دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
دولت ،غربت اور انسان !
اطہرمسعود وانی
اطہرمسعود وانی
اس دنیا کے معاملات میں تین امور کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اور تمام سیاسی،علاقائی اور عالمی امور اس حوالے سے بالادستی کے طور پر نمایاں نظر آتے ہیں۔یہ امور ہیں،آبادی،دولت اور اس کی تقسیم اور دنیا میں غربت کی صورتحال۔آج ہم ان امور کو ذرا مختلف انداز میں دیکھتے ہیں تاکہ اس سے متعلق حقیقی صورتحال سامنے آ سکے۔ایک طرف ہم غربت کا یہ عالم دیکھتے ہیں کہ بعض خطوں میں انسان فاقہ کشی ،بیماریوں ،جنگ و جدل سے کسمپرسی کے عالم میں مر جاتے ہیں،پانی کی قلت کی وجہ سے اونٹ کا پیشاب پینے پر مجبور ہیں اور دوسری طرف دنیا میں ایک بڑی تعداد میں لوگ ہزاروں ،لاکھوں ڈالر ایک دن میں اپنی ذات پر،اپنی تسکین کے لئے خرچ کر دیتے ہیں۔آج کی دنیا کے وسائل،دولت،ٹیکنالوجی کی ترقی کی بدولت اس دنیا کے تمام خطوں کے لوگوں کو اچھی خوراک،علاج،تعلیم کی معیار سہولیات،اچھی شہری زندگی،زندگی میں اطمینان وسکون ،ترقی اور خوشحال عطا کی جا سکتی ہے لیکن اس کے لئے دنیا کے تمام خطوں کے انسانوں کے جان و مال کی سلامتی،بنیادی ضروریات اور حقوق کی فراہمی کے یکساں اور مساوی اصول ترتیب دینا ہوں گے۔ انسانیت کی حرمت کی بلا دستی کو یقینی بنانا ہی انسانی شعور اور کوشش کے درست سمت ہونے کی نشانی ہے۔بلا رنگ و نسل،بلا زبان و علاقہ،ہر انسان برابر کے حقوق اور انسانی تقدیس کا حقدار ہے ۔یہی ٹیسٹ ہے کہ ہم ابھی تک جانور ہی ہیں یا انسان بن چکے ہیں،بدقسمتی سے بہ حیثیت مجموعی ابھی ہم جانور ہی ہیں ۔تاہم انسانیت کی تقدیس کی بالا دستی کے تصور کو فروغ دینا نہایت اہم ہے۔مذہب، فرقہ ایک تصور دیتے ہیں،آج تک دنیا میں ہونے والی علم و شعور کی ترقی نے بھی ہمیں آزمودہ اسباق دیئے ہیں اور انسانی تقدیس کی بالادستی کی حمایت ہی انسانی عقل و شعور کی درست پہچان دیتی ہے اور اکثر مذاہب،فرقوں کی تعلیمات کی بنیاد بھی یہی اصول ہے۔ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ علم کی بات کو ہر طرف تلاش کریں ۔اس وقت ہر ریاست نے اپنی ہی دنیا سجائی ہوئی ہے، ا متمع نظر دنیا کے تمام خطوں کے تمام انسانوں کے لئے بلا کسی تفریق،مساوی اصول، روئیہ اپنایا جا نا ہے۔

سب سے پہلے ہم دنیا کی کل اور مختلف خطوں کی بنیاد پر آبادی پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔اس وقت دنیا کی کل آبادی (7515284153) ساڑھے سات ارب سے تجاوز کر چکی ہے اورانسانی آبادی میں سالانہ اضافہ تقریبا چھ فیصد ہے۔بر اعظم ایشیا کی آبادی تقریبا ساڑھے چار ارب،افریقہ ایک ارب چوبیس کروڑ،یورپ تقریبا 73کروڑ92لاکھ،لاطینی امریکہ و کریبین کی تقریبا 64کروڑ 75لاکھ،شمالی امریکہ 36کروڑ 32لاکھ،اوقیانو س تقریبا 4کروڑہے۔آبادی کے لحاظ سے دنیا میں پہلے نمبر پر 1ارب38کروڑ کی آبادی والا چین پہلے نمبر پر،ہندوستان 1ارب 34کروڑ کے ساتھ دوسرے،امریکہ تقریبا 32کروڑ کے ساتھ تیسرے ،انڈونیشیا26کروڑ چوتھے،برازیل21کروڑ پانچویں،پاکستان تقریبا20کروڑ چھٹے،نائیجیریا19کروڑساتویں،بنگلہ دیش 16کروڑ آٹھویں، روس 14کروڑ نویں اور میکسیکو13کروڑ آبادی کے ساتھ دسویں نمبر پہ ہے۔ایک سٹڈی رپورٹ کے مطابق 50ہزار سال قبل از مسیح سے اب تک دنیا میں105بلین انسان پیدا ہوئے ہیں اور اس تعداد میں سے تقریبا 6فیصدانسان اس وقت دنیا میں رہتے ہیں۔

اب ہم دنیا کی کل دولت اور دنیا کے امیر ترین افراد کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2015میں دنیا کی کل دولت کا تخمینہ250ٹرلین ڈالرز لگایا گیا ہے اور اس میں اضافے کی شرح تقریبا 3فیصد ہے۔2016میں امریکہ کی کل دولت کا تخمینہ13.1ٹرلین ڈالر لگایا گیا تھا۔ایک عالمی رپورٹ میں پانچ سال قبل کے اندازے کے مطابق دنیا کے کل آبادی کے0.6فیصد بالغ افراد کے پاس کم از کم ایک ملین امریکی ڈالر سے زیادہ دولت موجود ہے یعنی دنیا کے42ملین افراد کے پاس دنیا کی کل دولت کا39.3فیصد موجود ہے۔4.4فیصد ،یعنی311ملین افراد کے پاس دنیا کی کل دولت میں سے32.3فیصد دولت موجود ہے جبکہ دنیا کے95فیصد افراد دنیا کی کل دولت میں سے 28.4فیصد دولت رکھتے ہیں۔ایک دوسری رپورٹ کے مطابق دنیا کے ایک فیصد افراد کل عالمی سرمائے کے40فیصد سرمائے کے حامل ہیں،10فیصد امیر دنیا کی کل دولت میں سے 85فیصد دولت رکھتے ہیں،باقی دنیا کی کل آبادی کے آدھے لوگ دنیا کی کل دولت کا محض ایک فیصد رکھتے ہیں۔ایک اور رپورٹ کے مطابق دنیا کی کل آبادی میں سے 2فیصد افراد دنیا کی کل دولت میں سے نصف سے بھی زیادہ دولت رکھتے ہیں۔دنیا کے امیر ترین19ملکوں میں8ملین کی آبادی والے عالمی بزنس سے منسلک ہانگ کانگ میں ملینز،بلینز رکھنے والے امراء کی تعداد ایک لاکھ بیالیس ہزار ہے،تیل کی دولت سے مالا مال کویت میں ایسے امراء کی تعداد ایک لاکھ چھیالیس ہزار ہے،برازیل میںایک لاکھ انچاس ہزار،روس میں ایک لاکھ باون ہزار،سعودی عرب میں ایک لاکھ سڑسٹھ ہزار،سپین میںایک لاکھ بانوے ہزار،جنوبی کوریا میں ایک لاکھ ترانوے ہزار،ہندوستان میں دو لاکھ،ہالینڈ دو لاکھ چار ہزار،اٹلی دولاکھ انتیس ہزار،آسٹریلیا دو لاکھ چونتیس ہزار،کینڈاتین لاکھ اکیس ہزار،سوئیزرلینڈ تین لاکھ اٹھاون ہزار،فرانس پانچ لاکھ تئیس ہزار،برطانیہ پانچ لاکھ ترپن ہزار،چین دس لاکھ چونتیس ہزار،جرمنی گیارہ لاکھ نناوے ہزار،جاپان27لاکھ بیس ہزار،اور امریکہ میں امراء کی یہ تعداد 44لاکھ اٹھاون ہزار ہے۔یوں کل تقریبا ساڑھے ساتھ ارب کی انسانی آبادی میں سے تقریبا ایک کروڑ بتیس لاکھ افراد دنیا کی دولت کا غالب ترین حصے کا مالک ہیں۔

اب ذرا دنیا میں موجود غربت اور اس کے معیار پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔دنیا کے 30غریب ترین ملکوں میں وسطی افریقہ ریپبلک سر فہرست ہے جہاں فی کس آمدن 665ڈالر ہے ،کانگو784ڈالر، برونڈی818،لائیبیریا882،نائیجیریا113،مالی1139،موگادیشو1228،گھانا1271،ایریٹیریا1321،ماڈاغسر1540،
کومورس1529،ٹوگو1545،گوئنیابسائو1568،سیر الیون1651،گیمبیا1664،جنوبی سوڈان1670،ہیٹی1784،برکینا فاسو1790،کر بیٹی1820،روانڈا1905،ایتھوپیا1916،زمبابوے1953،افغانستان،1957،سولمن آئیز لینڈز1995 اوریوگنڈا2066 ڈالرکے علاوہ،بینن،مالی، نیپال،یمن اور سینیگال2578ڈالر شامل ہیں۔عالمی رپورٹس کے مطابق1981میں دنیا کی44فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی تھی اور اس کے بعد سے اس شرح میں کمی واقع ہوئی ہے اور اب یہ شرح10فیصد بیان کی جا رہی ہے۔1820میں انتہائی غربت کے شکار ملکوں کا شمار2008میں امیر ملکوں میں ہوتا ہے۔عام غربت کا معیار3.10عالمی امریکی ڈالر مقرر ہے۔ہندوستان میں انتہائی غربت کی شرح21فیصد ہے۔عالمی ماہرین کہتے ہیں کہ گزشتہ دو سو سال میں دنیا میں انتہائی غربت 80فیصد سے کم ہو کر آج10فیصد رہ گئی ہے۔عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ فرائض اور ذمہ داریاں لازم وملزوم ہوتی ہیں،یوں آج دنیا کے گلوبل ولج میں تبدیل ہونے سے مختلف قوانین عالمی سطح پر نافذ تو کئے جاتے ہیں لیکن شہریوں کے حقوق کے حوالے سے یکسانیت کی کوئی آواز نہیں ہے۔انتہائی غربت کے شکار خطوں میں افریقہ 383ملین افراد کی تعداد کے ساتھ سرفہرست ہے،ایشیا میں327ملین،جنوبی امریکہ میں 19ملین،شمالی امریکہ میں13ملین،اوقیانوس2.5ملین اور یورپ میں 0.7فیصد لوگ انتہائی غربت کے شکار شمار ہوتے ہیں۔ورلڈ بنک کے مطابق 89ملکوں کی84.2فیصد آبادی کا شمار کم اور درمیانے درجے کی آمدن رکھنے والوں میں ہوتا ہے۔

مختلف عالمی اداروں کی رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ عالمی غربت کی سطح کے معیارکے مطابق دنیا میں غربت اپنی انتہا کے ساتھ موجود ہے ۔اس معیار میں وہ افراد شامل ہیں جن کی آمدن1.90ڈالر سے نیچے ہے۔دنیا کے مختلف خطوں میں غربت کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ افراد کی قوت خرید شدید طور پر متاثرہ ہے۔مختلف خطوں میں صحت کی سہولیات اور تعلیم کا عدم حصول بڑے مسائل کے طور درپیش ہے۔گزشتہ پچاس سال میں غریب لوگوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔مختلف خطوں میں انسانوں کو غربت کا شکار بنانے والی پالیسیاں بنانے والے یہ بھی پوچھتے ہیں کہ غریب لوگ غربت کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں،وہ اپنے لئے کس معیار زندگی کی توقع رکھتے ہیں؟ جدید دور میں غربت کی تعریف اور انداز میں بھی تبدیلی نظر آتی ہے۔اب صرف خوراک سے محروم افراد ہی نہیں بلکہ روزمرہ استعمال کی ضروری اشیاء کی خریداری،علاج و تعلیم سے محروم افراد بھی غربت کی ذلت اٹھانے میں شامل ہیں۔بنیادی حقیقت یہی ہے کہ غربت کے خاتمے اور بہتر معیار زندگی کے لئے عالمی اور علاقائی پالیسیاں بنیاد کردار کی حامل ہیں اور طبقاتی بالادستی تمام انسانی معاشرے کی مجموعی ترقی کی راہ میں مزاحم ہے۔یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ ایک ڈالر روزانہ کی آمدن والا کس طرح اپنی زندگی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے اور اشیائے ضروریہ کی خریداری سے مجبور کس طرح اپنی غربت سے نبرد آزما ہے۔جن ممالک میں پہلے صنعت قائم ہوئیں،وہاں لوگوں کے معیار زندگی میں پہلے بہتری آئی اور انتہائی غربت میں تیزی سے کمی واقع ہوئی۔
( اطہر مسعود وانی 19جون2017 )

واپس کریں