دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
نظرِثانی کی درخواستیں مسترد، نواز شریف کی نااہلی برقرار
پاکستان کی سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کے مقدمے میں فیصلے پر نظرِ ثانی کے لیے سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے بچوں کی طرف سے دائر کی گئی درخواستیں مسترد کر دی ہیں۔
یہ درخواستیں اس فیصلے کے خلاف دائر کی گئی تھیں جس میں عدالت نے نواز شریف کو نااہل قرار دیتے ہوئے احتساب بیورو کو ان کے اور ان کے خاندان کے خلاف ریفرینس دائر کرنے کو کہا تھا۔
’قانون کو اندھا ہونا چاہیے جج کو نہیں‘
’پاناما کیس کا فیصلہ محض ایک جھلک ہے‘
جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے جمعے کو درخواستوں کی تیسری سماعت کے دوران دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کیا اور ججوں کی مشاورت کے بعد اس کا اعلان کر دیا گیا۔
فیصلہ سناتے ہوئے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ نظرثانی کی درخواستیں مسترد کرنے کی وجوہات بعد میں بتائی جائیں گی۔
اس فیصلے میں قومی احتساب بیورو کے پراسیکیوٹر جنرل کی طرف سے حدیبیہ پیپر ملز کے مقدمے میں ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرنے کی یقین دہانی کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ نیب کے پراسیکیوٹر کے مطابق ایک ہفتے میں اس بارے میں درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی جائے گی۔
اس یقین دہانی کے بعد عدالت نے عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کی درخواست کو نمٹا دیا۔
اس سے پہلے نیب کے ترجمان کی طرف سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا تھا کہ نیب کے حکام سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے بھائی اور میاں شہباز شریف اور بچوں کے خلاف حدیبیہ پیپر ملز کے مقدمے میں 15 ستمبر کو سپریم کورٹ میں درخواست دائر کریں گے۔
اس سے پہلے نظرثانی کی درخواستوں پر عدالتی کارروائی کے دوران سابق وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل اختیار کیے۔ اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کہ مریم نواز اور ان کے شوہر محمد صفدر کا لندن فلیٹس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔
جس پر بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی کی تفتیش کے مطابق مریم نواز ان فلیٹس کی بینیفیشل مالک ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ اگر تفتیش میں سقم موجود ہیں تو معاملہ ٹرائل کورٹ میں اُٹھائے جائے جس کا ملزمان کو فائدہ ہو گا۔
واضح رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نواز شریف اور ان کے بچوں کو 19 ستمبر کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم جاری کر رکھا ہے۔ اطلاعات کے مطابق نواز شریف اور ان کے دونوں صاحبزادے اس وقت لندن میں ہیں، جس کی وجہ سے حکمران جماعت کے کچھ رہنماؤں کا کہنا ہے کہ مقررہ تاریخ پر ان تینوں افراد احتساب عدالت میں پیش ہونا مشکل دکھائی دیتا ہے۔
گذشتہ سماعت پر پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے کہا تھا کہ ان درخواستوں کی سماعت کے دوران ججوں کی طرف سے دی گئی آرا احتساب عدالتوں میں نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف ہونے والی کارروائی پر اثرانداز نہیں ہوں گی۔
ججوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ عدالت نے پاناما کیس پر اپنے فیصلے میں نہ تو کسی کو مجرم قرار دیا ہے اور نہ ہی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کو حتمی اور مستند قرار دیا ہے۔
فیصلے کے بعد سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے بیرسٹر ظفر اللہ کا کہنا تھا کہ 'ہماری نظر میں فیصلہ انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے اور وہ وقت بھی آئے گا جب عدالتیں انصاف فراہم کریں گی۔'
انھوں نے کہا کہ تاریخ اور عوام فیصلہ کریں گے کہ نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ درست تھا یا نہیں۔
اس موقع پر وفاقی وزیر انوشہ رحمان نے کہا کہ '20 کروڑ عوام کو حاصل انصاف کا حق ہمیں نہیں ملا اور جنھوں نے ہمارے خلاف فیصلہ دیا وہی نگران بنا دیے گئے ہیں۔'
خیال رہے کہ پاناما لیکس کے فیصلے کے بعد پاکستان کے چیف جسٹس نے جسٹس اعجاز الاحسن کو محمد نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف احتساب عدالتوں میں دائر کیے گئے ریفرنسوں میں ہونے والی پیش رفت سے متعلق نگراں جج بھی مقرر کر رکھا ہے۔
سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کا فیصلہ آئین کے آرٹیکل 184 کے سب سیکشن 3 کے تحت ہی کیا تھا اس لیے اس میں کیے گئے فیصلوں کے خلاف اپیلیں دائر نہیں کی جا سکتیں تاہم اس فیصلے پر نظرثانی کے بارے میں درخواستیں دی جاسکتی ہیں۔
قانونی ماہرین کے مطابق آئین کے اس آرٹیکل کے تحت دیے گئے فیصلوں میں نظرثانی کی درخواستیں دائر کرنے والوں کو ریلیف ملنے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔
اس سے قبل پاناما لیکس کے مقدمے کے خلاف نظرثانی کی درخواستوں کی سماعت تین رکنی بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔
مریم نواز کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ لارجر بینچ کے فیصلے کے خلاف علیحدہ درخواست دائر کی گئی تھی۔ انھوں نے استدعا کی تھی کہ پانچ رکنی بینچ کے فیصلے کو بھی اسی درخواست کے ساتھ سنا جائے۔
اس کے بعد ⁠⁠⁠⁠⁠سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس میں نااہل قرار دیے جانے والے وزیراعظم نوازشریف اور ان کے بچوں کی عدالتی حکم کے خلاف نظرثانی کی درخواستیں یکجا کر کے پانچ رکنی بینچ تشکیل دیا تھا۔



واپس کریں