دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کراچی میں کشمیر سے متعلق دو تاریخی معاہدے
اطہرمسعود وانی
اطہرمسعود وانی
پاکستان کے پہلے دارلحکومت کراچی کی آبادی 2کروڑ43لاکھ ہے اوربحیرہ عرب کے ساحل پہ واقع کراچی کو پاکستان کے سب سے بڑے صنعتی اور تجارتی شہر کی حیثیت حاصل ہے۔ملک کے بڑے مالیاتی اداروں کے ہیڈ کواٹر کراچی میں ہی واقع ہیں۔ملک کے نجی ٹی وی چینلز کا مرکز بھی کراچی ہی ہے۔کراچی میں ریاست کشمیر سے تعلق رکھنے والے کئی بڑے کاروباری خاندان مقیم ہیں اورآزاد کشمیر کے ہزاروں محنت کش بھی کراچی میں کام کر تے ہیں۔لیکن کراچی شہر کی منفرد حیثیت و اہمیت کے باوجود کشمیر کاز کے حوالے سے کراچی میں کوئی سرگرمیاں نظر نہیں آتیں۔نجی ٹی وی چینلز پر کراچی کے واقعات کو خصوصی طور پر نشر کیا جاتا ہے لیکن کشمیر کاز سے متعلق کراچی پریس کلب یا کسی بھی جگہ پہ ایسی کوئی سرگرمی نہیں ہوتی جس سے کراچی میں کشمیر کاز کے حوالے سے کوئی کام نظر آتا ہو۔کراچی میں کشمیر سے متعلق تاریخی اہمیت کے حامل دو معاہدے ہوئے۔کشمیر کی سیز فائر لائین کے قیام کا معاہدہ کراچی اور تحریک آزادی کشمیر کی نمائندہ حکومت کو ختم کر کے لوکل اتھارٹی میں تبدیل کرنے والے معاہدے کا نام بھی معاہدہ کراچی ہے،جس کے تحت آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کو کشمیر کاز سے متعلق حیثیت و اختیار سے لا تعلق کر دیا گیا۔آبادی اور اقتصادی طور پر پاکستان کا سب سے بڑا شہر لیکن کراچی میں کشمیر کی آواز کمزور ہی نہیں بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

1729ء میں کولاچی کے نام سے تجارتی مقصد سے قائم کیا گیا۔برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے1839میں کراچی کو فتح کیا اور1843میں کراچی برٹش انڈٖیا کا حصہ بن گیا جس کے بعد انگریزوں نے کراچی کو ٹرانسپورٹ کا مرکز بناتے ہوئے پورٹ اور ریلوے لائین قائم کی۔برٹش کراچی نیو ٹاؤن اور اولڈ ٹاؤن میں تقسیم تھا۔برطانوی سرمایہ کاری نیو ٹاؤن میں تھی جبکہ اولڈ ٹاؤن کسی بھی قسم کی سہولیات کے بغیر غریبوں کی بستی تھا۔نیو ٹاؤن میں رہائشی،تجارتی اور ملٹری ایریا قائم کئے گئے۔1899ء میں کراچی ایشیا میں گندم برآمد کرنے والی سب سے بڑی بندر گاہ بن گیا۔تجارتی سرگرمیوں کی وجہ سے انگلو برٹش،پارسی،مراٹھی ،عیسائی کافی تعدا د میں کراچی آگئے۔1864میں ٹیلی گراف کا نظام قائم ہوا۔پبلک بلڈنگز کی تعمیر ات شروع کی گئیں۔فریری ہال1865اور ایمریس مارکیٹ1878ء میں تعمیر ہوئی۔1878ء میں کراچی کو برٹش انڈیا کے ریلوے نظام سے منسلک کر دیا گیا۔بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح 1876میں کراچی میں( وزیر مینشن )پیدا ہوئے۔ ان کے بزرگ 19ویں صدی کے آخر میں گجرات سے کراچی آئے تھے اس وقت کراچی کی آبادی ایک لاکھ پانچ ہزار نفوس تھی۔1911میں کراچی کی پہلی سٹی میونسپل گورنمنٹ قائم کی گئی اور اس کے پہلے میئر سیٹھ ہر چندرا وشان داس منتخب ہوئے ،جنہیں جدید کراچی کا بانی بھی کہا جاتا ہے۔

قیام پاکستان کے بعد کئی لاکھ مسلمان ہندوستان سے ہجرت کر کے کراچی آئے اور اس کی آبادی میں تیزی سے اضافے کس سلسلہ شروع ہوا ۔کراچی میں پاکستان کے ہر علاقے سے لوگ روزگار کے لئے کراچی آئے۔قیام پاکستان کے وقت کراچی کی آبادی چار لاکھ تھی۔برصغیر میں قتل و غارت گری کی لہر میں کراچی کے حالات پرسکون رہے تاہم کراچی سے غیر مسلموں کی روانگی اور مسلم مہاجرین کی آمد کا سلسلہ جاری رہا ۔1958میں دارلحکومت راولپنڈی منتقل کرنے تک کراچی پاکستان کا دارلحکومت رہا۔1960سے 1970تک کراچی کو دنیا میں اہمیت حاصل ہوئی۔کراچی میں بالخصوص گزشتہ دس سال کے دوران امن و امان کی ابتر صورتحال کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں خاندان ملک کے دیگر شہروں میں منتقل ہوئے ۔کراچی میں سابق مشرقی پاکستان سے آئے افراد دس لاکھ،دس لاکھ افغان اور چالیس ہزار کے قریب روہینگا مسلمان آباد ہیں۔ایران و دیگر کئی ملکوں سے تعلق رکھنے والے بھی کراچی میں آباد ہیں۔2014ء میں کراچی کی اقتصادیات کاحجم113بلین ڈالر رہا۔کراچی کا رقبہ تقریبا3527مربع کلو میٹر ۔فی مربع کلو میٹر میں چھ ہزار افراد آباد ہیں۔کراچی میں وڈز نیٹ ورک9500 کلومیٹر ہے۔کسی دور میں پاکستان کا یورپ کہلانے والے کراچی کو غٖریب پروری شہر میں کہا جاتا تھا۔1980تک کراچی امن و ترقی کا شہر رہا لیکن افغانستان میں روس کے خلاف جنگ کے بعد سے کراچی کے حالات بگڑتے چلے گئے اور جرائم کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہوا۔

کراچی معاہدے کے نام سے دو معاہدے تاریخی حیثیت کے حامل ہیں اور ان دونوں معاہدات کا بڑا موضوع مسئلہ کشمیر اب بھی حل طلب ہے۔پہلا معاہدہ کراچی 28اپریل1949کو حکومت پاکستان ،آزاد کشمیر حکومت اور آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے درمیان طے پایا جس کے تحت آزاد کشمیر حکومت کو کئی اختیارات اور ذمہ داریوں سے محروم کر دیا گیا۔معاہدے پر پاکستان کی وزارت امور کشمیرکے وزیر بے محکمہ مشتاق احمد گورمانی،آزاد کشمیر کے صدر سردار محمد ابراہیم خان اور مسلم کانفرنس کے سربراہ چودھری غلام عباس نے دستخط کئے۔معاہدے کا پہلا حصہ آزاد کشمیر کے علاقے میں سول ایڈ منسٹریشن کی ہیت اور طریقہ کار کے بارے میں ہے جو آزاد کشمیر حکومت کے ذریعے چلایا جائے گا۔معاہدے کا دوسرا حصہ مالیاتی انتظام سے متعلق ہے جو پاکستان ادا کرے گا۔معاہدے کے تیسرے حصے میں حکومت پاکستان ،آزاد کشمیر حکومت اور مسلم کانفرنس کی ذمہ داریوں کا تعین شامل ہے۔اختیارات کی تقسیم کے تحت آٹھ اہم امور حکومت پاکستان کو سونپے گئے،جس میں دفاع،UNCIPسے بات چیت،خارجہ پالیسی،بیرون ملک پبلسٹی،مہاجرین کی مدد اور بحالی اور رائے شماری کے تمام انتظامات،پاکستان میں کشمیر سے متعلق تمام سرگرمیاں اور گلگت بلتستان کے تمام امور شامل ہیں۔ اس سے آزاد کشمیر حکومت کی تمام ریاست جموں و کشمیر کی نمائندہ حکومت ہونے کی حیثیت ختم ہو گئی اور آزاد کشمیر حکومت کو ایک لوکل اتھارٹی میں میں تبدیل کر دیا گیا۔اس معاہدے کے تحت پاکستان نے آزاد کشمیر آرمی سمیت آزاد کشمیر کا دفاع خود سنبھال لیا۔یوں آزاد کشمیر حکومت کا کوئی عالمی کردار نہ رہا۔معاہدے کے مطابق آزاد کشمیر حکومت کو چار اموردیئے گئے جس میں آزاد کشمیر کی پالیسی ، ایڈ منسٹریشن،مالیاتی ذرائع کی ترقی اورپاکستان کی کشمیر منسٹری کے وزیر بے محکمہ کو UNICPسے مزاکرات کے حوالے سے مشورہ دینا شامل ہے۔مسلم کانفرنس کو آٹھ ذمہ داریاں دی گئیں جس میں سے چھ آزاد کشمیر،مقبوضہ کشمیر اورمہاجرین مقیم پاکستان میں سیاسی سرگرمیوں سے متعلق ہیں۔اس میں رائے شماری کے لئے سرگرمیاں ،آزاد کشمیر حکومت کو عمومی رہنمائی دینا اور وزارت امور کشمیر کے وزیر بے محکمہ کو مشورے دینا ہے۔

دوسرامعاہدہ کراچی کشمیر میں جنگ بندی لائین کی تشکیل کے لئے کیا گیا جس میں پاکستان اور بھارت کے فوجی نمائندے اور اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انڈیا اور پاکستان کے نمائندے شامل تھے۔27جولائی 1949میں معاہدہ کراچی کے نام سے کشمیر میں جنگ بندی کے اس معاہدے پر بھارت کی طرف سے لیفٹنٹ جنرل ایس ایم شری نگیش،پاکستان کی طرف سے ڈبلیو جے کیو تھرن اور اقوام متحدہ کے کمیشن برائے ہندوستان و پاکستان کی طرف سے ہمینڈو سامپر اور اہم ڈلووئی نے دستخظ کئے۔کشمیر میں جنگ بندی لائین کے قیام کا یہ معاہدہ اقوام متحدہ کے ملٹری مبصرین کی نگرانی کیا گیا اور اس جنگ بندی لائین کی نگرانی، خلاف ورزیوں کی رپورٹ کے لئے اقوام متحدہ کا ملٹری آبزرور گروپ قائم کیا گیا جس اپنی رپورٹ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بھیجتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ملٹری آبزرور گروپ کی طرف سے کشمیر کی جنگ بندی لائین کی نگرانی کا عمل اب بھی جاری ہے۔

واپس کریں