دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
موجودہ یک قطبی دنیا اور انسانیت کا ہدف اور حکمت عملی
ظفر محمود وانی� ۔ فلسفہ کالعدم
ظفر محمود وانی ۔ فلسفہ کالعدم
یہ موجودہ دنیا, یک قطبی نہیں ایک لحاظ سے, مقبوضہ ہے , اور دنیا کے انسانوں کی محروم اکثریت کے مقابلے میں فوجی اور اقتصادی لحاظ سے برتر , سرمایہ داروں کے مختصر گروہ, طاقت کے بل پر دنیا میں لوٹ مار اور استحصال بغیر کسی روک ٹوک کے جاری رکھے ہوے ہیں , یہ استحصالی گروہ اتنی طاقت پکڑ چکا ہے, کہ اپنے سرمایہ دارانہ نظام کے لٸیے کسی بھی امکانی خطرہ بننے کی صلاحیت رکھنے والے نظرٸیے کو ایک جرم اور براٸی قرار دے کر اس کے خلاف انتہاٸی اور ظالمانہ و غیر انسانی حربے کھل کر استعمال کرتا ہے , اور اپنے مفاد کے لٸیے خود ہی ایسے مسلح اور دہشت گرد گروہ تشکیل دیتا ہے , جیسے القاٸدہ , الشباب اور داعش وغیرہ ہیں ان کو وہ ایک ٹارگٹ بورڈ کی طرح اپنے ہدف کے علاقوں میں انسٹال کر دیتا ہے , اور کارواٸی کے بعد وہ علاقہ وہاں کے عوام تو بری طرح تباہ و برباد اور ان کے قدرتی وساٸل تو لوٹے جاتے ہیں , لیکن وہ مسلح گروہ محفوظ رہتے ہیں, اور کسی اور جگہ استعمال کے لٸیے ان کو ان کے لٸیے محفوظ بناے گٸے علاقوں میں دوبارہ سے منظم اور مسلح ہونے کا موقع اور اس سلسلے میں مدد فراہم کی جاتی ہے , دور حاضر میں طالبان بھی اس حکمت عملی کا ایک واضع ثبوت ہیں ۔ اس اصل زمہ دار اور براٸی اور ظلم و استحصال کی اصل زمہ دار ایول یعنی بڑی براٸی سے لڑنے کے لٸیے نظریہ انسانیت کی اخلاقی بنیاد اور محروموں کے اتحاد اور پرامن تنظیم کے قیام اور اسی نظریہ کے تحت جو ہر محروم اور مظلوم کے دل کی آواز ہو کسی قسم کے تعصب اور تخصیص سے پاک ہو , واحد راستہ اور نظریہ ہے جس کا جس دن اس رجیم نے اخلاقی طور پر مقابلہ کرنے کی کوشش کی , اس کی شکست کا اسی دن آ غاز ہو جاے گا, اور اگر اس نے ان پرامن نظریات کے حاملین کے خلاف طاقت کا استعمال کیا تو یہ بھی اس کی مزید بدنامی اورمظلوموں اور محروموں کے اتحاد , ان میں حقیقی ظالمانہ صورتحال کے احساس , شعور اور اس کے نتیجے میں بہتر تنظیم اور اتحاد کا باعث بنے گا , اور اس استحصالی گروہ کے خلاف اکثریت کے دلوں میں نفرت میں اضافہ ہو گا ۔ آپ ایک چھوٹے ماڈل سے یہ بات سمجھ سکتےہیں , فرض کیجٸیے کسی شہر یا علاقے کے امراء اپنی رہاٸش کے لٸیے ایک شاندار اور محفوظ گیٹڈ کمیونیٹی یا کالونی تعمیر کرتی ہے لیکن ان کو اپنے زندگی کی بنیادی ضروریات کے حصول کے لٸیے ان دروازوں سے باہر عوام کے پاس جانا ہی پڑے گا کہ یہ خوراک اور ضروریات خرید سکیں اب اگر عوام کی اکثریت میں ان کے خلاف نفرت اور ان کے استحصال کا شدید احساس پیدا ہو جاے , اور وہ ان کا باٸیکاٹ کرتے ہوے ان کو یہ انسانی ضروریات دینےیا فروخت کرنے سے انکار کر دیں , تو یہ لوگ کتنا عرصہ سرواٸیو کر سکتے ہیں ۔ اسی ماڈل کو بڑے پیمانے پر اگر دنیا میں ایپلاٸی کیا جاے تو اس استحصال کرنے والے گروہ کو شکست دی جا سکتی ہے ۔ اسکےلٸیے عوام میں اپنی حیثیت اور محرومی کے شعورکا احساس پیدا کرنا ہی موثر ترین حکمت عملی ہو سکتی ہے ۔ اس طرح یہ راستہ جلد طے ہو سکتا ہے , ورنہ ارتقاء اور مکافات کے ہزاروں سال طویل راستےکا انتخاب کرناپڑے گا, اور اس طویل راستے میں بھی ایک تباہ کن جنگ اور انسانوں اور دنیا کی اکثریت اور ماحول کی تباہی کےبعد ہی تقریباً نٸے سرے سے نٸی دنیا تعمیر کرنا ممکن ہو سکےگا ,لہزا علم شعور ,اتحاد اور پرامن جدوجہد کا راستہ ہی مختصر ترین راستہ ہے , جو ہمیں اور عالم انسانیت کو اس کی منزل تک جلد لے کر جا سکتاہے ۔
واپس کریں