دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آزاد کشمیر کی سابق مسلم لیگ (ن) حکومت کے مالیاتی شعبے کے انقلابی اقدامات
اطہرمسعود وانی
اطہرمسعود وانی
رواں مہینے میں آزاد کشمیر کا بجٹ پیش کیا جائے گا۔2017-18مالی سال میں آزاد کشمیر کا بجٹ 66ارب50کروڑ تھا جو گزشتہ مالی سال 2020-21 میں بڑھ کر1کھرب41روپ ہو گیا،یوں صرف تین سال کے قلیل عرصے میں آزاد کشمیر کا بجٹ دوگنے سے زیادہ ہو گیا ہے۔اس انقلابی تبدیلی میں بنیادی کردار آزاد کشمیر میں سابق وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان کی سربراہی میں قائم مسلم لیگ(ن) کی حکومت اور پاکستان کے سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف ، سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور پاکستان کی مسلم لیگ(ن)حکومت کے سر جاتا ہے۔سابق وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے 2018میںوفاقی ٹیکس شیئر جو 1992کے ریوائیز فنانشل ارینجمنٹ کے تحت2.27فیصد تھا،2018میں3.64فیصد کیا، اور2016میں نواز شریف نے آزاد کشمیر کے ترقیاتی بجٹ میں نمایاں اضافہ کرتے ہوئے تقریبا دوگنا کر دیا۔

آزاد کشمیر کو مالیاتی طور پر مضبوط بنانے میں13ترمیم کو بنیادی اہمیت حاصل ہے ۔13وین ترمیم تحت2جون2018سے ان لینڈ ریوینیو ڈیپارٹمنٹ آزاد کشمیر کونسل سے آزاد کشمیر حکومت کے کنٹرول میں آیا، اس سے پہلے محصولات کا ہدف16.4فیصد تھا جو محکمہ ان لینڈ کی محنت سے یہ ہدف28.5فیصد تک پہنچا، 2018کے مقابلے میں 2021-22کے آمدنی کے اہداف دوگنا ہو چکے ہیں۔آزاد کشمیر حکومت جو ہمیشہ سٹیٹ بنک سے لئے گئے اوور ڈرافٹ پر چلتی تھی،اکثر اوقات سرکاری تنخواہیں بھی اوور ڈرافٹ کی رقم سے ادا کی جاتی تھیں،13ویں ترمیم کے ثمرات سے یہ انقلابی تبدیلی رونما ہوئی کہ آزاد کشمیر کی تاریخ میں پہلی مرتبہ2021میں اپنی معیادپوری کرتے وقت مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اقتدار سے جاتے وقت آزاد کشمیر کے خزانے میں18ارب سرپلس چھوڑے،اس میں سے 5ارب آزاد کشمیر بنک کو شیڈولڈ کرنے کے لئے مخصوص کئے گئے،یوں سابق حکومت کے خاتمے وقت خزانے میں13ارب روپے موجود تھے۔

مالی سال2017-18میںآزاد کشمیر کا بجٹ 66ارب50کروڑ تھا، 2018-19کے مالی سال میں85ارب تھا جو2019-20 کے مالی سال میںمیں1کھرب22ارب اور2020-21مالی سال میںبڑھ کر1کھرب41ارب روپے ہو گیا۔گزشتہ مالی سال2021-22کا کل بجٹ ایک کھرب،اکتالیس ارب اور چالیس کروڑ تھا جس میں سے ایک کھرب 13ارب ،چالیس کروڑ غیر ترقیاتی اخراجات تھے جبکہ ترقیاتی اخراجات کے لئے ( جو تمام حکومت پاکستان دیتی ہے) کے لئے حکومت پاکستان کی طرف سے28ارب روپے فراہم کرنے کی تجویز کی گئی جس میں دو ارب روپے کی غیر ملکی امداد بھی شامل تھی۔ گزشتہ بجٹ میں مختلف اندرونی اور بیرونی وسائل سے 114.4 ارب روپے کی آمدن کا تخمینہ لگایا گیا تھا، جس میں 113.4 ارب روپے غیر ترقیاتی اخراجات اور 1.018 ارب روپے اوور ڈرافٹ کے لیے تجویز کیے گئے تھے۔پاکستان میں وفاق اور صوبوں کے درمیان ' این ایف سی ' ایوارڈ کے تحت وسائل کی تقسیم ہوتی ہے، صوبے اپنی آمدنی اور وفاقی حصہ ملا کر اپنا بجٹ بناتے ہیں۔ صوبوں میں اپنے ترقیاتی منصبوں کے علاوہ وفاق کے ترقیاتی منصوبے بھی ہوتے ہیں ، جن منصوبوں سے وفاق کو فائدہ ہوتا ہے،جیسے بجلی،پانی، مواصلات کے منصوبے، یوں وفاق صوبوں میں کئی ترقیاتی منصوبوں کو' پی ایس ڈی' میں شامل کرتا ہے۔

اقوام متحدہ کے کمیشن انڈیا پاکستانUNCIPکے تحت آزاد کشمیر میں تعلیم و ترقی حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے۔1955سے حکومت پاکستان آزاد کشمیر کی ضرورت کے پیش نظر ترقیاتی منصوبوں کے لئے مالی وسائل فراہم کرتی ہے جو مالی سال کے دوران چار اقساط میں دیئے جاتے ہیں۔بلاک پروویژن کے تحت ایک ' لم سم' بجٹ دیتے ہیں اور اس کے علاوہ کچھ منصوبے حکومت پاکستان صوبوں کی طرح آزاد کشمیر میں براہ راست بھی مکمل کرتی ہے۔حکومت پاکستان' این ایف سی' ایوارڈ کے تحت صوبوں کو ان کا حصہ دینے کے بعد آزاد کشمیر کو3.64فیصد جبکہ گلگت بلتستان کو حسب ضرورت دیتی ہے۔تاہم اس حوالے سے یہ صورتحال درپیش ہے کہ 3.64فیصد کے مطابق آزاد کشمیر کی دی جانے والی گرانٹ کی رقم72ارب بنتی تھی جس کی آخری قسط ادا نہ رکرنے کی وجہ سے ادا شدہ رقم55ارب رہ گئی ، یعنی72ارب کے بجائے55ارب دیئے گئے،یوں17ارب کم دیئے گئے۔

آزاد کشمیر کا ترقیاتی بجٹ بلاک پروویژن کے لئے آزاد کشمیر اسمبلی بناتی اور تیار کرتی ہے۔آزادکشمیر کے ان ترقیاتی منصوبوں کے لئے حکومت پاکستان فنڈز ، ترقیاتی لون کے طورپرفراہم کرتی ہے کیونکہ آزاد کشمیر کو '' این ایف سی'' میں شامل نہیں کیا جا سکتا ، اس لئے آزاد کشمیر کو ترقیاتی منصوبوں کے لئے دیئے جانے والے فنڈزکو لون(قرضے) کے طور پر ظاہرکیا جاتا ہے۔آزاد کشمیر کے ترقیاتی بجٹ کے لئے دی جانے والی یہ رقم پہلے 11ارب تھی جو 2018میں نواز شریف نے 23ارب کر دی۔گزشتہ سال ترقیاتی بجٹ کی رقم28ارب تھی جس کی آخری قسط جون میں(5ارب)نہ دی گئی۔

آزاد کشمیر کے مالی سال2021-22میںترقیاتی بجٹ29ارب تھا۔ترقیاتی منصوبوں کے مالیت کے لحاظ سے اخرجات کے 4فورم ہیں۔40کروڑ ترقیاتی منصوبوں کے لئے ایڈیشنل سیکرٹری ترقیات کی سربراہی میں ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی ہے، اس کی حد پہلے10کروڑ تھی جس میں سابق وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر کی حکومت میں اضافہ کر کے40کروڑ کیا گیا۔اسی طرح کابینہ ڈویلپمنٹ کمیٹی کے منصوبوں کی مالیت میں بھی اضافہ کیا گیا جو اب1ارب 40کروڑ تک ہے۔اس سے زیادہ مالیت کے منصوبوں کے لئے سنٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی اور اس کے بعد بڑے منصوبوں کے لئے فورم ایکنک ہے جو وزیر اعظم پاکستان یا وزیر خزانہ کی سربراہی میں کام کرتا ہے

گزشتہ مالی سال2021-22 میں آزاد کشمیر حکومت کے غیرترقیاتی اخراجات 1کھرب13ارب40کروڑ تھے، جن کی تفصیل کچھ یوں ہے۔تنخواہیں و الائونسز 67ارب 17کرو82ڑلاکھ 24 ہزار ، پنشن23ارب روپے ، انرجی چارجز ، واپڈا کو بجلی استعمال کی ادائیگی 6ارب روپے ، فوڈ سبسڈی2ارب80کروڑ روپے59لاکھ 50ہزار روپے ، مہاجرین گزارہ الائونس 1ارب ایک کروڑ 22لاکھ25ہزار ، ادویات ملازمین کے لئے 66کروڑ 39لاکھ64ہزار ، خریداری پائیدار اشیاء 20کروڑ46لاکھ 16ہزار(20کروڑ خریداری پر24فیصد ٹیکس کٹوتی ہوتی ہے)، ریپئر و مینٹیننس 38کروڑ40لاکھ65ہزار۔واضح رہے کہ غیر ترقیاتی اخراجات کی 96فیصد رقم ٹیکسز سے جمع رقوم سے پوری ہوتی ہے۔

آزاد کشمیر میں انکم ٹیکس ، ایکسائیز ڈیوٹی،سیلز و دیگر مدات کے ٹیکسز کی جملہ وصولیابی محکمہ حسابات کے توسط سے براہ راست آزاد کشمیر کے خزانہ کے اکائونٹ نمبر101میں جمع ہوتی ہے۔لہذا اس اکائونٹ سے رقم کی منتقلی یا اخراجات کی منظوری اسمبلی کے منظور شدہ بجٹ کے مطابق ہوتی ہے۔ان لینڈ ریوینیو نے2020میں22ارب کے ٹارگٹ کے مقابلے میں23ارروپے وصولی کی گئی، جبکہ اس عرصہ میں کووڈ کی وجہ سے میر پور صنعتی یونٹس بند رہے۔ 13ویں ترمیم سے آزاد کشمیر کو ٹیکسز کے نظام کی منتقلی سے آزاد کشمیر کابجٹ1کھرب سے تجاوز ہوا ہے۔


حکومت پاکستان کی طرف سے آزاد کشمیر کو جو3.64فیصد کنٹری بیوٹ کیا جاتا ہے ، جو اب 76ارب بنتا ہے جو پاکستان کا ریسورس پول اس میں آزاد کشمیر اس میں کنٹری بیوٹ کرتا ہے ، اس میں 3.64یہ کوئی اضافی گرانٹ نہیں ہے بلکہ ویری ایبل گرانٹ ہے اس میں بیرون ملک سے ریاستی(آزاد جموں وکشمیر) باشندوں کی طرف سے بھیجا جانے والے زرمبادلہ کی رقوم بھی شامل ہیں۔واضح رہے کہ آزاد کشمیر کے غیر ترقیاتی اخراجات جو اپنے وسائل سے پورے کئے جاتے ہیں، ان میں ڈائریکٹ ٹیکسز( سیلز ٹیکس وغیرہ،تنخواہوں پہ کٹوتی، کمپنیوں کا ٹیکس، انکم ٹیکس وغیرہ) ، ان ڈائریکٹ ٹیکسزیعنی سیلز ٹیکس ، آن گڈز اور خدمات پہ، اس کے علاوہ مصنوعات کی تیاری پہ ایکسائیز ڈیوٹی، ٹول ٹیکس وغیرہ، بجلی پہ لیا جانے والا ' جی ایس ٹی' ، اور محکموں کی آمدن ،منگلا ڈیم کی رائیلٹی اور حکومت پاکستان سے3.64فیصد ویری ایبل گرانٹ شامل ہے۔

واضح رہے کہ منگلا ڈیم سے پیدا ہونے والی بجلی پہ واپڈا پاکستان کے صوبوں کی طرح آزاد کشمیر کو ' جی ایس ٹی' نہیں دے رہا ۔ آزاد کشمیر کے انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کا واپڈا کے خلاف ساڑھے تین سو ارب روپے کا دعوی ہے اور یہ معاملہ کئی سال سے آزاد کشمیر کی عدالت میں زیر کار ہے۔ اس مقدمے میں آزاد کشمیر کا دعوی ہے کہ منگلا ڈیم کی بجلی میر پور سے پیدا ہو رہی ہے جو نیشنل گرڈ میں جا رہی ہے اور 2017سے اب تک واپڈا کے ذمے ( بمعہ جرمانے) رقم ساڑھے تین سو ارب روپے بنتی ہے ۔ جبکہ واپڈا کا موقف ہے کہ بجلی میر پور سے پیدا ہو رہی ہے اور نیشنل گرڈ میں جا رہی ہے تاہم بجلی کی تقسیم( ڈسٹری بیوشن) لاہور سے ہو رہی ہے ۔ آزاد کشمیر ہائیکورٹ نے مقدمے کا فیصلہ آزاد کشمیر کے حق میں کیا جس کے خلاف واپڈا نے آزاد کشمیر سپریم کورٹ میں اپیل کی، سپریم کورٹ نے معاملہ دوبارہ ہائیکورٹ کو ریفر کیا ہے۔کمشنر کے فیصلے کے خلاف واپڈا نے ٹریبونل میں بھی اپیلیں کیں جن کا فیصلہ بھی آزاد کشمیر کے حق میں ہوا ہے۔

واپس کریں