دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پاکستان میں سنگین آئینی بحران پر انڈیا میں ردعمل، برطانوی سرکاری نشریاتی ادارے' بی بی سی' کی رپورٹ
No image نئی دہلی ( بی بی سی رپورٹ)برطانیہ کے سرکاری نشریاتی ادارے ' بی بی سی'نے پاکستان میں آئین بحران کی سنگین صورتحال کے حوالے سے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ عمران خان ان چند پاکستانی رہنمائوں میں شمار ہوتے ہیں جنھیں انڈیا میں عمومی طور پر مقبولیت حاصل ہے یا کم از کم انھیں انڈیا سے رشتوں کے معاملے میں اتنا سخت گیر نہیں سمجھا جاتا تھا جتنا دوسرے پاکستانی رہنمائوں کو۔ انڈیا میں کہیں نہ کہیں یہ احساس ہے کہ اب دوڑ میں پاکستان کہیں بہت پیچھے چھوٹ چکا ہے، سفارتکاری، سیاست، سٹریٹیجی اور اکانومی یہ چار چیزیں ہیں جس سے کسی ملک کے گراف کا پتہ چلتا ہے، اس میں انڈیا بہت آگے ہے۔ یہ انڈیاکی حکمت عملی کا حصہ ہے کہ کوئی بھی ملک داخلی سطح پر جتنا عدم استحکام کا شکار ہوگا، کمزور ہوگا انھیں حکومت پر دبا ڈالنے میں اتنی ہی آسانی ہوگی۔کہا جاتا ہے کہ انھیں فوج کی سرپرستی حاصل رہی ہے۔ ایسے میں کسی سیویلین حکومت کا اپنا فیصلہ کرنا بہت مشکل سمجھا جاتا ہے۔ اور فوج کبھی انڈیا پاکستان کے رشتے کو بہتر کرنا نہیں چاہے گی۔ انڈیا کی جانب سے سرد مہری کی وجہ حکومت پر فوج کا اثر و رسوخ ہے۔

' بی بی سی' کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی تیزی سے بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال انڈیا میں بھی خبروں اور بحث و مباحثوں کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ انڈیا کے بیشتر چینلوں پر بیٹھے تجزیہ کار یہ توقع کر رہے تھے کہ عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کی صورت میں عمران خان کی حکومت گر جائے گی اور اپوزیشن جماعتیں نئی حکومت بنائیں گی۔انڈیا میں پاکستان کی سیاسی صورتحال کی لمحہ بہ لمحہ خبر ٹیلیویژن چینلوں پر دکھائی جا رہی ہے۔عدم اعتماد کی تحریک مسترد ہونے اور قومی اسمبلی تحلیل کیے جانے کی خبر ملک کے سبھی چیلنوں اور اخبارات کی شہ سرخی تھی۔پیر کو پاکستان کی سپریم کورٹ میں اس معاملے کی سماعت شروع ہوتے ہی سبھی چینلوں نے اسلام آباد سے موصول ہونے والی خبریں نشر کرنی شروع کر دی تھیں۔

عمران خان ان چند پاکستانی رہنمائوں میں شمار ہوتے ہیں جنھیں انڈیا میں عمومی طور پر مقبولیت حاصل ہے یا کم از کم انھیں انڈیا سے رشتوں کے معاملے میں اتنا سخت گیر نہیں سمجھا جاتا تھا جتنا دوسرے پاکستانی رہنمائوں کو۔ لیکن ان کے وزیر اعظم بننے کے بعد انڈیا کا رویہ ان کے تئیں کافی حد تک سرد مہری کا رہا ہے۔انڈیا اور پاکستان کے رشتے عمران خان کی وزارتِ عظمی کی مدت میں مکمل سرد مہری کا شکار رہے۔ یہاں مختلف چینلوں اور تجزیہ کاروں کے تبصروں سے ایسا لگ رہا تھا کہ انھیں عمران خان کی جگہ اپوزیشن کی حکومت قائم ہونے کے امکانات سے خوشی ہوگی۔لیکن جب عمران خان نے قومی اسمبلی تحلیل کر کے انتخابات کا اعلان کر دیا تو یہاں کے بعض حلقوں میں مایوسی چھا گئی اور ان حلقوں میں اب بھی یہ امید کی جا رہی ہے کہ شاید سپریم کورٹ عمران خان کے فیصلے کو مسترد کر دے اور عدم اعتماد کی ووٹنگ کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کا حکم دے۔ اور اس طرح اپوزیشن کی حکومت قائم ہونے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔
انڈیا میں مایوسی سے متعلق پاکستان کے وزیر داخلہ شیخ رشید نے بھی بات کی جسے انڈیا کے ایک ہندی اخبار نے بھی شائع کیا ہے۔ ہندی اخبار کے مطابق قومی اسمبلی کے تحلیل کیے جانے پر شیخ رشید نے کہا: خاص طور سے انڈیا میں ماتم چھایا ہوا ہے۔ انڈیا کے 72 چینل اس فیصلے کے بعد ماتم کر رہے ہیں۔ اس فیصلے کے بعد سب سے زیادہ مایوسی انڈیا میں آئی ہے۔کیا شیخ رشید کی بات درست ہے؟اس سوال کے جواب میں معروف ہندی نیوز ویب سائٹ لوک مت کے ایڈیٹر رنگناتھ سنگھ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی صورت حال انڈین ایلکٹرانک میڈیا کے لیے کسی تھرِلر سے کم نہیں جبکہ پرنٹ میڈیا کے لیے ہمارے حساس پڑوس میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔بظاہر ایسا نظر آ رہا ہے کہ عمران خان پاکستان کو سیاسی عدم استحکام کی جانب لے جا رہے ہیں جو کہ انڈیا کے حق میں نہیں ہے کیونکہ وہاں سے ایسے غیر سرکاری عناصر سر ابھارتے ہیں جو کہ انڈیا کے خلاف کام کرتے ہیں۔انھوں نے مزید کہا کہ عمران خان کی جانب سے تھیوکریٹک پاکستان کے آئیڈیا کے ساتھ طویل اور مسلسل چھیڑ چھاڑ کی تاریخ رہی ہے اور کشمیر کے نام نہاد کاز کے ساتھ ان کا جنون بھی انڈیا کے لیے پریشانی کا باعث رہا ہے۔
اس کے برعکس جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اسلامی ممالک پر گہری نظر رکھنے والے پروفیسر محمد سہراب نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ابھی جو عمران خان کی قیادت والی حکومت ہے یا تھی، اسے فرانسیسی کے ایک لفظ سے سمجھا جا سکتا ہے۔ وہ لفظ بیٹینوا ہے یعنی آج جو ممالک کی اکثریت ہے، لوگ ہیں، پاپولر میڈیا ہے، انٹیلیجنسیا ہے وہ ان کے لیے قابل قبول نہیں ہے، اس سے بچنا چاہیے یعنی اس سے نفرت کرنی چاہیے۔وہ کہتے ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عمران خان نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اس کی فارن پالیسی ہو یا داخلہ پالیسی ہو، دونوں میں اس نے خود مختاری اور قومی مفادات کے عناصر کو داخل کیا ہے۔ اور یہ کسی نہ کسی طرح پاکستان کے اندر اکنامک اور فیوڈل مافیا کو پسند نہیں کیونکہ حکومت کی انھیں سپورٹ نہیں ہے یا حکومت کی پالیسی سے انھیں فائدہ نہیں پہنچ رہا ہے۔ اسی لیے وہ بس بدظن ہیں۔انھوں نے کہا کہ پاکستان کے شہریوں کی اپنی پسند ناپسند ہو سکتی ہے لیکن اگر وہاں کی صورت حال پر نظر ڈالی جائے تو وہاں کی حزب اختلاف عام زبان میں کسی گڑھ کی طرح ہے جس میں مولانا فضل لرحمان جیسے لوگ شامل ہیں جو خود کے بارے میں مسلمانوں کا رہنما ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی داخلی صورت حال زیادہ خراب ہے بنسبت اس کی خارجی صورت حال کے، جہاں وہ بظاہر اپنے روایتی موقف سے دور ہو رہا ہے اور روس اور چین کے قریب ہو رہا ہے۔
اسی بابت انڈین تھنک ٹینک انڈین کانسل آف ورلڈ افیئرز میں سینیئر فیلو فضل الرحمان کہتے ہیں کہ جہاں تک شیخ رشید کا کہنا ہے کہ انڈین میڈیا میں ماتم چھایا ہوا ہے تو یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ انڈین میڈیا میں اس پر بحث و مباحثے ہو رہے ہیں۔ اور جس طرح سے گذشتہ 20-30 سال کے دوران انڈیا پاکستان کے رشتے رہے ہیں اس میں پاکستان میں کوئی بھی چیز ہو اس میں انڈین میڈیا کی بہت دلچسپی ہوتی ہے۔ اس کے الٹ بھی بات درست ہے۔انھوں نے کہا کہ میڈیا اپنے ایجنڈے کے تحت وہاں کی صورت حال کو پیش کرتا ہے تاکہ اپنے ناظرین پر یہ واضح کر سکے کہ وہ پڑوس کے حالات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے لیکن اس کے حکومت یا اسٹیبلشمنٹ پر کیا اثرات ہوتے ہیں یہ بہت بڑا سوال ہے۔انھوں نے کہا کہ پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے، عمران خان کی حکومت کے حوالے سے یا نواز شریف کے حوالے سے یا موجودہ بحران کے حوالے سے اس پر حکومت ہند کی تو اپنی نظر ہو سکتی ہے لیکن میڈیا جو کچھ پیش کررہا ہے یا جو باور کرانا چاہتا ہے اس سے یہاں کے عوام کو کوئی سروکار نہیں ہے۔انھوں نے کہا کہ جب سے عمران خان آئے ہیں اس وقت سے انڈیا پاکستان میں کوئی گفتگو نہیں ہوئی ہے۔ انڈیا میں کہیں نہ کہیں یہ احساس ہے کہ اب دوڑ میں پاکستان کہیں بہت پیچھے چھوٹ چکا ہے۔ سفارتکاری، سیاست، سٹریٹیجی اور اکانومی یہ چار چیزیں ہیں جس سے کسی ملک کے گراف کا پتہ چلتا ہے، اس میں انڈیا بہت آگے ہے۔

لیکن پاکستان میں رہ کر انڈین میڈیا کے لیے ایک زمانے تک صحافت کرنے والے سینیئر صحافی امت بروا کا کہنا ہے کہ انڈیا میں پاکستان کے متعلق سمجھ کی کمی ہے۔انھوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان بالکل تعطل ہے۔ عمران خان کے آنے کے بعد سے اگرچہ سربراہان کے درمیان بات نہیں ہوئی ہے لیکن بات بیک چینلز سے ہو رہی ہے۔ اور اس کی مثال ایل او سی پر بلا اشتعال فائرنگ کا رکنا ہے۔پروفیسر سہراب نے کہا کہ عمران خان نے جس طرح انڈیا کی خارجہ پالیسی کی تعریف کی ہے اسے انڈین میڈیا نے اس طرح پیش نہیں کیا جس طرح اسے پیش کرنا چاہیے تھا۔انھوں نے کہا بدقسمتی سے عمران خان نے جس طرح انڈیا کی خارجہ پالیسی کی تعریف کی اسے ہمارا میڈیا خود مثبت انداز میں پیش نہیں کر پایا۔ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اس کے پس پشت کون سی ذہنیت ہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ جس طرح ہمارے ایک پہلو پر ہمارا روایتی حریف ہمارے حق میں بول رہا ہے کم سے کم اسے ہمارے یہاں ہماری انٹیلیجنسیا، ہمارے میڈیا میں بہتر مقام دینا چاہیے تھا۔

پروفیسر سہراب نے اس پس منظر میں کہا کہ امریکہ اور امریکہ کے حلیف، چاہے وہ دنیا کے کسی خطے سے تعلق رکھتے ہیں، وہ صرف پاکستان کے اندر ہی حکومت کی تبدیلی کی بات نہیں کر رہے ہیں۔ ان کا واضح طور پر منصوبہ ہے، ترکی میں حکومت تبدیل کرنا، جہاں کہیں بھی مسلمان (حکمراں) کی پالیسی سے انھیں اتفاق نہیں ہے وہاں کے حکمران کو بدلنا۔ یہ پالیسی بائیڈن حکومت کی نہیں ہے بلکہ یہ وار آن ٹیرر اور وار آن اسلامک ٹیرر کی سکرپٹ لکھی گئی ہے، اس سکرپٹ کے اندر ہی یہ بہت واضح طور پر ہے کہ، اس کے دو پہلو ہیں، ایک عسکری پہلو ہے جہاں لڑائی ہو رہی ہے اور ہوگی اور دوسرا مسلم ممالک اور مسلم معاشرے میں ہر طرح کے فتنے اور ہر طرح کی مزاحمت کو فروغ دینا ہے۔ ایک طرح کی سول وار (خانہ جنگی) کی فضا پیدا کرنی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ یہ ان کی حکمت عملی کا حصہ ہے کہ کوئی بھی ملک داخلی سطح پر جتنا عدم استحکام کا شکار ہوگا، کمزور ہوگا انھیں حکومت پر دبا ڈالنے میں اتنی ہی آسانی ہوگی۔
اس طرح آپ دیکھیں گے کہ دنیا میں کسی بھی مسلم ممالک میں اگر شورش ہے تو ایسا نہیں کہ وہاں براہ راست بیرونی مداخلت نہیں ہے۔ واضح طور پر ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ 2016 میں جو ترکی میں تختہ الٹنے کی کوشش کی گئی تھی اس کا ریموٹ کنٹرول کہاں تھا۔انھوں نے مزید کہا کہ بدقسمتی یہ ہے کہ ترکی ہو یا کوئی اور مسلم ملک وہاں کے داخلی عناصر خود اس میں شامل ہیں۔ میں کوئی سازشی نظریہ نہیں پیش کر رہا ہوں، بلکہ یہ واضح ہے کہ در پردہ جو عوامل کام کر رہے ہیں وہ بہت طاقتور ہیں اور پاکستان کے تناظر میں بھی یہ درست ہے۔ایسے میں یہ کہوں گہا کہ عمران خان کی جو غلطی ہے وہ یہ ہے کہ اس نے اپنے داخلی اور خارجی پالیسی میں اپنی خودمختاری کے عناصر کو بحال کیا ہے جو کسی کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔یہ کئی برسوں میں پہلا موقع ہے جب انڈیا میں پاکستان کی سیاست کو اتنی اہمیت دی جا رہی ہے۔ سب سے زیادہ دلچسپی ٹی وی چینلوں پر دکھائی دیتی ہے جس پر کئی روایتی تبصرہ کار پاکستان کے موجودہ سیاسی بحران کو پاکستان میں جمہوریت کے فقدان اور سیاست میں فوج کی مداخلت جیسے پہلوں سے منسوب کرتے ہیں۔بہت سے دوسرے تجزیہ کار یہ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہاں کی فضا اچانک عمران خاں کے خلاف کیوں ہو گئی۔ پاکستان کی طرح یہاں بھی یہ قیاس آرائی کی جا رہی ہے کہ اب کیا ہوگا؟

عمران خان ایک کرکٹر اور ایک کپتان کے طور پر تو انڈیا میں بے حد مقبول رہے لیکن وہ ایک سیاستدان کے طور پر انڈیا کو قبول نہیں۔ اس پر بات کرتے ہوئے فضل الرحمان کہتے ہیں کہ جس زمانے میں عمران خان کرکٹ کھیل رہے تھے انڈیا پاکستان کے تعلقات بہتر تھے اور اسی وجہ سے نہ صرف عمران خان بلکہ، جاوید میانداد، وسیم اکرم اور وقار یونس سب یہاں مقبول تھے۔ان کے مطابق آج انڈیا پاکستان اپنے تعلقات کے بدترین دور سے گزر رہا ہے ایسے میں عمران خان بطور وزیر اعظم پسند نہیں اور اس کا دار ومدار پاکستان کی حکومت کا فوج سے قربت پر ہوتا ہے۔ یہاں یہ دیکھنا اہم ہے کہ آیا عمران خان کو فوج کی سرپرستی حاصل ہے تو کہا جاتا ہے کہ انھیں فوج کی سرپرستی حاصل رہی ہے۔ ایسے میں کسی سیویلین حکومت کا اپنا فیصلہ کرنا بہت مشکل سمجھا جاتا ہے۔ اور فوج کبھی انڈیا پاکستان کے رشتے کو بہتر کرنا نہیں چاہے گی۔امت برووا کا بھی یہی کہنا ہے کہ انڈیا کی جانب سے سرد مہری کی وجہ حکومت پر فوج کا اثر و رسوخ ہے۔



واپس کریں