دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
وزیر اعظم عمران خان پہ عدم اعتماد اور نئی حکومت کو درپیش چیلنجز۔(' کشیر ' رپورٹ)
No image اسلام آباد ۔یکم اپریل2022( کشیر رپورٹ) اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد ( پی ڈی ایم) کی تحریک پہ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کا خاتمہ یقینی دکھائی دے رہا ہے اور 3اپریل کو پارلیمنٹ میں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پہ ووٹنگ ہو گی۔حکمران ' پی ٹی آئی' اپنے اکثر اتحادیوں کی حمایت سے محروم ہو چکی ہے اور بڑی تعداد میں ' پی ٹی آئی' کے ارکان اسمبلی بھی اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کی حمایت کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان کی حکومت نے انتظامی، معاشی اور خارجہ امور کے حوالے سے ملک میں انتشار اور تباہی کاعمل شروع کیا جس سے پاکستان ہر سطح پہ کمزور ہوا۔ معاشی بدحالی کی وجہ سے ملک میں مہنگائی کا قابو میں نہ آنے والا طوفان شروع ہوگیا جس سے ملک میں معاشی سرگرمیوں کا پہیہ رک گیا اور عوام کو شدید مشکلات اور مصائب کا سامنا ہے۔بالخصوص اشیائے خورد ونوش، بجلی، گیس ،پیٹرول کی قیمتوں میں روزمرہ کے گراں اضافے کے علاوہ ڈالر کی قیمت تقریبا184روپے ہو گئی ہے۔عمران خان حکومت نے انڈیا کی مودی حکومت کی طرح اس طرح کے ظالمانہ قوانین بنانے پر خاص توجہ دی جس سے ملک میں غیر جمہوری اور غاصبانہ طرز حاکمیت کو مضبوط بنانے کی صورتحال ملک و عوام کو درپیش ہے۔
اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد نے اتفاق رائے سے مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کو نئی حکومت کے وزیر اعظم کے طور پر سامنے لایا ہے۔عمران خان حکومت کے خاتمے کے بعد نئی حکومت کو کئی سنگین چیلنجز کا سامنا ہے جس میں سب سے اہم ملک میں پارلیمنٹ کی بالادستی کو یقینی بنانا ہے جو اس وقت ایک ربڑ سٹیمپ کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔نئی حکومت کی ذمہ داری ہو گی کہ پاکستان میں رائج خفیہ ایجنڈے کی صورتحال تبدیل کی جائے جو ملک پہ خفیہ انداز میں مسلط کئے گئے ہیں۔دہشت گردی کا خاتمہ اور مذہبی جنونیت کی حوصلہ شکنی بھی اہم ترین امور میں شامل ہے۔
نئی حکومت کے سامنے بلوچستان کے سنگین مسئلے کے علاوہ قبائلی علاقہ جات کے عوام کی تشویش کا مخاطب کرنا بھی اہم ہے۔کشمیر کے مسئلے پہ انڈیا کے سامنے پسپائی اور لاتعلقی کی صورتحال کی تبدیلی بھی نئی حکومت کو دپیش چیلنجز میں نمایاں حیثیت کا حامل معاملہ ہے۔مسلم لیگ(ن) منیجمنٹ کے حوالے سے اچھا ریکارڈ رکھتی ہے اور توقع کی جاتی ہے کہ نئی حکومت ملک کو درپیش سنگین ترین معاشی مسائل میں بہتری کی راہ اختیار کرتے ہوئے مہنگائی کے ہاتھوں عاجز عوام کی بے بسی کی صورتحال میں بھی بہتری لانے کے اقدامات کرے گی۔
ان تمام امور کے حوالے سے نئی حکومت کو فرنٹ فٹ پہ کھیلنا ہو گا کیونکہ ماضی میں یہ دیکھا گیا ہے کہ ملک میں ان جماعتوں کی طرف سے ایک سرکاری محکمے کے دبائو میں آ کر فیصلے کئے جاتے رہے ہیں، اب اس صورتحال کو قطعی طور پر تبدیل کرنا نئی حکومت کی اہم ذمہ داری ہے۔ اگر نئی حکومت درپیش ان چیلنجز میں پیش رفت نہ کر سکی تو اس سے عوام کا اعتماد مروجہ سیاسی نظام سے اٹھ جانے کے خطرات بھی موجود ہیں۔

واپس کریں