دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
بھٹوز اور دیومالائی ققنس Phoenix
امتیاز عالم
امتیاز عالم
پیپلز پارٹی اور بھٹوز کو پچاس برس ہوئے۔ پارٹی ہے کہ ختم ہونے کو نہیں۔ چاہے آپ کیسی ہی بددُعائیں دیا کریں! تاریخ کیسی ہی کنگال ہو، مگر بھٹوز ذوالفقار علی اور محترمہ بے نظیر کا رزمیہ پہ رزمیہ ایسا دو آتشہ ہے کہ لوگ بھولنے کو نہیں۔ جب کوئی عوامی گائیکی اور سائیکی میں سما جائے تو دلوں سے کیسے نکلے۔ بھٹوز کا رزمیہ اُس یونانی دیومالائی پرندے ققنس (Phoenix) کی یاد دلاتا ہے جو جل کر ایک اور ققنس کو جنم دیتا ہے اور یوں یہ فدائی اور پیدائی سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اب تیسری نسل ہے بھٹوز کی جو میدان میں اُترنے کو پر تول رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کی پچاسویں سالگرہ پر بلاول بھٹو نے تجدیدِ عہد کیا بھی تو ایک سماجی جمہوری (Social-Liberal) پروگرام پیش کر کے۔ جب بھٹو صاحب کو سولی پہ لٹکایا گیا تو جلادوں کا خیال تھا کہ پیپلز پارٹی کی روح بھی قفسِ عنصری سے پرواز کر جائے گی۔ کسی کو کہاں گماں تھا کہ پتلی دبلی پنکی (بی بی) میں بھٹو کی روح یوں پھر سے جلوہ گر ہوگی! اور اب جب بی بی کا لعل میدان میں اُترنے کے لئے پر تول رہا ہے تو کیسے کیسے جوتشی ہیں کہ علمِ غیب سے کیا کیا دُور کی کوڑیاں نہیں لا رہے۔ کوئی زبان پہ معترض تو کوئی خوبصورتی پہ!! اب بھلا تاریخی بُغض اور رجعتی اندھے پن کا تو کوئی علاج کرنے سے رہا۔ بڑے عوامی دھارے تاریخ کے اسٹیج سے اچانک غائب نہیں ہوتے تاآنکہ تاریخ بڑی انقلابی کروٹ نہ لے۔ اور ہماری تاریخ تو اُسی گرداب میں گھومے جا رہی ہے جس کا سامنا ہمیں پچاس برس پہلے بھی تھا اور بالکل ہی نیا کوئی سامنے آئے بھی تو کیسے، گو کہ مسخروں اور شعبدہ بازوں کی کمی نہیں۔ ہم پسند کریں یا نہ کریں، پاکستان کے عوام کی جمہوری جدوجہد کی کامیابیوں اور ناکامیوں سے پیپلز پارٹی کو علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔

پاکستان اور دُنیا بھر میں نظریاتی و سیاسی تقسیم ہے اور اُس کے طرح طرح کے تاریخی مظہر۔ ساٹھ کی دہائی نے اگر عوامی اور سوشلسٹ سیاست کی لہر کو اُبھارا تھا تو اسّی کی دہائی نے مذہبی انتہاپسندی کے لبادے میں رجعت کا جہادی ردعمل دیکھا۔ اور نظریاتی کشمکش کا یہ سلسلہ مختلف صورتوں میں جاری ہے۔ اب جبکہ ہر طرف مذہبی انتہاپسندی، فسطائیت اور دائیں بازو کی سیاست کا غلغلہ ہے تو اس کا توڑ تو سامنے آنا ہی ہے۔ بلاول بھٹو نے سوشل ڈیموکریسی اور مذہب اور سیاست و ریاست کو علیحدہ کرنے (Secularism) اور متشدد مذہبی انتہاپسندی، خونیں فرقہ پرستی اور تکفیریت کو لگام دینے کی باتیں چھیڑ کر سیاست کے دوسرے قطب (Pole) کو پھر سے کھڑا کر دیا ہے۔ یہ وہ خلأ تھا جو بی بی کی دہشت گردوں کے ہاتھوں شہادت کے بعد پیدا ہوا۔ عوام کی بھاری اکثریت مذہبی انتہاپسندوں کے فساد فی الارض سے نالاں ہے اور بلاول دہشت گردی کے خلاف اُسی جھنڈے کو اُٹھا کر باہر نکلے ہیں جو لیاقت باغ میں بی بی شہید نے بلند کیا تھا۔ یقیناًمعیشت کے نیولبرل جو آزاد منڈی کی مالا جپتے ہیں، اُنھیں بلاول کی سوشل ڈیموکریسی ایک گزری داستان کا قصۂ پارینہ معلوم ہوگی۔ لیکن نیوکلاسیکل معاشی تھیوریز جن کے تحت اجارہ دار سرمایہ کی بالادستی قائم کر کے غریبوں کو جن معاشی بوندوں کی اُمید دلائی گئی تھی، عوام بس اُن کو ترستے ہی رہ گئے۔ اور معاشی نابرابری کی خلیج بڑھتی ہی چلی گئی۔ غربت، جہالت، بیماری اور بیروزگاری کے علاوہ محنت کشوں کو کچھ نہ ملا۔ مسئلے ویسے ہی ہیں جیسے ساٹھ کی دہائی میں تھے، جب سوشلسٹوں نے پیپلزپارٹی کو ’’روٹی کپڑا اور مکان‘‘ اور ’’سوشلزم آوے آوے‘‘ کا نعرہ دیا تھا۔ پیپلز پارٹی 1967ء کے آخر میں اُس وقت بنی جب ایوب خان کے دس سالہ جشنِ آمرانہ ترقی کے خلاف ایک بڑی عوامی لہر اُبھرنے کو بے قرار تھی۔ اور جب 1968ء کی عظیم عوامی لہر اُبھری تو یہ بھٹو اور بھاشانی تھے جنھوں نے آگے بڑھ کر اس کی قیادت کی۔ ایوب خان کے ہارورڈ معاشی ماڈل نے ایسی علاقائی اور طبقاتی تقسیم پیدا کی کہ مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمان کی بنگالی قوم پرستی اور مغربی پاکستان میں بھٹو کی عوامیت پسندی سب کچھ بہا کر لے گئی۔



ایوب خان کی فوجی آمریت ہو یا پھر جنرل یحییٰ خان کی بدمستی، ان عوامی اُبھاروں کے سامنے کھڑی ہو گئیں تو ملک دو لخت ہو گیا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب ویت نام میں امریکی شکست کے ساتھ ساتھ ہر طرف جمہوری و قومی انقلابوں کا سلسلہ جاری تھا۔ ہوچی مینہ، ماؤزے تنگ، کاسترو، پیٹرس لوممبا، سوئیکارنو، نہرو، کرنل جمال ناصر اور الاندے جیسے تاریخ ساز رہنماؤں کا ہر جانب غلغلہ تھا۔ ایسے میں ذوالفقار علی بھٹو ہی تھے جنھوں نے پاکستان کے دو لخت ہونے کے بعد باقی ماندہ پاکستان میں نئے ریپبلکن پاکستان کی بنیاد رکھی۔ آمریت کی شکست نے 1973ء کے آئین کی جمہوریہ کا راستہ کھولا۔ بھٹو کے سوشلزم اور لبرل ازم کے خلاف مُلّا، ملٹری اور تاجر اتحاد نے ’’نظامِ مصطفیٰ‘‘ کے مقدس لبادے میں اس ملک کے سب سے ہونہار، شفاف اور جاندار لیڈر کو نہ صرف اُتار پھینکا بلکہ تختۂ دار پہ چڑھا دیا۔ بھٹو کا عدالتی قتل عوام کی جمہوری و سماجی اُمیدوں کا قتل تھا اور یہ ایسا زخم ہے جو آج بھی غریبوں کے دلوں میں ہرا ہے۔
1977ء سے 1998ء تک مارشل لا کی طویل رات میں یہ پیپلز پارٹی اور بے نظیر بھٹو ہی تھیں جنھوں نے روشن خیالی، جمہوریت اور آزادی کا پرچم بلند کئے رکھا۔ ہزارہا جیالوں اور ترقی پسند کارکنوں نے طویل جیلیں کاٹیں اور دسیوں ہزار جمہوری پروانوں نے اپنا سب کچھ عوام کے جمہوری و سماجی حقوق کی بحالی کے لئے لٹا دیا۔ محترمہ نصرت بھٹو نے نوابزادہ نصر اللہ خان، ولی خان، غوث بخش بزنجو، مولانا فضل الرحمان اور دوسرے لیڈروں کو ساتھ ملا کر تحریکِ بحالیِ جمہوریت (MRD) کی بنیاد رکھی۔ اور جب بے نظیر 1986ء میں جلاوطنی سے لوٹیں تو لاہور نے اُنھیں وہ عوامی استقبال دیا جو کسی کے نصیب میں نہیں آیا۔ بی بی نئے بدلتے عالمی حالات کو بھانپ چکی تھیں اور بھٹو صاحب کی غلطیوں سے بھی سیکھ چکی تھیں۔ اُنھوں نے بھٹو صاحب کی نیشنلائزیشن کی پالیسی کی جگہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ، جمہوری دنیا کے ساتھ چلنے، جارحانہ قوم پرستی کی جگہ امن پسندی اور آمرانہ رجحانات کی جگہ جمہوری اور عوام کے شراکتی انسان دوست نظریات کو آگے بڑھایا۔ فوجی آمریت ضیاء الحق کی موت پر پیچھے تو ہٹ گئی لیکن بالواسطہ فوجی حکمرانی کا جنرل اسلم بیگ اور جنرل حمید گل نے جو ماڈل ترتیب دیا وہ جنرل ضیاء الحق کے آمرانہ سلسلے کا ہی تسلسل تھا، جس کے ہوتے ہوئے جمہوری نظام کہاں چلنا تھا۔ پہلے مسلم لیگ نواز کو بی بی کے خلاف کھڑا کیا گیا اور پھر نواز شریف اور بے نظیر کو آپس میں ایسا لڑایا گیا کہ دس برس میں آٹھ حکومتیں آئیں اور گئیں اور بالآخر جنرل مشرف آن دھمکے۔ جس طرح افغانستان میں روسی فوجوں کی آمد نے جنرل ضیاء کو توانا کیا، اسی طرح امریکہ میں ہوئی نائن الیون کی دہشت گردی نے جنرل مشرف کو دوام بخشا۔ ایک اور وزیراعظم کو عمر قید کی سزا ملی اور اس کی ملک بدری بھی ہوئی۔ یہ محترمہ بے نظیر بھٹو تھیں جنہوں نے جنرل مشرف کی وردی اُتروائی اور اپنی اور نواز شریف کی واپسی ممکن بنائی۔ یہ ایسی عہدشکنی تھی جسے جنرل مشرف نے معاف نہ کیا اور جب بی بی نے دہشت گردی کے خلاف انسان دوستی (Humanism) کا پرچم بلند کیا تو پھر دہشت گرد اور اُن کے سرپرست حرکت میں آئے اور بی بی کو بیچ میدان شہید کر دیا گیا۔

بی بی کی شہادت سے ویسا ہی سیاسی خلأ پیدا ہو گیا جو بھٹو صاحب کی شہادت سے ہوا تھا۔ ایک سینٹر لیفٹ یا میانہ رو بائیں بازو کا خلأ۔ جمہوری عبور کا ایک مشکل اور پیچیدہ دور شروع ہوا تو آصف علی زرداری نے اُسے عملیت پسندانہ (Pragmatism) مصالحت کے نظریہ سے پُر کرنے کی کوشش کی۔ وہ جانتے تھے کہ جنرل اسلم بیگ/جنرل حمید گل ماڈل اب جنرل کیانی/ جنرل پاشا کی منڈلی کی صورت میں حاوی ہے۔ لہٰذا دُم دبا کر وقت گزارنے میں ہی عافیت جانی اور جنرل مشرف کو باعزت چلتا کیا۔ یہ ایک سمجھوتہ تھا جس میں اگر صدر آصف علی زرداری نے پارلیمنٹ کو اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے اُس کا کھویا ہوا اقتدارِ اعلیٰ واپس دلوایا بھی تو گیلانی اور راجہ کی وزارتِ عظمیٰ پیپلز پارٹی کی عوامی سیاست اور عوامی پذیرائی کے لئے بڑا صدمہ ثابت ہوئی۔ مشکل یہ تھی کہ یا تو عوامی سیاست کی جائے یا پھر حکومت کی مدت پوری کی جائے۔ اور پیپلز پارٹی کو مدت پوری کرنے کی خواہش بہت مہنگی پڑی۔ پھر سندھ میں جاگیرداروں نے ایسی بدترین حکومت دی کہ پیپلز پارٹی کی ساکھ مٹی میں مل کر رہ گئی۔ اب یہ بی بی کا خلأ ہی نہیں بلکہ بُری ساکھ بھی بلاول بھٹو کی سیاست میں آمد کے لئے مشکل کا سبب ہے۔ گو کہ بی بی سے لوگوں اور جیالوں کا پیار ابھی بھی اتنا زور دار ہے کہ بلاول کے لئے اُن کی محبت کا اظہار دیدنی ہے۔

بلاول ٹوڈی بچہ نہیں۔ اُس پر اپنی ماں کا بہت اثر ہے، وہ صاف ستھرا ہے، ذہین ہے، پڑھا لکھا ہے اور کافی نظریاتی بھی۔ اُس کے لئے ابھی عشق کے امتحاں بہت ہیں اور حالیہ سیاسی ورثہ بھی ایک بڑا بوجھ ہے۔ ایک طرف بلاول کو اس بُرے ورثے سے نجات پانی ہے، دوسری طرف اپنے سوشل ڈیموکریٹک ایجنڈے کو ٹھوس صورت دینی ہے اور تیسری طرف اپنی ایک نئی نوجوان ٹیم تیار کرنی ہے۔ اگلے انتخابات اُس کے لئے ایک اچھی عوامی مشق فراہم کریں گے۔ اُن میں جیت اتنی اہم نہیں جتنا سوشل ڈیموکریسی کے پلیٹ فارم کا توانا احیا ہے۔ بلاول کو اپنے جمہوری کھاتے کو ہر طرح کے داغ سے بچانا ہے اور بی بی کے ورثے میثاقِ جمہوریت (Charter of Democracy) کو مضبوطی سے تھامے رکھنا ہے۔ جمہوری تسلسل میں ہی پیپلز پارٹی کی بقا ہے۔ اس سے اگر یہ ہٹی تو بس پھر اس کی دُعائے خیر ہی پڑھی جائے گی۔ دیکھتے ہیں کہ بلاول راہول گاندھی بنتے ہیں یا پھر بی بی کے ایسے وارث جو عوام کی سماجی و جمہوری منشاؤں کے مظہر ہوں۔ بھٹوز اور دیومالائی ققنس کا سلسلہ جاری ہے۔ دیکھیں نیا بھٹو کیا رنگ جماتا ہے؟
واپس کریں