انہیں روک روک کر سوالات کرتے رہے۔ اس حوالے سے یہ مضحکہ خیز صورتحال بھی دیکھنے میں آئی کہ جب معید یوسف کے جواب دینے کے دوران کرن تھاپر بات کرنے سے قاصر رہتے تو ان کا منہ کھل جاتا تھا اور کافی دیر وہ منہ کھولے اپنی بے چینی ظاہر کرتے رہے۔'' دی وائر'' نے اس انٹرویو کے حوالے سے کہا کہ جموں وکشمیر سے متعلق انڈیا کے گزشتہ سال کے پانچ اگست کے اقدام کے بعد انڈیا کے کسی بھی میڈیا کو کسی پاکستانی عہدیدار کا یہ پہلا انٹرویو ہے۔

واپس کریں