دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
فلسفہ کالعدم ۔ دیتے ہیں دھوکہ یہ بازیگر کُھلا
ظفر محمود وانی� ۔ فلسفہ کالعدم
ظفر محمود وانی ۔ فلسفہ کالعدم
پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے کچھ لیڈرز، کارکن اور کچھ صحافی یہ سوال اٹھا اور پھیلا رہے ہیں کہ حالیہ آئینی اور سیاسی بحران کے وقت عدالتیں کیوں رات کے وقت طلب کی گئیں، اور فلاں قاتل، یا کسی اور مجرم کے لیے یہ رات کو کیوں نہیں کھولی جاتیں، ان کی اطلاع کے لیے ان کی یاداشت کو تازہ کرنے کی ضرورت ہے کہ دو ہزار اٹھارہ کے الیکشنز کے موقع پر مسلم لیگ نون کے امیدوار انجینئیر قمر الاسلام اور ایفیڈرین کیس میں حنیف عباسی صاحب کو اتوار والے دن عدالت لگا کر سزا سنائی گئی تھی، جن پر بعد ازاں یہ کیس جھوٹے ثابت ہوئے تھے، مقصد یہ تھا کہ کسی نہ کسی طرح ان اصحاب کو الیکشن سے باہر رکھا جا سکے۔

اس وقت تو کوئی نہیں بولا، نہ کسی کا ضمیر بیدار ہوا، جبکہ اب سوال ایک اہم ترین آئینی اختیار کا تھا جس کی یک طرفہ تشریح کرتے ہوئے ایوان کی اکثریت پر مبنی اپوزیشن کو بغیر کوئی صفائی کا موقع یا تحقیق کروائے، غدار قرار دے کے اسمبلی میں ان کے ووٹ کے آئینی حق سے صاف انکار کیا جا رہا تھا، گویا چونکہ عمران نیازی صاحب کو امریکہ نے اپنی سازش سے بذریعہ پاکستانی سفیر ”تھرو پراپر چینل“ مطلع کر دیا تھا، لہذا پاکستان کے عوام کی اکثریت کی نمائندگی کرنے والی تمام کی تمام اپوزیشن غدار ٹھہری، اور عوام کے لیے لازم قرار دیا جانے لگا کہ وہ بھی ان سب اپوزیشن کے اکثریتی ارکان کو غدار سمجھیں کیونکہ ”ریاست مدینہ“ والے عمران نیازی صاحب نے ان کو غدار قرار دے دیا ہے، سپیکر قومی اسمبلی کے اس غلط، غیر قانونی اور غیر آئینی فیصلے کے خلاف اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا، اور نہ صرف اس معاملے کی شفاف اور آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا، بلکہ خود کو بھی اس معاملے کی تحقیقات کے لیے پیش کیا، کیونکہ یہ غداری کا ایک انتہائی نوعیت کا الزام تھا، جس کی تفصیلات اور حقائق سامنے آنا ضروری تھا، لیکن حکومت اس ضمن کو کوئی سنجیدگی دکھانے کے بجائے اس الزام کو ایک گھٹیا انتخابی چال کے طور پر براہ راست عوام میں لے گئی، اور اس مبینہ خط سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوششیں شروع کر دیں، اس پر معاملے کی اہمیت اور حساسیت کے پیش نظر سپریم کورٹ نے اس سے پہلے کہ اپوزیشن کی طرف سے کوئی یہ اپیل لے کر عدالت میں جاتا اس معاملے کی اہمیت کے پیش نظر خود سوموٹو نوٹس لے لیا، اور تفصیلی طور پر فریقین کو سننے کے بعد سپیکر کے فیصلے کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیتے ہوئے، سپیکر قومی اسمبلی کو پابند کیا کہ وہ ہفتے کے روز اسمبلی کا اجلاس بلا کر تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کروائیں کیونکہ یہ اس ووٹنگ کی آئینی مدت کا آخری دن تھا، لیکن ہفتے کو اسمبلی کا اجلاس بلانے کے باوجود عمران نیازی حکومت واضح طور پر سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کرتی دکھائی دے رہی تھی، اور رات گیارہ بجے تک جب یہ بالکل واضح ہو گیا کہ حکومت سپریم کورٹ کے واضح حکم پر عمل کرنے میں سنجیدہ نہیں، تب سپریم کورٹ کی سٹنگ کا درست فیصلہ کیا گیا کیونکہ ملک کو شدید آئینی بحران اور ہیجان میں مبتلاء کر دیا گیا تھا، دراصل عمران نیازی اینڈ کو اپنی کرپشن کے مواخذے کے خوف سے یہ افراتفری پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے، اور ان کی کوشش ہے، کہ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار منتقل کرنے کے بجائے براہ راست الیکشنز میں جایا جائے، تاکہ ایک تو اپنی کرپشن پر کسی مواخذے سے بچا جا سکے اور ساتھ ہی عوام میں کرپشن، اور مذہبی کارڈ کھیلنے کی کوشش میں ناکامی کے بعد اب غداری کے الزام کا کارڈ کھیلا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ امریکہ دشمنی کے عوام کے جذبات کو بھڑکا کر انتخابی فائدہ حاصل کیا جائے، اسی سلسلے میں سابق ہو چکی حکومت کے وزیر داخلہ رہ چکے شیخ رشید عوامی اجتماعات میں کھلے عام خانہ جنگی کی دھمکیاں دیتے، اور پرتشدد احتجاج پر عوام کو اکساتے دکھائی دیے، لیکن ان کی طرف سے کھلے عوام کو ریاست کے خلاف بغاوت پر اکسانے پر ان اشتعال انگیز تقاریر اور عوام کو تشدد پر بھڑکانے کا حکومت کی طرف سے کوئی نوٹس نہیں لیا جا رہا، موصوف اس سے قبل بھی نون لیگ کی سابقہ حکومت کے خلاف جلسوں میں عوام کو گھیراؤ جلاؤ کے مشورے دیتے اور اکساتے پائے جاتے رہے لیکن حیرت انگیز طور پر ان کی ان اشتعال انگیز تقاریر جو دہشت گردی کے زمرے میں آتی ہیں، کا کوئی نوٹس لینے پر تیار نہیں، چاہے اس طرح ملک کو کتنا ہی نقصان ہی کیوں نہ پہنچ جائے، امکان یہی ہے کہ اس امریکہ نفرت کارڈ کو سیاسی مقاصد اور انتخابی سلوگن کے طور پر استعمال کے لیے پیشگی طور پر امریکہ سے اجازت لے لی گئی ہو گی، کیونکہ امریکی ضمانت پر کشمیر پر بھارتی مرضی کے مطابق مفاہمت، افغانستان میں ہر طرح سے امریکہ سے تعاون، یہ ظاہر کرتا ہے کہ باہمی تعلقات کی ایک رو سطح کے نیچے اوجھل حالت میں بھی چل رہی ہے، جس کو اور اس کی حدود کو مکمل طور پر میڈیا اور عوام سے پوشیدہ رکھا جا رہا ہے، اسی وجہ سے اب سابق ہو چکی حکومت انتہائی منافقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکہ کے خلاف ایک لفظ کہنے کو تیار نہیں۔اور خود ہی لکھوائے گئے پاکستانی سفیر کے مبینہ خط کو بنیاد بنا کر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پہلا سوال تو یہی ہے کہ امریکہ یہ ہدایت یا دھمکی کس کو اور کس کے ذریعے دے رہا تھا کیا وہ اسی حکومت سے مخاطب تھا، جس کے خلاف وہ مبینہ طور پر سازش کر رہا تھا یا وہ پاکستانی سفیر کو کہہ رہا تھا کہ وہ عمران نیازی صاحب کی حکومت کا تختہ الٹ دے۔ کیسی مضحکہ خیز بات ہے اور بہت سے عوام اور خود کو تعلیم یافتہ سمجھنے والے افراد بغیر کچھ سوچے اس پر یقین کر رہے ہیں۔ان میں سے کوئی یہ سوال اٹھانے کی زحمت نہیں کرتا کہ پوچھے کہ فرح گجر اور خاتون اول کی مبینہ کرپشن اور اس الزام کے امکان کا ذکر وزیر اعظم نے چند روز قبل تقریر میں کیوں کیا تھا اور پھر ”کس“ نے فرح گجر کو برقع پہنا کر پولیس کی حفاظت میں چارٹرڈ طیارے میں دوبئی روانہ کیا۔ ان اصحاب میں سے کوئی بھی حیرت انگیز طور پر امریکہ کے خلاف کچھ نہیں بول رہا نہ اس سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے بلکہ سابق وزیر خارجہ اپنی تقریر میں امریکہ اس الزام کے باوجود اچھے تعلقات کی خواہش کا اظہار فرماتے ہیں۔

واپس کریں