دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
19جولائی1947، قرار داد الحاق پاکستان
اطہرمسعود وانی
اطہرمسعود وانی
15 اگست 47 ء کو برصغیر پاک و ہند کی آزادی کے وقت 600 دیسی ریاستوں کے مستقبل کا سوال سامنے آیا۔ یہ ریاستیں ہندومہاراجوں مسلمان نوابوں اور سکھ سرداروں کے قبضے میں تھیں۔ 3 جون 47 ء کے قانون آزادی ہند میں ان ریاستوں کو یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ بھارت یا پاکستان سے الحاق کریں یا دونوں سے الگ آزاد رہیں۔ مگر اس صورت میں حکومت برطانیہ ان کو دولت مشترکہ میں شامل نہیں کرے گی۔ 25 جولائی 47 ء کو برصغیر میں انگریزی حکومت کے آخری نمائندہ یعنی وائسرائے لارڈ مونٹ بیٹن نے والیان ریاست ہائے ہند کو چیمبر آف پرنسز کے ایڈریس کے جواب میں ریاستی حکمرانوں کو مشورہ دیا کہ وہ الحاق کے سوال کا فیصلہ کرتے وقت ملکی حالات، عوام کی خواہشات اور ریاست کے جغرافیائی محل وقوع کا خیال رکھیں۔ انہوں نے ان کو متنبہ کیا تھا کہ وہ خود مختار رہنے کی لائن پر نہ سوچیں کیونکہ ایسا کرنا عوام کے مفاد سے غداری ہوگی۔ ان حالات میں جموں وکشمیر کی صورتحال واضح تھی ۔یہاں مسلمانوں کی آبادی 77 فیصد سے بھی زیادہ تھی البتہ حکمران ہندو تھا۔ ریاست کی قابل عبور سرحد کا بیشتر حصہ پاکستان سے ملتا تھا۔ سیاسی اقتصادی جغرافیائی اور اس قسم کے دیگر تمام امورات پاکستان سے الحاق کے حق میں جاتے تھے۔ یہ بات بھی محل نظر تھی کہ یہاں کے عوام بالخصوص مسلمان عوام ربیع صدی سے ڈوگرہ راج کے خلاف جدوجہد آزادی میں مصروف تھے۔ چنانچہ 47 ء میں بھی مسلم کانفرنس کے صدر چوہدری غلام عباس اور ان کے ساتھی نیشنل کانفرنس کے لیڈر شیخ محمد عبداللہ او ران کے رفقاء تحریک آزادی کے سلسلے میں قید تھے۔ یہاں کے عوام کی غالب اکثریت الحاق پاکستان کے حق میں ہے۔ چنانچہ 19 جولائی 47 ء کو سری نگر میں چوہدری حمیداللہ خان مرحوم کی صدارت میں مسلم کانفرنس کی ایک نمائندہ کنونشن نے ایک قرارداد کے ذریعے الحاق پاکستان کا پرزور مطالبہ کیا ۔

قرارداد الحاق پاکستان۔ ا۔آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کی یہ کنونشن اس قرارداد کے ذریعے قیام پاکستان پر اپنے اطمینان قلبی اور مسرت کا اظہار کرتے ہوئے قائداعظم کو اپنی مبارکباد پیش کرتی ہے۔
ب۔ برصغیر کی ریاستوں کے عوام کو امید تھی کہ وہ برطانوی ہندوستان کے دوسرے باشندوں کے دوش بدوش قومی آزادی کے مقاصدکوحاصل کریں گے اور تقسیم ہندوستان کے تمام باشندے آزادی سے ہمکنار ہوئے۔ وہاں 3 جون1947 ء کے اس اعلان نے برصغیر کی نیم خود مختار ریاستوں کے حکمرانوں کے ہاتھ مضبوط کئے ہیں اور جب تک یہ مطلق العنان حکمرا ن وقت کے جدید تقاضوں کے سامنے سرتسلیم خم نہ کریں گے۔ ہندوستانی ریاستوں کے عوام کا مستقبل بھی تاریک رہے گا۔ ان حالات میں ریاست جموں وکشمیر کے عوام کے سامنے صرف تین راستے ہیں۔
(i)۔ ریاست کا بھارت سے الحاق
( ii )۔ ریاست کا پاکستان سے الحاق
(iii)۔ کشمیر میں ایک آزادو خود مختار ریاست کا قیام
مسلم کانفرنس کی یہ کنونشن بڑے غوروخوض کے بعد اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ جغرافیائی اقتصادی لسانی و ثقافتی اور مذہبی اعتبار سے ریاست کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہایت ضروری ہے۔کیونکہ ریاست کی آبادی کا 80 فیصد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے اور پاکستان کے تمام بڑے دریا جن کی گزر گاہ پنجاب ہے کے منبع وادی کشمیر میں ہیں اور ریاست کے عوام بھی پاکستان کے عوام کے ساتھ مذہبی ثقافتی اور اقتصادی رشتوں میں مضبوطی سے بندھے ہوئے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ ریاست کا الحاق پاکستان سے کیا جائے ۔ یہ کنونشن مہاراجہ کشمیر سے پرزور مطالبہ کرتا ہے کہ کشمیر ی عوام کو داخلی طورپر مکمل خود مختاری دی جائے اور مہاراجہ ریاست کے آئینی سربراہ کی حیثیت اختیار کرتے ہوئے ریاست میں ایک نمائندہ قانون ساز اسمبلی کی تشکیل کریں اوردفاع مواصلات اورامو رخارجہ کے محکمے پاکستان دستور ساز اسمبلی کے سپرد کئے جائیں۔
کنونشن یہ قرار دیتی ہے کہ حکومت کشمیر نے ہمارے یہ مطالبات تسلیم نہ کئے اور مسلم کانفرنس کے اس مشورے پر کسی داخلی یا خارجی دبائو کے تحت عمل نہ کیاگیا اورریاست کا الحاق ہندوستان کی دستور ساز اسمبلی کے ساتھ کردیا گیا۔ تو کشمیری عوام اس فیصلے کی مخالفت میں اٹھ کھڑے ہوں گے اور اپنی تحریک آزادی پورے جوش و خروش سے جاری رکھیںگے۔
یہ تاریخی قرارداد آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے اجلاس خاص (کنونشن) نے 19 جولائی 1947 ء میں سری نگر میں پاس کی تھی۔
اس قرارداد میں حکمران کو خبر دار کیا گیا تھا کہ اگر عوام کی مرضی کے خلاف بھارت سے الحاق کرنے کی کوشش کی گئی تو مسلم عوام اس کی پوری طاقت کے ساتھ مخالفت کریں گے۔5 ستمبر 47 ء کو کسان مزدور کانفرنس کی مجلس عاملہ نے عبدالسلام یاتو کی صدارت میں ایک قرارداد کے ذریعے مطالبہ کیا کہ ریاست جموں وکشمیر میں مسلمانوں کی بھاری اکثریت ہے اور ریاست کے جغرافیائی محل وقوع کا تقاضا ہے کہ ریاست کا الحاق پاکستان سے کیا جائے۔ اس قرارداد کی منظوری جماعت کی جنرل کونسل نے بھی کی تھی۔ 18 ستمبر 47 ء کو کشمیر سوشلسٹ پارٹی (جس میں ہندوئوں کی اکثریت تھی) نے بھی ایک قرارداد کے ذریعے ریاست کا الحاق پاکستان سے کرنے کا مطالبہ کیا ۔
واپس کریں