دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
تین نوجوانوں کو فرضی مقابلے میں ہلاک کرنے والے ہندوستانی فوجیوں کو پھانسی پر لٹکایا جائے۔ ایک مقتول نوجوان کے والد کا مطالبہ
No image سرینگر۔ مقبوضہ کشمیر میں ہندوستانی فوج کے ہاتھوں جعلی مقابلے میں قتل کئے جانے والے تین نوجوانوں میں سے ایک نوجوان کے والد نے مطالبہ کیا ہے کہ اس کے بیٹے اور دیگر دو رشتہ دار نوجوانوں کو قتل کرنے والے ہندوستانی فوجیوں کو پھانسی پر لٹکا یا جائے۔ انہوں نے قتل کئے جانے والے نوجوانوں کی لاشوں کی حوالگی کا مطالبہ بھی کیا ہے ۔' ضلع راجوری سے تعلق رکھنے والے محمد یوسف کے بیٹے ابرار احمد سمیت دو قریبی رشتہ دار نوجوانوں کو بھارتی فوج نے رواں برس 17 اور 18 جولائی کی درمیانی رات کو ضلع شوپیاں میں ایک 'فرضی' جھڑپ میں ہلاک کیا ۔
سری نگر میں تعینات بھارتی فوج کے ترجمان کرنل راجیش کالیا نے ضلع شوپیاں کے امشی پورہ میں ہونے والی اس 'فرضی' جھڑپ پر جمعے کو ایک بیان میں کہا کہ مجاز انضباطی اتھارٹی نے بادی النظر میں جھڑپ میں تین نوجوانوں کے قتل میں ملوث اہلکاروں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت انضباطی کارروائی شروع کرنے کا حکم دے دیا ہے۔فوج کے بیان میں کہا گیا ہے کہ 'فرضی' جھڑپ کے دوران بادی النظر میں متنازعہ آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ(افسپا)1990 کا حد سے زیادہ استعمال ہوا ہے نیز بھارتی فوجی سربراہ کی آپریشنز سے متعلق ہدایات کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔
بھارتی فوج اور کشمیر پولیس نے 18 جولائی کو اپنے بیانات میں جنوبی ضلع شوپیاں کے امشی پورہ میں تین عدم شناخت عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعوی کیا تھا۔اس 'فرضی' جھڑپ کے تین ہفتے بعد شوپیاں میں لاپتہ ہونے والے راجوری کے تین نوجوان مزدوروں کے والدین نے لاشوں کی تصویریں دیکھ کر ان کی شناخت اپنے تین 'بے گناہ بیٹوں' کے طور پر کی تھی۔محمد یوسف نے 'فرضی' جھڑپ میں مارے گئے دیگر دو نوجوانوں کی شناخت اپنی سالی اور اپنے سالے کے لڑکوں بالترتیب 16 سالہ محمد ابرار اور 21 سالہ امتیاز احمد کے طور پر کی ہے۔انہوں نے واقعے کی تفصیلات فراہم کرتے ہوئے کہا: 'ابرار احمد، محمد ابرار اور امتیاز احمد کا تعلق ایک ہی خاندان سے ہے۔ امتیاز احمد مزدوری کرنے کے لیے شوپیاں گیا ہوا تھا۔ امتیاز نے ابرار احمد اور محمد ابرار کو بھی فون کر کے وہاں بلا لیا۔ دونوں یہاں سے 15 جولائی کو روانہ ہو کر 130 کلو میٹر کا دشوار گزار پہاڑی راستہ طے کرتے ہوئے 17 جولائی کو وہاں پہنچے۔'رات کے آٹھ بجے انہوں نے ہمیں فون کیا کہ ہم یہاں پہنچ گئے ہیں۔ پونے نو بجے سے ہمارا ان کے ساتھ رابطہ منقطع ہوگیا۔ یہی وہ رات ہے جس دوران انہیں قتل کیا گیا ہے۔محمد یوسف کے مطابق تینوں نوجوانوں کے پاس شناختی دستاویزات تھے لیکن فوج نے ان کی شناخت کو چھپاتے ہوئے انہیں ضلع بارہمولہ کے علاقے گانٹہ مولہ میں واقع غیر ملکی عسکریت پسندوں کے لیے مخصوص قبرستان میں دفن کروایا۔
کشمیر میں انسانی حقوق کے معروف کارکن پرویز امروز نے کا کہنا ہے کہ کشمیر میں فرضی جھڑپوں کا وقوع پذیر ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ فوج نے فرضی جھڑپ میں نوجوانوں کی ہلاکت کا اعتراف کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ کشمیر میںپولیس آزاد نہیں ہے۔کشمیر پولیس وہی کچھ کرتی ہے جو اس کو کرنے کو کہا جاتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ مقامی پولیس فوج سے ڈرتی ہے۔ معاملے میں پولیس کی طرف سے ہمیں ابھی تک کوئی پیش رفت دیکھنے کو نہیں ملی ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ ہم نے یہاں 1990 سے صرف تحقیقات کے احکامات جاری ہوتے ہوئے دیکھے ہیں۔ ہمارے پاس بے نتیجہ تحقیقات کی لمبی فہرستیں پڑی ہیں۔ ایسے واقعات کی تحقیقات پایہ تکمیل کو نہیں پہنچائی جاتی ہے۔ہمارے ہاں فرضی جھڑپ کا ایک معاملہ سنہ 2000 میں پتھری بل میں سامنے آیا تھا جس میں ضلع اننت ناگ سے تعلق رکھنے والے پانچ عام شہریوں کو مارا گیا تھا۔ بھارتی سپریم کورٹ نے اس فرضی جھڑپ میں ملوث اہلکاروں کے خلاف کورٹ مارشل کارروائی کرنے کے احکامات جاری کیے تھے لیکن کسی کو سزا نہیں ہوئی۔
کشمیر پولیس کے سابق سربراہ ڈاکٹر شیش پال وید نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ بے گناہ نوجوانوں کو مارنا اور پھر انہیں دہشت گرد بتانا ایک انتہائی سنگین جرم ہے۔ ملوثین کے خلاف قتل کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا جانا چاہیے۔سابق وزیر اعلی عمر عبداللہ نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا: 'مقتول نوجوانوں کے لواحقین مسلسل یہ کہتے آئے ہیں کہ ان کے بچے بے گناہ ہیں۔ انضباطی کارروائی شروع کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ فوج ان کے کنبوں کے بیان سے اتفاق کرتی ہے۔ کارروائی کا عمل شفاف طریقے سے پایہ تکمیل کو پہنچنا چاہیے اور قصورواروں کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ)کے کشمیری رہنما اور سابق رکن اسمبلی محمد یوسف تاریگامی کا کہنا ہے کہ فوجیوں کے خلاف انضباطی کارروائی شروع کرنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ یہ ایک فرضی جھڑپ تھی۔ تاہم کورٹ آف انکوائری کو یہ بات یقینی بنانی چاہیے کہ کسی بہانے بھی انصاف کے حصول میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔
واپس کریں