دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پاکستان میں آئین کی بالادستی
سید مجاہد علی
سید مجاہد علی
قومی اسمبلی نے شہباز شریف کو ملک کا تئیسواں وزیر اعظم منتخب کیا ہے۔ انہوں نے بطور قائد ایوان قومی اسمبلی سے اپنے پہلے خطاب میں سابقہ حکومت کے خلاف عالمی سازش کے سوال پر پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کا ان کیمرا اجلاس منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ تاکہ اس خط کے بارے میں حقیقی صورت حال واضح ہو سکے جس کی بنیاد پر عمران خان دعوی کرتے ہیں کہ ان کی حکومت گرانے کے لئے امریکہ نے سازش کی تھی اور اپوزیشن لیڈر اس سازش کا حصہ تھے۔ تحریک انصاف کے مطابق تحریک عدم اعتماد امریکی سازش کا براہ راست نتیجہ تھی اور اپوزیشن امریکی سازش میں آلہ کار بنی ہوئی تھی۔نو منتخب وزیر اعظم شہباز شریف نے دعوی کیا ہے کہ اس معاملہ پر قوم سے بہت جھوٹ بولا گیا ہے، اس لئے پورا سچ سامنے لانا ضروری ہے۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ پارلیمانی کمیٹی کے اس خفیہ اجلاس میں فوجی قیادت، آئی ایس آئی کے سربراہ، وزارت خارجہ کے سیکرٹری کے علاوہ سفارتی مراسلہ لکھنے والے سفیر کو تفصیلات بتانے کے لئے مدعو کیا جائے گا۔ اس طرح اس خط کی حقیقت اور عمران خان حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو سازش قرار دینے کے دعووں کی قلعی کھولی جائے گی۔ شہباز شریف نے یہ وعدہ بھی کیا ہے کہ اگر عمران خان کے الزامات درست ثابت ہوئے تو وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہوجائیں گے۔

شہباز شریف نے قومی اسمبلی کو یہ بھی بتایا ہے کہ تحریک انصاف دعوی کرتی ہے کہ حکومت کے خلاف سازش کے بارے میں خط 7 مارچ کو موصول ہوا۔ اس لئے 8 مارچ کو پیش کی جانے والی تحریک عدم اعتماد اسی سازش کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریکارڈ کی درستی کے لئے جاننا ضروری ہے کہ تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ 3 مارچ کو کیا گیا تھا۔ اس لئے یہ دعوی جھوٹ پر مبنی ہے کہ امریکہ سے آنے والے خط کے بعد تحریک عدم اعتماد تیار کی گئی تھی۔ انہوں نے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کے اس دعوے کو بھی مسترد کیا کہ انہیں اپوزیشن لیڈر کے طور پر حکومت کے خلاف سازش کی کوئی دستاویز دکھائی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ انہیں کوئی سفارتی مراسلہ نہیں دیا گیا اور نہ ہی انہوں نے ایسی کوئی دستاویزات دیکھی ہیں۔ تاہم اب پارلیمانی کمیٹی کے خفیہ اجلاس میں دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا۔

نومنتخب وزیر اعظم کا یہ اقدام بروقت اور ضروری ہے۔ اسی سفارتی مراسلہ کی بنیاد پر ملک میں اس وقت ایک طوفان برپا ہے اور تحریک انصاف نہ صرف احتجاج کر رہی ہے بلکہ قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ سابقہ حکومت کے عہدیدار نئی حکومت کو درآمد شدہ قرار دے کر یہ واضح کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ملک کی خود مختاری پر سودے بازی کی گئی ہے۔ ان کا الزام ہے کہ اسلام آباد میں ہونے والی تبدیلی مقامی سیاسی ضرورتوں کی وجہ سے رونما نہیں ہوئی بلکہ عمران خان کی خود مختارانہ خارجہ پالیسی کی وجہ سے امریکہ نے انہیں اقتدار سے محروم کرنے کی سازش کی تھی۔ واشنگٹن سے تردید کے باوجود پاکستانی عوام کی بہت بڑی تعداد اس الزام میں حقیقت تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ان سطور میں درخواست کی گئی تھی کہ یہ خط لکھنے والے سفیر کو کسی مناسب فورم پر بلا کر حقیقت حال جانی جائے اور اس سے پاکستانی قوم کو آگاہ کیا جائے۔ شہباز شریف کے اعلان سے یہ مرحلہ طے ہو سکتا ہے لیکن انہیں یہ اقدام پہلی فرصت میں کرنا ہو گا تاکہ ان کی اپنی حکومت پر امپورٹڈ ہونے کا لگا ہوا داغ دھل سکے۔اس کے ساتھ ہی یہ باور کروانا بھی اہم ہے کہ شہباز شریف اور ان کی اتحادی پارٹیاں آئینی بالادستی اور اسٹبلشمنٹ کو سیاسی معاملات سے علیحدہ کرنے کی حکمت عملی کی بنیاد پر اقتدار تک پہنچنے کا دعوی کرتی ہیں۔ وہ اپوزیشن پارٹیوں کے طور پر کہتی رہی ہیں کہ عمران خان سلیکٹڈ وزیر اعظم تھے، البتہ اب اسٹبلشمنٹ نے نیوٹرل رہنے کا وعدہ کیا ہے۔ ملک میں حکومت کی تبدیلی کو فوج کی اسی غیر جانبداری کا نتیجہ قرار دیا جا رہا ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں نے تحریک عدم اعتماد پیش کی، حکومت کی چھوٹی اتحادی جماعتوں پر چونکہ اسٹبلشمنٹ کا دباو نہیں تھا، اس لئے انہوں نے آزادی سے فیصلہ کرتے ہوئے اپوزیشن کی تحریک کا ساتھ دینے کا ارادہ ظاہر کیا اور قومی اسمبلی کی اکثریت عمران خان کے خلاف ہو گئی۔ ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے ایک رولنگ کے ذریعے تحریک عدم اعتماد مسترد کر کے ایوان میں اکثریت کی رائے کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی لیکن سپریم کورٹ نے اس رولنگ اور اس کے نتیجہ میں ہونے والے اقدامات کو غیر آئینی قرار دے کر تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کروانے کا حکم دیا۔

یہاں تک سب معاملات قانونی و آئینی طریقہ کے مطابق دکھائی دیتے ہیں لیکن 9 اپریل کو بار بار تعطل کے باوجود تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ نہیں کروائی گئی۔ بلکہ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر رات 9 بجے وفاقی کابینہ کے اجلاس کے موقع پر وزیر اعظم ہاوس طلب کرلئے گئے۔ اس کے بعد اور رات پونے بارہ بجے اچانک اسپیکر اسد قیصر کے استعفی تک کے وقفے میں رونما ہونے والے واقعات کی تفصیل سامنے نہیں ہے۔ حالانکہ ان واقعات کے متعدد چشم دید گواہ موجود ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ سازش کا ڈھنڈورا پیٹنے والے تحریک انصاف کے لیڈر نئی حکومت کو ملکی خود مختاری کے خلاف قرار دینے کی بجائے ان دو اڑھائی گھنٹوں کی روداد بتانے سے گریز کر رہے ہیں؟ اس کے ساتھ ہی یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ کیا قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اس وقت وزیر اعظم ہاوس میں طے کیے جانے والے معاملات اور ظہور پذیر ہونے والے واقعات سے آگاہ تھے؟ ان دونوں سوالات کے جواب ہی یہ طے کر سکتے ہیں کہ ملک میں رونما ہونے والی تبدیلی آئین و قانون کے مطابق ہوئی ہے یا ایک بار پھر طاقت کے زور پر اپنی بات منوائی گئی ہے اور سابقہ اپوزیشن اور موجودہ حکمران پارٹیاں اس اقدام کو قومی مفاد قرار دے کر مطمئن ہیں کیوں کہ اس طرح انہیں حکومت قائم کرنے کا موقع مل گیا ہے۔

تحریک انصاف چند روز پہلے تک پاک فوج اور سپریم کورٹ کو ملک کے اہم ادارے قرار دیتے ہوئے، ان کے کسی بھی اقدام کے بارے میں اختلافی رائے کو ملک دشمنی قرار دیتی تھی۔ لیکن اس وقت تحریک انصاف کے ہمدرد پوری شدت سے اسٹبلشمنٹ اور سپریم کورٹ کو پاکستان میں جمہوریت اور قومی مفاد کا قاتل قرار دے رہے ہیں۔ سیاست میں اسٹبلشمنٹ کے کردار کو محدود کرنے کے لئے البتہ نعرے بازی سے زیادہ کسی مناسب حکمت عملی اور ملک میں بین الجماعتی اتفاق رائے ضروری ہو گا۔ کیا تحریک انصاف اس ایک نکتہ پر ہی سہی، نئی حکومت میں شامل پارٹیوں کے ساتھ سیاسی مکالمہ کرنے اور مناسب قانون سازی کی کوشش کرے گی؟ یا اسٹبلشمنٹ کو صرف اسی وقت برا کہا جائے گا جب وہ کسی ایک خاص پارٹی کی سرپرستی سے معذوری ظاہر کرے؟

یہ خبر سامنے آ چکی ہے کہ مبینہ طور پر ہفتہ کو کابینہ کے اجلاس سے پہلے یا دوران عمران خان نے آرمی چیف تبدیل کرنے کا حکم دیا تھا۔ وزیر اعظم کے اس حکم پر وزارت دفاع نے نوٹی فکیشن جاری نہیں کیا۔ البتہ خبر پھیل جانے سے فوجی قیادت حرکت میں آئی اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن بھی دائر کردی گئی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے رات گئے عدالت لگانے کا اعلان بھی کر دیا۔ چوں کہ تبدیلی کا نوٹی فکیشن جاری نہیں ہوا تھا، اس لئے پٹیشن پر کارروائی نہیں ہو سکی۔ اس حوالے سے چند سوالات کا جواب تلاش کرنا پاکستان میں آئین کی بالادستی کے لئے بے حد ضروری ہے :

1) اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے کس آئینی شق کے تحت رات گئے عدالت لگانے کا فیصلہ کیا تھا۔ کیا کسی بھی شہری کی فریاد پر چھٹی والے دن عدالت لگانے کا یہ طریقہ مستقبل میں بھی دیکھا جائے گا؟ اس کا جواب اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کو دینا چاہیے۔

2) اگر عمران خان نے بطور وزیر اعظم آرمی چیف کو ہٹانے کا مبینہ حکم دیا تھا تو کیا وزارت دفاع کو اس کی قانونی حیثیت کا جائزہ لینے کا اختیار تھا؟ اگر وزیر اعظم کے حکم پر عمل درآمد ضروری ہے تو کن افسروں یا سرکاری اہلکاروں نے ایک منتخب وزیر اعظم کے احکامات ماننے سے انکار کیا اور نئی حکومت ان کے خلاف کیا کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

3) وزیر اعظم ہاوس کے ریکارڈ اور موقع پر موجود لوگوں کی شہادت کی بنیاد پر یہ واضح کیا جائے کہ کیا اعلی فوجی افسر مکمل سیکورٹی کے ساتھ وزیر اعظم ہاوس آئے تھے؟ اس دورہ کا مقصد کیا تھا اور اس کی قانونی حیثیت کیا ہے۔ کیا اعلی فوجی قیادت وزیر اعظم سے اجازت ملے بغیر ہیلی کاپٹر میں سوار ہو کر زبردستی وزیر اعظم ہاوس میں داخل ہونے کا استحقاق رکھتی ہے؟

4) کیا یہ فوجی افسر قومی اسمبلی میں جاری جمہوری اور آئینی تعطل پر بات کرنے کے لئے وزیر اعظم ہاوس گئے تھے؟ اگر یہ تاثر درست ہے تو جاننا چاہیے کہ ان افسروں کو آئین کی کون سی شق ایسا اقدام کرنے کا حق دیتی ہے؟

تاہم اس صورت حال میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا اقتدار سے محروم ہونے والی تحریک انصاف اور برسر اقتدار آنے والی سیاسی جماعتیں آئین کی بالادستی، سیاسی معاملات میں فوجی مداخلت کی روک تھام اور ملک میں جمہوری انتظام کو موثر و فعال بنانے کے لئے مل جل کر کام کر سکتی ہیں یا ذاتی ضرورتوں کے حصار میں قید ہو کر غیرآئینی اقدام کرنے والی قوتوں کو سرفراز کرتی رہیں گی۔
(بشکریہ کاروان ناروے)




واپس کریں