دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آزاد خارجہ پالیسی
ظفر محمود وانی� ۔ فلسفہ کالعدم
ظفر محمود وانی ۔ فلسفہ کالعدم
ممتاز دانشور اور سابقہ چیف جسٹس آزاد کشمیر محترم منظور الحسن گیلانی کی وال پر لگائی گئی پوسٹ اور اس پر راقم کا تبصرہ ۔دنیا میں کامیاب ترین آزاد خارجہ پالیسی افغانستان کی ہے جس نے روس کے بعد نیٹو کو شکست دی اور اب عرب ملکوں ، پاکستان ، ایران اور ترکی سے بھی بے نیاز ہے - عمران خان بھی اگر آزاد خارجہ پالیسی رکھنا چاھتا ہے تو اس میں کیا برائ ہے " ( محترمی منظور الحسن گیلانی صاحب، کی پوسٹ )(اور اس پر راقم کا تبصرہ)
اب تو یہ بات کرنی نہیں چاہئیے جب امریکی کانگرس میں ایک منی بل پر بحث کے دوران یہ بتایا گیا کہ امریکہ طالبان کے قطر والے دفتر کا تمام خرچ کرایہ وغیرہ شروع سے ادا کرتا رہا ہے اور طالبان رہنماوں کو تنخواہ تک دیتا رہا ہے اور اس مدت میں اس مد میں تیرہ ارب ڈالر کی رقم خرچ کی گئی ۔ دراصل طالبان امریکی پراکسی ہی ہیں ، جن کو پاکستانی فوج اور ائیر فورس کو استعمال کرواتے ہوے افغانستان پر مسلط کروایا گیا ۔ اس کا بڑا مقصد روس اور وسط ایشیا کے پاکستان کے ساتھ اور سی پیک کے ساتھ زمینی رابطے کی راہ میں ایک رکاوٹ تشکیل دینا ہے ۔ پاکستان نے امریکی حکم پر ہی تاریخ میں پہلی بار بھارت کو افغانستان کے لئیے زمینی راستہ فراہم کیا ، ان کے لئیے مالی مدد کے لئیے حصول کے لئیے امریکی ہدایت اور فزیکل نگرانی میں ہی اسلام آباد والی "اسلامی وزراے خارجہ کانفرنس" منعقد کروائی ، اب تو امریکی عہدیداروں کی اس کانفرنس میں موجودگی سامنے آ چکی ہے ۔ اسی امریکی اشارے پر پلان بی کے طور پر افغانستان کے تین صوبوں میں داعش کو محفوظ رکھا گیا ہے ۔ اسی امریکی حکم اور منصوبہ بندی کے تحت افغانستان میں پاکستان مخالف دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں ، تحفظ اور امداد فراہم کی جا رہی ہے ، افغانستان سے بھیجے جانے والے دہشت گرد جن کو سی آئی اے اور ان کی " ایکسٹینشنز "کی معاونت اور سرپرستی واضع ہے، پاکستان میں خطرناک دہشت گردانہ حملے شروع کر چکے ہیں ۔ پاکستان کی سرحد پر خطیر سرماے سے لگائی گئی باڑھ طالبان کی نگرانی میں اکھاڑی جا رہی ہے ، ان ہی طالبان کے لئیے امریکہ افغانستان میں ستر ارب ڈالر کا جدیر اسلحہ اس کا ایمونیشن اور فوجی گاڑیاں چھوڑ کر گیا ہے، اب پاکستان کی افواج پر سرحد پار سے حملے کئیے جاتے ہیں اور ہم کھل کر ان کی مزمت تک کرنے کے قابل نہیں رہ گئیے ۔ بلکہ الٹا ہم طالبان کی ایکسٹینشن کا توہین آمیز کردار ادا کر رہے ہیں ۔
ہمیں امریکی اطاعت کرنے میں تو کوئی مزاحمت یا جھجک نہیں، لیکن ہم نے کبھی افغانستان کے عوام کے جابرانہ اور ظالمانہ طور پر جمہوری حقوق کو سلب کرنے اور ان حقوق کی اعلانیہ تنسیخ کے خلاف کبھی آواز بلند نہیں کی ۔ہمارے ملک کے ساتھ طالبان کے مخاصمانہ اور توہین آمیز سلوک کے باوجود ، اپنے عوام کی حالت زار کے باوجود، ہم اپنے عوام کا پیٹ کاٹ کر طالبان رجیم کے لئیے راشن اور دیگر بنیادی اشیاء ضروریہ کی لائف لائن قائم کئیے ہوے ہیں، ہماری یہ امداد افغان عوام کے لئیے نہیں بلکہ وہاں قابض گروہ کے لئیے ہوتی ہے، اور ان کے ہی حوالے کی جاتی ہے ، جن کی قیادت کے اپنے بچے بچیاں تو گلف سے لے کر پاکستان اور مغربی ممالک تک میں زیر تعلیم ہیں، اور افغانستان میں انہوں نے لڑکیوں کے سکول تک بند کر دئیے ہیں ۔ آپ بہتر جانتے ہیں کہ حالات اور اصل پالیسیاں وہ نہیں ہوتیں جو نو بجے والی خبروں میں اور نواے وقت میں بتائی اور دکھائی جاتی ہیں ۔
زرا معلوم فرما لیجئیے کہ چند برس قبل جب وادی کشمیر میں شدید ترین سیلاب آیا تھا، عین ان ہی دنوں گلمرگ میں کس پاک و ہند مشترکہ ایسوسی ایشن کے ممبران اپنی فیملیوں سمیت کن تقریبات کے سلسلے میں موجود تھے ؟ زرا کسی سے یہ بھی معلوم فرما لیجئیے کہ بھارت جو دن میں دو مرتبہ کلبھوشن تک رسائی کے لئیے وزارت خارجہ سے احتجاج اور رابطہ اور دنیا بھر میں شور ڈالا کرتا تھا، اب کیا ایسا ہو گیا کہ مکمل سکون میں اور خاموش ہے ۔ یہ اس لئیے کہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو اپنی والدہ اور بیگم کے پاس پہنچا دیا جا چکا ہے ۔ یہ حقیقت ایک ٹی وی پروگرام میں اس وقت کے وزیر امور کشمیر علی امین گنڈاپور روانی میں فرما گئے کہ کلبھوشن یادو کو واپس بھجوایا جا چکا ہے جب اس پر اینکر نے زرا حیرت کا اظہار کیا تو یہ کہہ کر بات سنبھالنے کی کوشش کی کہ یہ نواز شریف نے بھجوایا تھا ۔ جبکہ کلبھوشن نواز شریف اور مسلم لیگ ن کا دور حکومت ختم ہونے کے بعد بھی یہیں موجود تھا ۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان میں حکومت کوئی بھی ہو امریکہ ، بھارت ، افغانستان ، سعودیہ کے بارے میں خارجہ پالیسی کون چلاتا ہے اور ان ممالک کے ساتھ تعلقات کی نوعیت اور دائرہ کار کون طے کرتا ہے ۔ یہ جو اب پاکستان نے مسئلہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد بھارت سے تجارتی تعلقات کی بحالی کا فیصلہ کیا تھا کیا کسی سول حکومت کی اتنی جرات ہو سکتی تھی کہ وہ اتنا بڑا فیصلہ کر لیتی ۔
سابقہ پی ٹی آئی حکومت نے پاکستان کا مالیاتی نظام آئی ایم ایف کی نگرانی میں دینے کا اور ان ہی کے تنخواہ دار ملازم کو گورنر سٹیٹ بینک مقرر کرنے کا جو فیصلہ کیا تھا کیا وہ اس قدر اختیار رکھتے تھے ؟ کرتار پورہ کاریڈور کھولنے کا محترمہ بےنظیر بھٹو شہید, اشارہ تک دیں تو انہیں غدار اور سیکورٹی رسک قرار دے دیا جاتا ہے ، لیکن جب خود یہ فیصلہ کرنا ہو تو اسے بہترین قومی مفاد میں بتایا جاتا ہے ۔ دراصل پاکستان میں آج تک کسی سول حکومت کو ملک کی ڈرائیونگ سیٹ پر مکمل اختیار کے ساتھ کبھی بیٹھنے نہیں دیا گیا , چاہے اس کے لئے ان کے جان ہی کیوں نہ لینی پڑ جاے ، یا ان پر غداری کا لیبل ہی کیوں نہ چسپاں کرنا پڑے ، سول حکمرانوں کو صرف اس لئیے سامنے رکھا جاتا ہے کہ اپنی پالیسیوں کی ناکامی کے اثرات کا زمہ دار ان کو ٹہرایا جا سکے ۔
آپ ایک باخبر اور وسیع المطالعہ دانشور ہیں اور یہ ساری پوزیشن ، حقائق اور ان کا اصل پس منظر آپ کی نگاہوں سے پوشیدہ رہنا ممکن ہی نہیں ہے ، لہزا آپ کی پوسٹ پر اس " معصومانہ " موقف اور نقطہ نظر پیش کرنے پر حیرت ہوئی ۔ اگر آپ عمران خان کی حالیہ چیخ و پکار اور اسٹیبلشمنٹ کو بار بار " ایس او ایس " سگنل دینے اور ان سے مداخلت کی اپیلیں کرنے کے باوجود عمران نیازی صاحب کی مبینہ اور نام نہاد " آزاد خارجہ پالیسی کے بارے میں کسی خوش فہمی کا شکار ہیں تو اس پر کیا تبصرہ کیا جا سکتا ہے ۔
امریکہ نے پاکستانی سفیر کو بلا کر عمران نیازی کی حکومت گرانے کا جو حکم یا دھمکی دی تو زرا سوچنے کی بات ہے کہ کیا سفیر صاحب اتنی طاقت اور اختیار رکھتے تھے، کہ وہ عمران نیازی کی حکومت گرا سکتے ؟ یا امریکہ ان کو یہ کہنے کی کوشش کر رہا تھا کہ ہم عمران نیازی کی حکومت کے خلاف سازش کر رہے ہیں آپ جا کر نیازی صاحب کو بتا دو ۔۔ یا ان کا مخاطب پاکستان میں کون تھا جو حکومت کو گرانے کی طاقت رکھتا ہو ؟ یہ ملین ڈالر سوال ہے ۔ جتنی تابعداری امریکہ اور بھارت کی عمران نیازی نے کی، تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی ۔ دورہ امریکہ کے دوران ٹرمپ کا ان کے سامنے مشترکہ پریس کانفرنس میں سابقہ حکومتوں کے عدم تعاون اور عمران نیازی صاحب کی حکومت کی طرف سے مکمل تعاون کرنے اور اس پر اپنے اطمنان کا واشگاف اظہار کِیا، یہ پریس کانفرنس ریکارڈ پر موجود ۔اسی دورے میں کشمیر پر متوقع اور مجوزہ بھارتی اقدامات پر کوئی عملی قدم نہ اٹھانے کا اقرار کیا گیا, اسی اقرار کو اور اپنے روایتی موقف سے انحراف کو آج ہم کشمیر کا سودا کرنے کے نام ے یاد کرتے ہیں, اور آج اس کے شواہد بھی ہمارے سامنے ہیں ، افغانستان سے امریکی انخلاء کے دوران نیازی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے مکمل تعاون اور سہولت کاری کسی سے پوشیدہ نہیں۔ عمران نیازی صاحب اور ان کے حمایتی کیوں امریکی سفارت خانے کے سامنے یا امریکہ میں احتجاج نہیں کرتے ۔ شواہد اور امریکہ کی خاموشی تو یہ بتاتی ہے کہ نیازی صاحب نے امریکہ اور بھارت کے لٸیے اپنی بیش قیمت خدمات کے عوض پاکستان کے عوام کے سامنے اس جھوٹی مہم چلانے کی باقائدہ اجازت پیشگی طور پر امریکہ سے حاصل کر لی ہے ۔ جانے نہ جانے گُل ہی نہ جانے ، باغ تو سارا جانے ہے ۔

واپس کریں