دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
بے نظیر یادیں اور این آر او کی بازگشت
امتیاز عالم
امتیاز عالم
27؍ دسمبر 2007ء کی وہ سرد اور خونچکاں شام، بی بی بے نظیر کے خون میں لتھڑ کر دل و دماغ پر جم سی گئی ہے۔ راولپنڈی کے لیاقت باغ میں دہشت گرد وحشی ہر جانب سے حملہ آور ہوئے تھے اور وہ نہ رہی جس نے دہشت گردوں، مذہبی انتہاپسندوں اور مقتدرہ کے آمرانہ عناصر کے گٹھ جوڑ کو للکارا تھا۔ القاعدہ کے ایمن الظواہری، مصطفےٰ ابو یزید (سعید المعصری)، تحریکِ طالبان پاکستان کے سربراہ بیت اللہ محسود اور بقول جنرل مشرف اُنکے ادارے کے ممکنہ طور پر ’’بے مہار‘‘ (Rogue) عناصر کی یہ ایسی خوفناک ملی بھگت تھی جس کی تفتیش میں اقوامِ متحدہ سے اسکاٹ لینڈ یارڈ تک سبھی نے خون کا سراغ پانے کی سرتوڑ کوشش کی، بہت سے کردار جہنم واصل ہوئے یا پھر کر دیئے گئے جو بچے بھی تو استغاثہ کی بدلتی کہانیوں کے طفیل یا پھر وہ جن میں ایمن الظواہری، مبینہ طور پر جنرل مشرف اور اُن کے وہ حواری جنہیں وہ ’’شتربے مہار‘‘ قرار دیکر الزام آصف زرداری پر دھرنے کی مضحکہ خیز گمراہی سے کام لے رہے ہیں۔ جی ہاں! خون دیتا ہے جلادوں کے مسکن کا سراغ اور بلاول بھٹو نے وہ نام لے ہی دیا اور قاتل قاتل، مشرف قاتل کے نعرے سے عوام کی عدالت میں اپنا پرچہ درج کروا کے اپنی شہید ماں کی روح کو تھوڑا بہت سکون میسر بھی کر دیا۔

بی بی کی اسلام آباد روانگی سے قبل، لاہور میں ہماری اُن سے کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ سیفما کے ایک وفد جن میں مُنّوبھائی کے علاوہ بہت سے دیگر اہم صحافی عارف نظامی، نجم سیٹھی، انجم رشید اور نذیر ناجی بھی شامل تھے، سبھی نے بی بی کی بہت منتیں کیں کہ وہ لیاقت باغ راولپنڈی کے جلسے سے خطاب نہ کریں کہ سبھی کو خدشہ تھا کہ دہشت گرد وہاں گھات لگائے بیٹھے ہوں گے۔ مگر بی بی کا اصرار تھا کہ ملک و قوم کو جو خطرات درپیش ہیں اُن کا سامنا کرنے اور ایک جمہوری اور روشن خیال پاکستان کیلئے اُنکے پاس عوام کو متحرک کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ دیگر ملاقاتوں میں بھی وہ اپنے اسی عزم پر مصر رہیں۔ ایک ملاقات میں تو اُنھوں نے مجھ سے یہاں تک کہہ دیا کہ القاعدہ، طالبان اور مشرف اور اس کے بے مہار کارندے اُنہیں مارنے پر تُلے بیٹھے ہیں، لیکن وہ پیچھے ہٹنے والی نہیں۔ اِس بار اگر وہ حکومت میں آگئیں تو اُن کا خیال تھا کہ وہ اپنی کرنی کر گزریں گی خواہ کچھ ہو جائے۔ وہ بچوں اور خاوند کو باہر چھوڑ آئی تھیں۔ اور تنِ تنہا میدانِ کارزار میں اُتری تھیں۔ اُن کے پاکستان کے آئین اور ریاستی نظام کو جمہوری بنانے، عوام کی سماجی نجات، اچھی حکومت اور ترقی و مساوات میں خطے میں امن اور ہمسایوں سے باہمی طور پر منفعت بخش تعلقات کےبارے میں خیالات اب بہت پختہ ہو چکے تھے۔ وہ ایک بہت ہی شفیق ماں اور اسٹیٹس پرسن (States Person)کا روپ دھار چکی تھیں اور مجھے یوں لگا کہ وہ بس اپنے ہی پیغام پر فدا ہونے کو ہیں۔ ہر ہر معاملے پر وہ ہر کسی سے تجاویز مانگ رہی تھیں اور لاہور کے دانشوروں کو اُنہوں نے اصلاحات کے ایجنڈے پر کام پر لگا دیا تھا۔ پھر وہ اسلام آباد روانہ ہو گئیں۔ 27؍ دسمبر کی صبح بھی مجھ سمیت کئی دوستوں نے اُن سے آخری بار پھر التجا کی، بی بی ہوشیار، لیاقت باغ میں موت آپ کی منتظر ہے۔ اُن کیلئے آخری پریشان کُن خبر میاں نواز شریف کے قافلے پر فائرنگ کی تھی اور اُنہوں نے اپنے تفکر کا اظہار میاں صاحب سے بھی کیا، جو بی بی کی شہادت کی خبر ملتے ہی سب سے پہلے اسپتال پہنچے۔ راولپنڈی میں ایک بڑا ہجوم تھا اور بی بی کا لاجواب خطاب۔ اُنہوں نے پاکستان کو دہشت گردی سے پاک کرنے اور ایک ترقی پسند اور جمہوری و عوامی پاکستان کیلئے اپنا لائحۂ عمل دیا۔ اور جہاں سے اُن کی واپسی نہ ہوئی اور وہ اللہ کو پیاری ہوئیں۔ اُن کی شہادت پر جو ملک میں کہرام مچا، شاید کبھی کسی رہنما کی موت پر ایسا منظر تاریخ نے دیکھا ہو۔ اور جو خلأ پیدا ہوا، وہ پُر ہونے کو نہیں۔
بی بی کو راستے سے ہٹانے کا فیصلہ یوں لگتا ہے بہت پہلے ہو چکا تھا۔ جنرل مشرف کی آمریت کے خلاف 18؍ اکتوبر 2007ء کو کراچی واپسی نے بی بی کی جنرل ضیاء الحق کی وحشت ناک آمریت کے دور میں 1986ء میں لاہور واپسی پرتاریخی استقبال کی یاد تازہ کر دی تھی۔ یہ ایک ایسا فقید المثال استقبال تھا جس کی دوستوں کو توقع تھی نہ دشمنوں کو اُمید۔ میں بھی وہاں کچھ صحافی دوستوں کے ساتھ یہ نظارہ دیکھنے موجود تھا۔ ایک رات قبل کراچی کے جغادری صحافی استقبالیہ جلوس کی تعداد کے بارے میںپچاس ہزار کے ہندسے سے آگے جانے کو تیار نہ تھے، اُن کا خیال تھا کہ بس بی بی این آر او کر کے اور امریکیوں سے نامہ و پیام کر کے غیرمقبول ہو چکی ہیں۔ لیکن جب ہم رات کو لیاری کے علاقوں میں گھومے تو لاکھوں لوگوں کو محوِ رقص پایا۔ صبح دیکھا تو صدر سے کراچی ایئرپورٹ اور وہاں سے اسٹیل ملز تک سڑکوں پر ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا۔ مجھے عجیب سی الجھن نے آن گھیرا اور میں نے ڈاکٹر جبار خٹک سے اپنی تشویش ظاہر کی کہ بی بی کے دشمن آج بہت تلملا رہے ہوں گے اور مجھے ڈر ہے کہ اُن کا ردِّعمل کہیں بہت خوفناک نہ ہو اور اس لئے بھی کہ بی بی(این آر او) کے تحت جنرل مشرف کی وردی اُتروا چکی تھیں اور معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے واپس آ رہی تھیں۔ میرا یہ کہنا تھا کہ ڈاکٹر جبار خٹک نے آصف علی زرداری کو دبئی فون ملایا اور اُنہیں میرے خدشے سے آگاہ کیا۔ آصف زرداری نے مجھے بار بار کریدا کہ کیا میرے پاس کوئی اطلاع ہے۔ میں نے کہا نہیں، یہ محض میرا سیاسی قیاس ہے اور درفنطنی بھی نہیں۔ پھر کیا تھا آصف نے بی بی کو پچاسیوں فون کئے کہ ٹرک سے اُتر جاؤ، لیکن بی بی اڑی رہیں۔ عوام کی والہانہ محبت دیکھ کر وہ خوشی سے سمائے نہیں جا رہی تھیں۔ بالآخر وہ ٹرک سے نیچے آ گئیں جہاں اپنی تقریر کو آخری شکل دینے لگیں اور پھر دھماکوں پر دھماکے ہو گئے اور ملک کی تاریخ کے بدترین دہشت گردی کے واقعہ میں کارساز کے مقام پر سینکڑوں جیالے شہید اور زخمی ہو گئے۔ اُسی رات بی بی نے مجھے بلوا بھیجا کہ مجھے کیسے الہام ہو گیا تھا، میں نے صرف یہ کہا کہ یہ میری سیاسی حس تھی اور بدقسمتی سے وہ درست ثابت ہوئی۔ بی بی پر پشاور، رحیم یار خان اور ملتان میں بھی حملے کی تیاری تھی اور وہ بچ نکلی تھیں۔جو لوگ بی بی دشمنی میں این آر او کی پھبتیاں کستے رہتے ہیں، وہ بھول جاتے ہیں کہ یہ این آر او ہی تھا جس کے تحت بی بی نے جنرل مشرف کی وردی اُتروائی اور انتخابات کی راہ ہموار کی اور پھر بی بی نے تیسری بار انتخاب میں پابندی نہ ہٹانے پر واپسی کا اعلان کر کے گویا معاہدےکو توڑ دیا۔ اور پھر وہ پہنچیں چیف جسٹس افتخار چوہدری کی رہائشی جیل پر جہاں اُنہوں نے عدلیہ کی بحالی کا جھنڈا لہرا دیا۔ یہ بی بی کی واپسی ہی تھی جس نے میاں نواز شریف کی واپسی کا راستہ ہموار کیا اور جنرل مشرف کو بالآخر مواخذہ کی کارروائی سے بچنے کیلئے مستعفی ہونا پڑا۔ لیکن این آر او سے جہاں انتخابات اور جمہوری عبور ممکن ہوئے لیکن بی بی کی عظیم قربانی کی قیمت پر۔ یہ آصف علی زرداری کا کمال تھا کہ اُنھوں نے نواز شریف کو ساتھ ملا کر مشرف کو چلتا کیا۔ مجھے یاد ہے کہ میاں صاحب ساتھ دینے کو تیار تھے لیکن کابینہ میں شرکت پر تیار نہ تھے۔ آصف زرداری کے کہنے پر میں میاں صاحب سے اُن کے ماڈل ٹاؤن کے دفتر میں ملا اور ہم باہر پورچ میں ٹہلتے ہوئے اُن کی کابینہ میں شرکت کے امکان پر بات کرنے لگے۔ اس بات چیت میں میاں شہباز شریف، خواجہ آصف اور اسحاق ڈار بھی شامل تھے۔ کچھ دیر چلتے چلتے اس بات چیت میں اتفاق ہو گیا کہ مسلم لیگ ن کے وزرا بھی پیپلز پارٹی کے ساتھ ایک مخلوط حکومت میں شامل ہو جائیں گے۔ میں نے یہ اطلاع آصف زرداری صاحب کو دی اور پھر ایسا ہو بھی گیا۔ جو لوگ جنرل مشرف کو گارڈ آف آنر دینے کا طعنہ دیتے نہیں تھکتے وہ بھول جاتے ہیں کہ یہ جنرل مشرف کا نظام ہی تھا جس کو بی بی نے وردی اُتارنے اور جمہوریت کی بحالی کی کھڑکی کھولنے پر مجبور کیا تھا اور یہ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف ہی تھے جنہوں نے مشرف کو مواخذےکے زور پر صدارتی محل چھوڑنے پر مجبور کیا تھا۔ لوگ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ جب اقوامِ متحدہ کے تفتیشی کمیشن نے فوج کےسابق اعلیٰ عناصر کے بی بی کے قتل میں ملوث ہونے کا عندیہ دیا تھا تو جنرل کیانی نے گیلانی حکومت کو مجبور کیا تھا کہ وہ رپورٹ کے اس حصے کو نکلوانے کیلئے خط لکھے۔ وہ خط لکھا گیا اور شاہ محمود قریشی یہ خط لے کر نیویارک بھی گئے، لیکن رپورٹ سے یہ حصے خارج نہ کروائے جا سکے۔

جس جنرل مشرف کا دو بار آئین توڑنے پر ٹرائل نہ کیا جا سکا، اُسے بی بی کے قتل میں کیسے کوئی کٹہرے میں کھڑا کر سکتا تھا۔بی بی نے این آر او کے ذریعے جمہوریت بحال اور جنرل مشرف کو فارغ کیا اور صلے میں دوبار منتخب وزیراعظم کو شہادت نصیب ہوئی۔ آج پھر ایک نئے این آر او کی باتیں ہو رہی ہیں۔ لیکن اس بار این آر او آمرانہ قوتوں کو پچھاڑنے کیلئے نہیں بلکہ بظاہر تین بار منتخب وزیراعظم نواز شریف کو مزاحمت کی بجائے ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنے کیلئے کیا جا رہا ہے۔ اس سے بڑھ کر المیہ کیا ہوگا کہ یہ کام اُنہی کے جانشین جناب شہباز شریف کے ہاتھوں انجام پہنچانے کی تدابیر ہو رہی ہیں۔ اور شہباز شریف سعودی اشیرباد کیلئے سعودی عرب میں ہیں اور میاں نواز شریف بھی جانے پر مجبور۔ یہی وجہ ہے کہ گو نواز گو کے بعد اب گو شہباز گو کا نعرہ ہے اور اپوزیشن جماعتوں کا قادری کے گھر پہ جمگھٹا جمع ہے۔ آخر آخری معرکہ تو پنجاب میں ہی ہونا ہے کہ جو غلطی پنجاب کو پیپلز پارٹی سے چھین کر نواز شریف کے حوالے کر کے کی گئی تھی، اُس کا ازالہ کیا جا سکے۔ بی بی نے تو این آر او کی بساط جنرل مشرف پر خوب اُلٹ دی تھی، لیکن اُنہیں اپنی جان دینا پڑی تھی۔ دیکھتے ہیں نواز شریف اس مبینہ این آر او سے کیسے نپٹتے ہیں؟
واپس کریں