دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ملک میں جاری سنگین آئینی بحران پر سپریم کورٹ کی از خود نوٹس پہ تیسرے دن تیسری سماعت
No image اسلام آباد۔5اپریل۔سپریم کورٹ آف پاکستان میں ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ اور ملک میں جاری سنگین آئینی بحران پر از خود نوٹس کی تیسری سماعت میں منگل کو سینیٹر رضا ربانی نے عدالت سے 31 مارچ کے اجلاس کے منٹس منگوانے کی درخواست کر دی۔چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے سینیٹر رضا ربانی کی درخواست پر 31 مارچ کے اجلاس کے منٹس منگوا لیے۔ سپریم کورٹ نے منگل کو مسلسل تیسرے دن تیسری سماعت کے بعد سماعت کل( بدھ) تک ملتوی کر دی۔
رضا ربانی نے کہا کہ یہ سویلین کو ہے، مبینہ کیبل کے ذریعے ایک بیانیہ بنایا گیا جو بدنیتی پر مبنی ہے، 25 مارچ کا سیشن تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے لیے مختص ہونے کے باوجود ملتوی کیا گیا، 28 مارچ کو تحریکِ عدم اعتماد کی منظوری ہوئی مگر کارروائی ملتوی کر دی گئی۔انہوں نے کہا کہ کیا وزیرِ اعظم جن کو اکثریت کا اعتماد حاصل نہیں وہ اسمبلی تحلیل کر سکتے ہیں؟ ووٹنگ کے لیے مختص دن پر اسپیکر کی رولنگ صریحا بد دیانتی ہے۔
رضا ربانی نے کہا کہ چاہتے ہیں کہ آج دلائل مکمل ہوں اور عدالت مختصر حکم نامہ جاری کر دے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اگر سارے فریقین دلائل مکمل کر لیں تو حکم جاری کریں گے۔رضا ربانی نے کہا کہ میں عدالت کو تحریری دلائل دے رہا ہوں، 15 منٹ میں دلائل مکمل کر لوں گا، الیکشن کمیشن کا آج آنے والا بیان بہت اہم ہے، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ بد نیتی پر مبنی ہے، عدم اعتماد جمع کرانے کے بعد سے 9 بار بدنیتی پر مبنی اقدامات کیے گئے۔انہوں نے کہا کہ تحریکِ عدم اعتماد 8 مارچ سے زیرِ التوا تھی، ڈپٹی اسپیکر نے پارلیمنٹ کے سامنے دستاویزات رکھے بغیر رولنگ دے دی، قومی اسمبلی کے رولز 28 کے تحت ڈپٹی اسپیکر کے پاس اختیارات ہوں تب بھی وہ رولنگ نہیں دے سکتا، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ غیر قانونی ہے، تحریکِ عدم اعتماد ووٹنگ کے بغیر مسترد نہیں کی جا سکتی، اگر یہ تسلیم کر لیا جائے تو عدم اعتماد کی تحریک کا آرٹیکل 95 بے کار ہو جائے گا۔چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ اسپیکر کے وکیل نعیم بخاری اجلاس کے منٹس پیش کریں۔
میاں رضا ربانی نے اپنے دلائل میں کہا کہ عدم اعتماد آنے کے بعد اسپیکر کے پاس ماسوائے ووٹنگ کے تحریک مسترد کرنے کا اختیار نہیں، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ آرٹیکل 69 کا تحفظ نہیں رکھتی، ڈپٹی اسپیکر کی آرٹیکل 5 کو بنیاد بنا کر رولنگ خلافِ آئین ہے، آئین کے مطابق تحریکِ عدم اعتماد پر دی گئی، مدت میں ووٹنگ ہونا لازمی ہے۔رضا ربانی نے کہا کہ صدرِ مملکت کو آرٹیکل 63 اے پر ریفرنس دائر کرنے کی ضرورت نہیں تھی، صدر کو صورتِ حال دیکھتے ہوئے وزیرِ اعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہنا چاہیے تھا، وزیرِ اعظم عدم اعتماد کی تحریک کے دوران اسمبلی نہیں توڑ سکتے، تحریکِ عدم اعتماد کو آئین کے تحت مسترد نہیں کیا جا سکتا، تحریکِ عدم اعتماد صرف تب ختم ہو سکتی ہے جب جمع کرانے والے اسے واپس لے لیں۔25 مارچ کے بعد قومی اسمبلی کے جو بھی اجلاس ہوئے اپوزیشن اکثریت میں تھی، ڈپٹی اسپیکر نے آرٹیکل 95 کو سبوتاژ کیا، عدالت نیشنل سیکیورٹی کونسل میٹنگ کے منٹس اور کیبل طلب کرنے کا حکم دے۔انہوں نے کہا کہ عدالت ایوان کے اندر کی کارروائی نہیں، اسپیکر کے اختیارات سے تجاوز کو دیکھے، عدالت دیکھے کہ کیا اسپیکر آرٹیکل 5 کا اطلاق کر سکتا ہے؟ وزیرِ اعظم اسمبلیاں تحلیل نہیں کر سکتے، جوڈیشل کمیشن بنا کر اسمبلی کی کارروائی پر تحقیقات کرائی جائے، عدالت 3 اپریل کی کارروائی پر حکمِ امتناع جاری کرے۔سینیٹر رضا ربانی نے جوڈیشل کمیشن بنانے اور 3 اپریل کی اسمبلی کارروائی پر اسٹے دینے کی استدعا کرتے ہوئے اپنے دلائل مکمل کر لیے۔
ن لیگ کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے استدعا کی کہ عدالت اسپیکر کی رولنگ کو کالعدم قرار دے کر اسمبلیاں بحال کرے۔مخدوم علی خان نے پارلیمنٹ کی کارروائی پڑھ کر سنا دی اور کہا کہ 28 مارچ کو پارلیمنٹ کے 161 ارکان تحریکِ عدم اعتماد کے حق میں کھڑے ہوئے، شہباز شریف کو تحریکِ عدم اعتماد پیش کرنے کی اجازت دی گئی، تحریکِ عدم اعتماد پر مزید کارروائی 31 مارچ تک ملتوی کر دی گئی، رولز 37 کے تحت 31 مارچ کو عدم اعتماد پر بحث ہونی تھی، 31 مارچ کو قرار داد پر ڈسکشن نہیں کرائی گئی، 3 اپریل کو عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونی تھی،تاہم فواد چوہدری نے پیپر پڑھ کر سنایا جس کے بعد تحریکِ عدم اعتماد کو مسترد کر دیا گیا۔انہوں نے کہا کہ کیا ڈپٹی اسپیکر کے پاس اختیار تھا کہ عدم اعتماد کی قرار داد اس طرح مسترد کرے؟ وزیرِ اعظم اکثریت کھو دیں تو یہ پارلیمانی جمہوریت کے خلاف ہے کہ وہ وزیر ِاعظم رہیں، 3 اپریل کو جو ہوا پوری قوم نے دیکھا، سارا مقدمہ یہ ہے کہ کیا ڈپٹی اسپیکر ایسی رولنگ دے سکتے تھے؟ یہ مقدمہ عوامی اہمیت کا حامل ہے، وزیرِ اعظم پارلیمان میں اکثریت کھو بیٹھے تھے، تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ تک اسمبلی کا اجلاس ملتوی نہیں ہو سکتا تھا۔مخدوم علی خان نے کہا کہ کارروائی سے دو اہم باتیں سامنے آتی ہیں، عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے سے متعلق 161 اراکین کے ووٹ آئے، ایوان نے تحریکِ عدم اعتماد پیش کرنے کے حق پر اکثریتی ووٹ دیا، اسپیکر نے عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کی اجازت دی، 3 اپریل کو وفاقی وزیر کو وقت دیا، پھر ڈپٹی اسپیکر نے تحریک مسترد کر دی۔انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 95 پارلیمانی جمہوریت کا دل ہے، اس سے انحراف پارلیمانی جمہوریت سے انحراف ہے، ایوان کی اکثریت کے اعتماد کے بغیر وزیرِ اعظم کا جاری رہنا خلافِ جمہوریت ہے، اسپیکر کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد آنے کے بعد اجلاس ملتوی نہیں کیا جا سکتا تھا، تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ کا طریقہ کار آرٹیکل 95 میں دیا گیا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ اسپیکر کے اختیارات سے متعلق آرٹیکل 69 میں قومی اسمبلی کے رولز آتے ہیں یا نہیں؟ مخدوم علی خان نے بتایا کہ آئین کہتا ہے کہ تحریکِ عدم اعتماد عددی برتری سے منظور ہو گی، اسپیکر عدم اعتماد پر ووٹنگ نہیں روک سکتا، بلوچستان اسمبلی 1999 میں عدالتی حکم سے دوبارہ بحال ہوئی، آئینی تشریح کا معاملہ ہو تو آرٹیکل 69 آڑے نہیں آتا، ایک بار تحریکِ عدم اعتماد پیش ہو گئی تو اگلا مرحلہ اس پر ووٹنگ ہے، ووٹنگ نہ کرانا پروسیجرل بے ضابطگی نہیں بلکہ آئینی خلاف ورزی ہے، قومی اسمبلی کے رولز ایوان کا طریقہ کار چلانے سے متعلق ہیں، کوئی ایسا رول نہیں کہ آرٹیکل 95 میں دیے گئے طریقہ کار سے تجاوز کرے، واضح ہے کہ رولز آئین کی شقوں سے تجاوز کر کے نہیں بنائے گئے۔جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کیا آرٹیکل 91 اور 95 میں بے ضابطگی پر اسپیکر کو تحفظ حاصل ہے؟ مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ ڈپٹی اسپیکر کو تحریکِ عدم اعتماد مسترد کرنے کا اختیار نہیں، اسمبلی رولز آئین کے آرٹیکل 95 سے بالاتر نہیں ہو سکتے، ڈپٹی اسپیکر آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔

واپس کریں