دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سیاسی کشمکش میں بیرونی دلچسپی اور اس کا پس منظر
ظفر محمود وانی� ۔ فلسفہ کالعدم
ظفر محمود وانی ۔ فلسفہ کالعدم
بیرونی ممالک میں پاکستان میں جاری سیاسی کشمکش کے بارے میں مختلف بیانات کو حقیقی تناظر میں دیکھنے اور سمجے جانے کی ضرورت ہے ۔ یہ سب ان کے مدد گار ہیں اور اپنے بیانات کے زریعے دراصل ان کو تقویت دینے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ اسے ” انورٹڈ انٹیلیجنس “ کہا جاتا ہے کہ ایسا اقدام یا بیان دیا جاے, جو بظاہر کچھ اور تاثر دیتا ہو, لیکن درپردہ اس سے اپنے حمایتی یا موقف کی تقویت مقصد ہو ۔ جیسے اگر کسی گروپ کے خلاف کارواٸی کرنی ہو, تو اس کی طرف سے کوٸی ایسا مجرمانہ کام خود کروایا جاتا ہے جس کو جواز بنا کر اس گروپ کے خلاف بھرپور کارواٸی کر دی جاتی ہے ۔ بھارت نے کشمیر میں یہ حربہ کٸی بار آزمایہ ہے اور اس کے انٹیلیجنس اداروں میں کلیدی پوسٹوں پر تعینات کشمیری پنڈت آفیسرز کا یہ پسندیدہ ترین حربہ ہے ۔ ہماری صفوں میں بھی اس کی مثال موجود ہے مقبول بٹ کو پھانسی لگوانے کی سازش کی شکل میں ۔ میرا اشارہ بھارت میں منظم طریقے سے چلواٸی جانے والی مہم اور مبینہ امریکی خط کی طرف ہے , کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ جس کی مخالفت کریں گے وہ پاکستان کے سادہ لوح عوام کی نظر میں مقبول ہو جاے گا ,اور جس کی وہ حمایت کریں پاکستان کے عوام اس کے خلاف ہو جاٸیں گے ۔ اسی بات کو وہ انتہاٸی مکاری کے ساتھ استعمال کرتے ہیں, اور اب بھی کر رہے ہیں ۔ پس منظر دیکھیں تو بھارت اور امریکہ کی جتنی خدمت موجودہ حکومت نے کی ہے اتنا فاٸدہ اور کسی نے انھیں نہیں پہنچایا ۔ امریکہ میں کشمیر پر کوٸی عملی قدم نہ لینے کی مفاہمت ہو, جس کاضامن امریکہ تھا ٹرمپ اور وزیر اعظم صاحب کی مشترکہ پریس کانفرنس ملاحظہ فرما لیجٸیے, جس میں ٹرمپ سابقہ حکومتوں کے عدم تعاون کی مزمت اور نیازی صاحب کی حکومت کے شاندار تعاون کی تعریف اور اس پر اپنے ملک کے اطمنان کا اظہار کر رہا ہے۔ پھر واپسی پر نیازی صاحب کا بھارت کی طرف سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے پر کہنا کہ میں کیا کروں کیا جنگ چھیڑ دوں , اور یہ کہنا کہ جو کشمیریوں کی کسی قسم کی عملی مدد کرے گا وہ کشمیریوں سے دشمنی کرے گا ۔ پھر پارلیمنٹ میں ایک سے زاٸد بار کہنا, کہ انڈیا خود ہی کوٸی بہانہ بنا کر آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ پر حملہ کر دے گا اس کے بعد چند امریکی مطالبات جن کا تعلق افغانستان کے بارے میں امریکہ کی منشاء کے مطابق اقدامات سے تھا, کو تسلیم کر کے امریکی وقتی ضمانت ملی تو سانس میں سانس آٸی ۔ اب یہ نیا ڈرامہ شروع کر دیا ہے, یہی امریکی عہدیدار جس سے ایک نجی ملاقات میں یہ خیالات منسوب کٸیے جاتے ہیں اسی کو اسلامی کانفرنس میں بلا کر خوشگوار ملاقاتیں کی گٸیں ۔ اب یہ کہا جا رہا ہے کہ کچھ اعلی عہدے داروں کے تبادلہ جات اس عدم اعتماد کی تحریک کا باعث بنے ہیں , اس سے خطرناک بات اور غیر متنازعہ مقتدر اداروں کی توہین اور کیاہو سکتی ہے , گویا یہ بلاواسطہ طور پر موجودہ اہم عہدوں پر فاٸز حضرات پر الزام لگا رہے ہیں ۔ یہ احتجاج اس وقت کیوں نہیں کیا گیا جب وہی امریکی عہدیدار اسلامی کانفرنس پر بلواٸی گٸیں , میرا اس موضوع پر مضمون ” امریکی نقش قدم اور جمہوری افغانستان “ کا مطالعہ فرماٸیے ۔ تب امریکی عہدیدار کی اسلامی کانفرنس میں موجودگی کی وجہ سمجھ میں آ جاتی ہے ۔ یہ مبینہ خط سات تاریخ کو لکھا گیا اور ان کو اب یاد آیا جب عدم اعتماد کی کامیابی سامنے نظر آ رہی ہے ۔
واپس کریں