دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
خفیہ فوجی لیبارٹری میں کیا ہوتا ہے؟
No image پورٹن ڈاؤن جسے ڈیفنس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی لیبارٹری بھی کہا جاتا ہے، وہ جگہ ہے جہاں برطانیہ کی خفیہ فوجی تحقیق ہوتی ہے۔ اس کا سالانہ بجٹ 50 کروڑ پاؤنڈ ہے اور اس میں تین ہزار سے زیادہ افراد کام کرتے ہیں۔
اسے برطانیہ کا سب سے زیادہ متنازع، سب سے زیادہ غلط سمجھا جانے والا اور کچھ کے بقول بہت خوفزدہ کرنے والا سائنسی ادارہ ہے۔ اگرچہ بہتوں نے پورٹن ڈاؤن کے متعلق سنا ہو گا لیکن بہت کم ہی ہوں گے جنھوں نے اس کے اندر قدم رکھا ہو یا جو یہ جانتے ہوں کہ اس کے اندر کیا ہوتا ہے۔
سو جب مجھے یہ پتہ چلا کہ مجھے وہاں ہونے والی تحقیق پر دستاویزی فلم بنانے کی اجازت مل گئی ہے تو میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔
پورٹن ڈاؤن 100 برس پہلے پہلی جنگِ عظیم کے دوران جرمنی کے گیس کے حملوں کے جواب میں بنایا گیا تھا۔ برطانوی فوجیوں کے خلاف ایسا پہلا حملہ کلورین گیس سے کیا گیا تھا۔ ہزاروں فوجیوں کو یہ پتہ ہی نہیں تھا کہ یہ کیا ہے۔ ان کے جسم جل گئے اور بہت سوں نے تو اسی تکلیف میں جان دی۔ اس کے فوراً بعد مسٹرڈ گیس اور فوسجین بھی استعمال کی جانے لگی۔
اس وقت کے وزیرِ جنگ لارڈ کچنر نے اس پر فوری ردِ عمل کا مطالبہ کیا۔ اور اس طرح پورٹن ڈاؤن قیام میں آیا۔ وہاں سائنس دانوں نے فوری طور پر گیس ماسک بنائے اور جرمن فوجیوں کے خلاف اسی قسم کے گیس کے حملوں کے طریقوں پر تحقیق شروع کر دی۔ اس ادلے کا بدلہ کی لڑائی میں دسیوں ہزار فوجیوں اور عام شہریوں کی جانیں گئیں۔ یہی وجہ ہے کہ پہلی جنگِ عظیم کو کبھی کبھی ’کیمیا دانوں کی جنگ‘ کہا جاتا ہے۔
اس کے خوفناک نتائج سامنے آنے پر دنیا کے اہم ممالک نے 1925 میں جینیوا پروٹوکول پر دستخط کیے جس کے تحت کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر پابندی لگا دی گئی۔ لیکن حیرت انگیز طور پر ان کی پیداوار پابندی میں نہیں آتی۔
آنسو گیس
1950 کی دہائی میں سرد جنگ کے دوران پورٹن ڈاؤن نے دو انوکھے کیمیکل ایجنٹ بنائے، ان میں سے پہلے کو آج تک انسانوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا ویسے تو نام سی ایس ہے جو کہ اسے دریافت کرنے والے کے نام کا مخفف ہے لیکن حروفِ عام میں اسے آنسو گیس کہا جاتا ہے۔

واپس کریں