دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کشمیر کاز سے متعلق آزاد کشمیر کے تین بڑے رہنمائوں کا پاکستان سے مطالبہ
اطہرمسعود وانی
اطہرمسعود وانی
ارباب اختیار پاکستان عر صہ دراز سے جانتے ہیں کہ تحریک آزادی میں پیش رفت،کامیابی کے لئے کیا کیا کرنا اہم ہے ، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان کی ترجیحات ہی نہیں ان کا طرز عمل بھی کشمیر کاز سے متعلق اخلاص کے اظہار سے بھی قاصر چلا آ رہا ہے۔بنیادی اہم بات اور ایک تلخ حقیقت یہ کہ انڈیا کے جارحانہ اقدامات کے فوری جواب میں پاکستانی حکام ایسا ظاہر کرنے کی ناکام نظر آئے کہ پاکستان کشمیر کے معاملے میں ناگزیر اہمیت دیتا ہے۔ اس حوالے سے انڈیا سے سفارتی تعلقات کے فوری خاتمے اور سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس کی درخواست دینا ناگزیر اقدامات تھے اور اس سے دنیا کے سامنے واضح ہوتا کہ پاکستان اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود کشمیر پر انڈیا کی بدترین جارحیت کی صورتحال میں خاموش تماشائی نہیں رہ سکتا۔یہ درست کہ سلامتی کونسل سے زیادہ توقعات وابستہ نہیں کی جاسکتیں ، تاہم سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس کا طلب کیا جانا اور اس کا انعقاد ، بذات خود دنیا میں مسئلہ کشمیر ہنگامی صورتحال کے مسئلے کے طور پر سامنے آ سکتا تھا۔

مختصر یہ کہ جنگ کئے بغیر بہت سے اقدامات کئے جا سکتے تھے لیکن اب پاکستانی حکام کی طرف سے تجاویز کی بات کرنا ان کا فہم و فراست ،عقل و دانش سے محرومی کے ساتھ ساتھ ان کی ترجیحات کا آئینہ دار بھی ہے۔پاکستانی حکام کے کمزور، سست ردعمل اور '' ہم جنگ تو نہیں کر سکتے'' قسم کے غیر ذمہ دارانہ بیانات سے پاکستانی عوام کے مورال کو بھی نقصان پہنچا یا گیا ہے۔حالات و واقعات سے لاعلم ہی پاکستان کی طرف سے انڈیا سے جنگ کی باتیں کر سکتے ہیں، حقائق اور خطرات تو یہ ہیں کہ انڈیا کی طرف سے کشمیر سے متعلق اپنے کالے اقدامات کی توثیق کے لئے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر قبضے کی کوشش ہو سکتی ہے تا کہ پاکستان کے ساتھ ایک نئے معاہدے کے ذریعے انڈیا کی شرائط پوری کرائی جا ئیں۔

ملک کی سیاسی بنیادوں کو کھوکھلا کرنا معیشت سمیت ملک کے ہر شعبے کو تباہ اور برباد کرنا ہے، اصحاب دانش و بصیرت واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ ارباب اختیا ر پاکستان کی ترجیحات کیا ہیں؟ یہ ترجیحات طبقاتی بلادستی کی ماورائے آئین حاکمیت کو دوام بخشنے کی کوششوں کی صورت نظر آ تی ہیں۔
پاکستانی حکام کی طرف سے کشمیریوں کے ساتھ'' طرز برتائو ''میں بہتری لایا جانا اہم ہے۔ پاکستان میں کشمیر سے متعلق تمام تر معاملات،امور غیر سیاسی بنیادوں پر اس ادارہ کے ہاتھوں محدود ہیں جن سے کسی قسم کی بھی جوابدہی ،سوال نہیں کیا جا سکتا۔پاکستانی حکام مقبوضہ کشمیر، آزاد کشمیر اور پاکستان میں اپنی مرضی،پسند کے کشمیری نمائندوں، رہنمائوں کے تعین کے چلن پر نظر ثانی فرمائیں۔ آزاد کشمیر حکومت کو تحریک آزادی کی نمائندہ حکومت کا درجہ بحال و قائم کیا جائے۔

گزرے سال اس بات کے گواہ ہیں کہ پاکستان میں کشمیر سے متعلق دکھاوے ، نمائشی جذبات اور غیر سنجیدگی کا اظہار ایک چلن بن چکا ہے۔کرنے کو ارباب اختیار پاکستان تحریک آزادی کشمیر کو تقویت پہنچانے کے لئے بہت کچھ کر سکتے ہیں لیکن بقول شاعر
کیسے گلے رقیب کے کیا طعن اقربا
تیرا ہی جی نہ چاہے تو باتیں ہزار ہیں

5اگست2019 کوانڈیا نے متنازعہ ریاست کے بڑے حصے مقبوضہ جموں و کشمیر ،لداخ کو انڈیا میں ضم کرنے کا اعلان کیا۔ تقریبا 51سال پہلے ،5اگست1968کو آزاد کشمیر کے تین بڑے رہنمائوں سردار محمد عبدالقیوم خان،سردار محمد ابراہیم خان اور کے ایچ خورشید نے ایک مشترکہ اعلامیہ میں حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کی،تمام ریاست کشمیر کی نمائندہ حیثیت کو بحال کیا جائے۔یعنی آزاد کشمیر حکومت کو تحریک آزادی کشمیر کی نمائندہ حکومت تسلیم کر کیا جائے۔ان تینوں رہنمائوں کے اس مطالبے پر آزاد کشمیر حکومت اور آزاد کشمیر کے سیاستدان آج بھی قائم ہے۔ متنازعہ ریاست جموں و کشمیر کے تمام حصوں کے عوام کی غالب اکثریت اس مطالبے کی حامی ہے۔انڈیا کی طرف سے مقبوضہ کشمیر سے متعلق حالیہ جارحانہ کاروائیوں کی صورتحال میں آزاد کشمیر حکومت کے بنیادی کردار کی بحالی ایک موثر اقدام ہو سکتا ہے اور یہ کشمیر کاز کے حوالے سے حکومت پاکستان کی طرف سے اخلاص کے مظاہرے کا ایک متحرک اقدام ہو گا۔مسئلہ کشمیر کے حل اورآزاد کشمیر حکومت کے کردار سے متعلق یہ ایک اہم تاریخی دستاویز ہے۔ اس میں کشمیریوں کی طر ف سے کہا گیا کہ

'' ہم تین سیاسی جماعتوں ،آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس ،آزاد جموں و کشمیر مسلم کانفرنس اور جموں و کشمیر لبریشن لیگ کے صدر راولپنڈی میں ملے اور ہم نے مقبوضہ
کشمیر کی آزادی اور حد متارکہ سے اس طرف کی تمام سیاسی صورتحال کا جائزہ لیا۔ہم نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ہم ریاست میں تحریک آزادی کو مضبوط کرنے نیز حکومت پاکستان، جس نے ریاستی عوام کے لئے حق خود ارادیت حاصل کرنے کے لئے بڑی کوششیں کی ہیں، ہاتھ بٹانے کے لئے ایک مشترکہ پروگرام پر عمل کریں۔یہ پروگرام حسب ذیل اصولوں پر مبنی ہو گا،یہ ہماری سیاسی جماعتوں کے درمیان کم ازم کم مشترکہ اساس ہے۔

1۔ یہ کہ ریاست جموں و کشمیر ایک ناقابل تقسیم سیاسی وحدت ہے اور ریاست کے مستقبل کے بارے میںکوئی بھی حل قابل غور نہ ہو گا جو اس بنیادی سیاسی حقیقت کے منافی ہو۔
2۔ یہ کہ حق و انصاف کے تمام اصولوں کی رو سے اور انسانی حقوق کے منشور کے مطابق ریاست جموں و کشمیر کی سرداری ،ریاستی عوام کا حق ہے اور کشمیری عوام ہی اس کے مستقبل کے بارے میں نظام ہا طریقہ کا ر اختیار کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ہم ریاستی عوام کوئی ایسافیصلہ قبول نہیں کریں گے جو ہم پر اوپر سے ٹھونسا جائے اور قابل عمل حل صرف وہی ہو گا جا اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق عوام آزادانہ طور پر ظاہر کریں۔
3۔ (ا) عوام کی رائے کے آزادانہ اظہار تک آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر ،عوام کی قربانیوں کے نتیجہ میں قائم کی گئی تھی۔اس کی اس طرح تشکیل نو کی جائے کہ وہ ریاست کے تمام عناصرکی موثر نمائندہ ہواور اس کے ساتھ مہاراجہ ہری سنگھ کی حکومت کی وارث اور تمام ریاست کی مکمل با اختیار حکومت کا سلوک کیا جائے۔(ب)آزاد حکومت کی اس تشکیل نو کے سلسلہ میں کم از کم ضرورت یہ ہے کہ فی الحال پاکستان کی طرز پر آزاد کشمیر کے ارکان بنیادی جمہوریت اور پاکستان میں مقیم کشمیری مہاجرین کے نمائندوں کے ذریعے ، ایک ذمہ دار اور منتخب حکومت قائم کی جائے ،جس سے آزاد حکومت کا نظریاتی کردار قائم رہ سکے۔(ج)ایسی حکومت ایک منتخب صدر کے علاوہ ایک مکمل نمائندہ ادارہ پر مشتمل ہو جس کو قانون سازی اور بجٹ سازی کے اختیارات حاصل ہوں۔
4۔ یہ کہ اگر شیخ عبداللہ،مولوی محمد فاروق اور دوسرے کشمیری لیڈر مقبوضہ کشمیر میں ریاست کو بھارتی تسلط سے آزاد کرانے اور حق خود ارادیت کے لئے کوئی تحریک جاری کریں تو حد متارکہ سے اس طرف کی سیاسی جماعتیں ان کی مکمل حمایت کرنے کی انتہائی کوشش کرے گی۔

ہم اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیںکہ وہ ہمیں اس پروگرام پر عمل کرنے کی توفیق بخشے۔

دستخط سردار محمد عبدالقیوم خان دستخط سردار محمد ابراہیم خان دستخط مسٹر کے ایچ خورشید ۔ ''

( 15 اگست 2019کو لکھا گیا کالم)
واپس کریں