دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سپریم کورٹ نے وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد رکوانے کے ماورائے آئین اقدامات پر دوسری دن کی سماعت کل ،تیسرے دن تک ملتوی کر دی
No image اسلام آباد ۔4اپریل2022۔ سپریم کورٹ نے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر قومی اسمبلی میں ووٹنگ روکنے کے لئے ماورائے آئین اقدامات کی دوسرے دن دوسری سماعت کے بعد سپریم کورٹ کے کارجر بنچ کی سماعت کل تک ملتوی کر دی ہے۔ملک میں جاری سنگین آئینی بحران اور عوام میں پایا جانے والا شدیداضطراب ختم نہ ہو سکا، اس صورتحال میں اس بات کے امکانات کم سے کم ہورہے ہیں کہ حکومت کے ماورائے آئین اقدامات کو ختم کیا جا سکے گا ۔

وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتمادپر ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے معاملے پر سپریم کورٹ کا پانچ رکنی لارجر بینچ جسٹس عمر عطا بندیال کی زیر سربراہی ازخود نوٹس کی سماعت کی۔بینچ کے دیگر ججز میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل ہیں۔

گزشتہ روز قومی اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی جانب سے اپوزیشن کی وزیراعظم کے خلاف پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد بغیر ووٹنگ مسترد کیے جانے کے بعد پیدا ہونے والی سیاسی صورت حال پر چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے ازخود نوٹس لیا تھا۔چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل تین رکنی بینج نے ازخود نوٹس کی سماعت کرتے ہوئے اپنے مختصر فیصلے میں کہا تھا کہ کوئی بھی ریاستی عہدیدار غیر آئینی اقدام نہیں اٹھائے گا، تمام سیاسی جماعتیں پرامن رہیں،کوئی بھی عہدیدار غیر آئینی اقدام سے باز رہے۔

پیر کو دوپہر تقریبا ڈیڑھ بجے سماعت شروع ہوئی تو پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان روسٹرم پر پہنچے اور کہا کہ عدالت کے 21 مارچ کے حکم کی جانب توجہ مبذول کرونا چاہتا ہوں، 21 مارچ کو سپریم کورٹ بار کی درخواست پر دو رکنی بینچ نے حکمنامہ جاری کیا تھا، کل پارٹی کی ہدایات نہیں لی تھی۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم پہلے درخواست گزاروں کو سننا چاہتے ہیں اور اگر آپ کوئی بیان دینا چاہتے ہیں تو دے دیں۔بابر اعوان نے کہا کہ سپریم کورٹ کے 21 مارچ 2022 کے فیصلے کا حوالہ دینا چاہتا ہوں، اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کو یقین دہانی کرائی تھی، کسی رکن اسمبلی کو آنے سے نہیں روکا جائے گا۔چیف جسٹس نے کہا کہ آج ہم مناسب فیصلہ دیں گے اور سیاسی بیانات نہیں بلکہ صرف اسپیکر کی رولنگ کا جائزہ لیں گے۔بابراعوان نے کہا کہ ہم رولنگ سمیت ایک رٹ پیش کرنے کے لیے تیار ہیں اور چیئرمین عمران خان کا پیغام ہے کہ ہم الیکشن میں جانے کے لیے تیار ہیں۔س پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے سامنے سیاسی باتیں نہ کریں، ہم دیکھیں گے اسپیکر کی رولنگ کی کیا قانونی حیثیت ہے۔نعیم بخاری نے کہا کہ میں سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کی طرف سے پیش ہوا ہوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آج ہم مناسب حکمنامہ جاری کریں گے اور قومی اسمبلی کی کارروائی کا جائزہ لیں گے۔فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ عدالت پر بوجھ نہیں بننا چاہتے لہذا باقی وکلا میری معاونت کریں گے ۔اس موقع پر فاروق ایچ نائیک نے فل کورٹ بینچ تشکیل دینے کی استدعا کی جسے عدالت نے مسترد کردیا۔دوران سماعت مسلم لیگ(ن) پاکستان پیپلز پارٹی اورجمعیت علمائے اسلام (ف)کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ سپریم کورٹ کے 21 مارچ 2022 کے فیصلے کا حوالہ دینا چاہتا ہوں، اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کو یقین دہانی کرائی تھی، کسی رکن اسمبلی کو آنے سے نہیں روکا جائے گا۔چیف جسٹس نے کہا کہ آج ہم مناسب فیصلہ دیں گے اور سیاسی بیانات نہیں بلکہ صرف اسپیکر کی رولنگ کا جائزہ لیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ فل کورٹ بینچ کی تشکیل سے دیگر مقدمات کی سماعت میں خلل پڑتا ہے۔فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد جمع کرانے کے لیے الزام عائد کرنا لازم نہیں، عدم اعتماد کی تحریک جمع ہونے کے بعد آرڈر پیش ہونا چاہیے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 10 مارچ کی تاریخ پر آرڈر پیش کرنے کا معاملہ غیر متعلقہ ہے۔
گزشتہ روز قومی اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی جانب سے اپوزیشن کی وزیراعظم کے خلاف پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد بغیر ووٹنگ مسترد کیے جانے کے بعد پیدا ہونے والی سیاسی صورت حال پر چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے ازخود نوٹس لیا تھا۔چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل تین رکنی بینج نے ازخود نوٹس کی سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیے تھیکہ وزیراعظم اور صدر کے تمام احکامات سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے سے مشروط ہوں گے۔
عدالت نے سیکریٹری دفاع کو ملک میں امن وامان سے متعلق اقدامات پر آگاہ کرنیکا نوٹس جاری کیا تھا جبکہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ معطل کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو بھی نوٹس جاری کردیا تھا۔چیف جسٹس نے کہا تھاکہ رمضان شریف ہے، سماعت کو لٹکانا نہیں چاہتے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کوئی حکومتی ادارہ غیر آئینی حرکت نہیں کرے گا، تمام سیاسی جماعتیں اور حکومتی ادارے اس صورت حال سے فائدہ نہیں اٹھائیں گے۔سماعت کے دوران چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ از خود نوٹس میں صدر مملکت کو پارٹی بنا دیتے ہیں، کل 63-اے صدارتی ریفرنس کی مختصر سماعت کے بعد سماعت کریں گے کیونکہ یہ انتہائی اہم معاملہ ہے۔بعد ازاں سپریم کورٹ نے سیاسی صورت حال پر لیے گئے نوٹس پرسماعت کے لیے 5 رکنی نیا لارجر بینج بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔

واپس کریں