دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
فلسفہ کالعدم ۔ اشترک ہی انسانیت کی بقاء
ظفر محمود وانی� ۔ فلسفہ کالعدم
ظفر محمود وانی ۔ فلسفہ کالعدم
اگر آپ سٹیٹ لیس سوساٸٹی کامفہوم یہ سمجھ بیٹھےہیں کہ ایک سرزمین لاقانون جہاں انارکزم کے نام پرکسی کوہلاک کرنا , لوٹنا , جلانا رواج ہو تو زرا ٹھنڈے دل سے غور فرماٸیے وہاں مساوات اور احترام انسانیت کی بنیاد پر کیاکوٸی محدود یا عالمی معاشرہ قاٸم ہونا ممکن ہے ؟ اس ضمن میں میں کٸی مضامین تحریر کر چکاہوں جن کی تھیم اور عنوان ہی , ” کرہ ارض بنی نوع انسان کے لٸیے “ ہے جس میں خود ساختہ ملکوں سرحدوں کی شکل کے قید خانے نہ ہوں , جن کی بنیاد مزھب قومیت , لسانیت وطنیت یا سیاست ہوتی ہے ۔ جب بنی نوع انسان کی بنیادی ضروریات , خواہشات اور جزبات ایک سے ہیں تو ان کو کیوں ملکوں کی شکل میں مختلف حیلے بہانوں سے تقسیم کرنے دیا جاے ۔ آپ غور فرماٸیں اس وقت مروجہ نظام میں انسانوں کی نقل و حرکت پر تو پابندی ہے لیکن پیسہ یعنی سرمایہ بلا روک ٹوک دنیا کے ایک کونے سے دوسرےکونےتک آزادانہ طور پرجا رہا ہے گویا سرحدوں میں مقید بناے گٸے انسانوں کو مختلف بہانوں سے لوٹیں اور مال غنیمت اورلوٹ کا مال آزادی سےجہاں جی چاہے لے جاٸیں ۔ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ سرمایہ انسانوں کی ہلاکت کے لٸیے بناے گٸے آلات و ہتھیاروں اور ان پر تحقیق پر خرچ ہو رہا ہے ہم نے کس کو مارناہے , ظاہرہے یہ سب انسانوں کو ہی مارنے لوٹنے اور مفتوح بنانے کے مقصد سے ہی رکھے , بناے اور حاصل کٸیے جاتےہیں پہلےکسی معاشرے میں منصوبہ بند طریقے سے بےچینی اور پھر انارکی پیدا کی جاتی ہے اورپھر اسی بہانے حملہ کر کے مزید قتل و غارت کے بعد وساٸل کی لوٹ مار کی جاتی ہے ۔ اس کی ہمیں ماضی قریب میں بہت سی مثالیں ملتی ہیں , جیسے کہ عراق افغانستان وغیرہ وغیرہ ۔ اگر ساری دنیا ایک ” انسانیت کے مشترکہ ورثے کی بنیاد پر ایک ” سٹیٹ لیس “ سوساٸٹی بنا دی جاے, تو اس میں افریقہ کے کسی صحراء میں رہنے والے انسان کا انسانی حق کسی بھی ترقی یافتہ ترین علاقے کے انسان کے برابر تسلیم کرنےکے سوا کوٸی چارہ یا بہانہ نہیں رہے گا ,اس وقت دنیا میں جتنا پیسہ ہتھیاروں اور ان کی تحقیق کے لٸیے استعمال ہو رہاہے اس کے ایک تہاٸی سے ہی ہم تمام عالم انسانیت کی موجودہ علم , ساٸنس اور ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوے انسانی مشکلات دورکر کے ان کو بنیادی ضروریات کی معیاری فراہمی سے ہمکنار کر سکتے ہیں ۔ اس بات پر تو سب اہل علم , (سواےان کے جن کی بصیرت کوخرید لیاگیاہے) متفق ہیں کہ موجود علم ساٸنس اور ٹیکنالوجی کو مثبت طریقے سے استعمال کر کے ہم دنیا کی انسانی ضروریات وخوراک کی پیداوار تین گنا تک بڑھا سکتے ہیں ۔ توانارکی کے بجاے محبت اور تعاون , تقسیم کے بجاے اشتراک ہی عالم انسانی کی بقاء , ترقی اور سربلندی کا ضامن ہے ۔ دورِ قدیم سے ظلم اور استحصال کے انہی خدشات کے ازالے کی خواہش میں ” جنت “ کا تصور بنی نوع انسان میں پروان چڑھا , اب فرق صرف اتنا آیا ہے کہ قدیم انسان اپنی بےبسی اور کم علمی و کم ماٸیگی کی وجہ سے اس ,تصور , کے تصور سے ہی خوش اور مطمٸین رہتا تھا , جبکہ آج کا محروم شعور اپنی زندگی میں ہی اپنےسامنے اور آس پاس یہ جنت تعمیر کرنے کی کوشش اور خواہش رکھتا ہے ۔ اس جواز کے بارے میں انسانیت کے مختلف طبقات کی طرف سے وقتاً فوقتاً اٹھاے جانے والے سوالات اور انفرادی آوازیں مل کر ایک طاقتور اور پرکشش بیانٸیے کی صورت اختیار کرتی جا رہی ہیں, اور یہ ایک ایسی جنگ ہے, جو بغیر تشدد کے لڑنے کے انوکھے نظرٸیے پر مشتمل ہے , اور اس کے غیر روایتی طرز عمل اور شعوری جدوجہد اور نظریاتی لام بندی سے روایتی استعمار اور مجسم استحصال پریشان ہے, کیونکہ وہ روایتی طور پر ایسے ان کے مخالف نظریات کو طاقت کے استعمال کے زریعے کچل ڈالنے کے عادی ہیں, لیکن اس بیانٸیے کی طاقت اور غیر متشدد طریقہ کار اور اس کے پھیلاو کی رفتار نے انھیں پریشان اور گھبراہٹ کا شکار کر دیا ہے کیونکہ استعمار کے ظالمانہ نظرٸیے کا کھوکھلا پن مکالمے کا سامنا کرنے کے قابل ہی نہیں رہا , لہزا تشدد ہی ان کی آخری امید رہ جاتی ہے , جس طرف جدید حریت پسند جاے گا نہیں, بلکہ وہ انھیں اپنی برتری یعنی مکالمے اور انسانی بنیادی اخلاقیات کے میدان میں گھسیٹ لاے گا , جہاں استعمار اور استحصال کی شکست یقینی ہے ۔
واپس کریں