دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آزاد کشمیر میں محکمہ سیاحت اور محکمہ آثار قدیمہ کی علیحد گی کا حکومتی اقدام
ظفر محمود وانی� ۔ فلسفہ کالعدم
ظفر محمود وانی ۔ فلسفہ کالعدم
حکومت آزاد کشمیر نے آزاد کشمیر میں موجود قومی ورثے یعنی یہاں موجود مختلف نوعیت کے آثار قدیمہ کی بحالی , حفاظت اور مناسب مرمت کے مقصد سے ایک اچھے اور مثبت اقدام کے طور پر محکمہ آثار قدیمہ کو محکمہ سیاحت کے ایک زیلی شعبہ کی حیثیت کے ,ماضی کے طریقہ کار کو بدلتے ہوے اور بجا طور پر محکمہ آثار قدیمہ کی اہمیت کا احساس کرتے ہوے اس کو سیاحت سے الگ وزارت دے کر اس محکمہ کو ایک لحاظ سے اپ گریڈ کرتے ہوے , محکمہ سیاحت سے الگ کر دیا ہے , جب کہ پہلے ان دونوں محکمہ جات یعنی محکمہ سیاحت اور محکمہ آثار قدیمہ کو ایک ہی وزارت کےزیر کار رکھا گیا تھا , جس کی وجہ سے قومی اور تاریخی اہمیت کا حامل اہم محکمہ آثار قدیمہ محکمہ سیاحت کا ایک نظرانداز شدہ زیلی شعبہ بن کر رہ گیا تھا۔ ہمیں گہراٸی سے جاٸزہ لینا چاہٸیے, کہ یہ حالیہ حکومتی اقدام کس طرح اس قومی ورثہ یعنی آثار قدیمہ کی واگزاری , بحالی, بہتری اور تحفظ کا باعث بن سکتا ہے ۔

میرے خیال کے مطابق یہ فیصلہ درست ہے, کیونکہ آزاد کشمیر میں اکثر آثار قدیمہ معدومی , تباہی اور خستہ حالی کا شکار ہیں, اس کے علاوہ ناجاٸز طور پر پراٸیویٹ اور مختلف سرکاری اداروں کے زیر قبضہ اور زیر استعمال ہیں ۔ جب ہم اپنے اس قومی ورثے کو پہلے واگزار , مرمت اور محفوظ بناٸیں گے , تب ہی یہ آثار سیاحت کے مقصد سے کام آ سکیں گے ۔ ویسے بھی دونوں کاموں یعنی آثار قدیمہ کا تحفظ , بحالی اور مرمت اور محکمہ سیاحت کے مطلوبہ قدامات کا ڈومین اور ضروریات ہی بالکل الگ ہیں, ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ دونوں محکمےاپنا اپنا ایریا آف ورک طے کر کے بہتر طریقے سے کام کر کے اپنی اپنی تخصیصی مہارت کو بہتر طور پر منظم اور استعمال کر کے اچھی منصوبہ بندی اور اس پر عمل سے اپنی زمہ داری کے شعبوں کی مجموعی صورتحال اور کیفیت میں بہت بہتری لا سکتے ہیں ۔

محکمہ آثار قدیمہ کو تکنیکی بنیادوں پرمنظم کیا جانا چاہٸیے اور اس میں ایسے افسران اور انجینٸیرز کو تعینات کیا جانا چاہٸیے , جن کو ان آثار کی تاریخی اہمیت , قدیم طرز تعمیر اور مٹیریلز کی سمجھ , شعور اور دلچسپی ہو , ان آفیسران اور انجینٸیرز کو اس خصوصی شعبے کی بہتر تربیت اور ان شعبوں میں اپناے جانے والے جدید طریقہ کار سے آگاہی اور تربیت کے لٸیے محکمہ آثار قدیمہ پاکستان اور والڈ سٹی لاہور کے علاوہ نیشنل کالج آف آرٹس میں بھیجا جانا چاہٸیے ,کیونکہ عام طور پر یہاں انجینٸیرز اپنے عمومی نوعیت کے کاموں کے بارے میں ہی آگاہی اور اہلیت کے حامل ہیں ,جبکہ آثار قدیمہ کی بحالی , مرمت آج کے دور میں انجینٸیرنگ سے متعلقہ ایک الگ شعبہ یا فیکلٹی کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں ۔ محکمہ آثار قدیمہ آزاد کشمیر کو پہلے آثار قدیمہ کی شناخت , ان کی تاریخی اہمیت , ناجاٸز سرکاری و غیر سرکاری قبضہ سے واگزاری , پھر ان آثار کی ان کی اصل کے مطابق بحالی اور مرمت کے امور سرانجام دینے چاہٸیں , اور ان آثار قدیمہ کو قومی ورثہ قرار دیا جانا چاہٸیے ۔

محکمہ سیاحت کا ڈومین ان ہی مقامات کے بارے میں بالکل الگ نوعیت کا ہوتا ہے , محکمہ سیاحت کا بنیادی کام سیاحوں کے لٸیے سہولت کاری اور اس مقصد سے مختلف سیاحتی مقامات پر ایسا ماحول اور سہولیات کی فراہمی پر توجہ دینا , جس سے سیاح حضرات باآسانی , حفاظت اور سہولت کے ساتھ محکمہ سیاحت کی طرف سے بہتر انداز میں تشہیر اور رہنماٸی شدہ مقامات کی سیاحت کر سکیں ۔ آج تک آزاد کشمیر میں موجود آثار قدیمہ کی تباہی , اور فرسودگی اور پھر معدومی کی بنیادی وجہ ہی یہ ہے کہ محکمہ سیاحت کابنیادی کام اورمہارت سیاحت اور اس سے متعلق دیگر امور کے بارے میں ہی ہوتی ہے , جبکہ ان آثار قدیمہ کی بحالی اور مرمت ایک خالصتاً مخصوص فنی مہارت اور ان کے تاریخی شعور , اور ان آثار کے ارد گرد کے ماحول کو ان آثار کے تاثر اور کیفیت کے منطبق رکھنے سے متعلق کام اور اس کام کی بہتر فہم اور تربیت سے متعق ہے ۔ لہذا محکمہ آثار قدیمہ اور سیاحت کو الگ کرنا حکومت وقت کا ایک احسن اور مفید اقدام ہے ۔ اور اس اقدام سے آزاد کشمیر کے دونوں اہم شعبوں میں کافی بہتری کی امید رکھی جا سکتی ہے ۔

واپس کریں