دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
عدالت عظمی کے فیصلے کے بعد اب آگے کیا ہو گا؟ '' بی بی سی رپورٹ''
No image اسلام آباد۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے متفقہ فیصلے دیتے ہوئے ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد کو مسترد کرنے کے اقدام کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اسمبلیاں بحال کرنے اور عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس نو اپریل کو طلب کرنے کا فیصلہ سنایا ہے۔
واضح رہے کہ تین اپریل کو وزیراعظم عمران خان کے خلاف حزب اختلاف کی جانب سے جمع کروائی گئی تحریک عدم اعتماد کو ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی نے بیرونی سازش قرار دیتے ہوئے آئین کے آرٹیکل پانچ کے تحت مسترد کر دیا تھا۔تحریک عدم اعتماد کو آئین کے منافی اور ضوابط کے خلاف قرار دے کر مسترد کیے جانے کے بعد صدرِ پاکستان عارف علوی نے وزیراعظم کی تجویز پر قومی اسمبلی تحلیل کر دی تھی۔ اس عمل کے بعد پیدا ہونے والے آئینی اور قانونی بحران پر پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے اسی روز ازخود نوٹس لیا تھا۔چار روز جاری رہنے والی سماعت کے بعد جمعرات کی شام سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے اس کیس کا فیصلہ سنایا۔
پاکستان میں انتخابات اور پارلیمان پر نظر رکھنے والے ادارے پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ سب سے بڑا فورم ہے اور ازخود نوٹس پر آنے والے فیصلے پر حکومت کی جانب سے اب زیادہ سے زیادہ نظر ثانی کی ایک درخواست دائر ہو سکتی ہے، لیکن اگر ماضی کی نظیروں کو سامنے رکھا جائے تو نظر ثانی کی درخواست میں بھی چیزیں بدلنے کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔مگر اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس فیصلے کے پاکستان کی گورننس اور سیاسی صورتحال پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟
آئینی امور کے ماہر ایڈوکیٹ سلمان اکرم راجہ کے مطابق اگر ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو سپریم کورٹ کی جانب سے درست قرار دے دیا جاتا تو پارلیمان کے اندر مکمل نظام سپیکر کے تابع ہو جاتا، سپیکر ڈکٹیٹر بن جاتا اور پورے پارلیمانی نظام اور پارلیمان کا ہی وجود بے معنی ہو جاتا۔اگر سپیکر کا یہ اختیار مان لیا جاتا کہ وہ ایوان کو ووٹنگ سے روک سکتا ہے تو یہ آئینی حادثہ ہوتا جس سے ہمارا آئینی نظام متزلزل ہو جاتا۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد اب ناصرف وزیراعظم عمران خان بحال ہو جائیں گے بلکہ ان کی کابینہ بھی بحال ہو جائے گی اور پارلیمان میں معاملہ دوبارہ وہیں سے شروع ہو گا جہاں سے یہ متنازع ہوا تھا یعنی وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہو گی۔اگرچہ اس بات کے امکانات بہت کم ہیں لیکن اگر عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہو پاتی تو وہ وزیر اعظم رہیں گے اور یہ عمران خان کا فیصلہ ہو گا کہ کامیابی کے بعد اسمبلی تحلیل کی جائے یا حکومت اپنی رہ جانے والی ڈیڑھ برس کی آئینی مدت پوری کرے۔سلمان اکرم راجہ کے مطابق اگر عدم اعتماد تحریک میں اپوزیشن کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر عمران خان وزیراعظم نہیں رہیں گے اور ایوان ایک نئے وزیراعظم یا قائد ایوان کا انتخاب کرے گا۔ یاد رہے کہ متحدہ اپوزیشن کے وزیر اعظم کے امیدوار پاکستان مسلم لیگ نواز کے صدر شہباز شریف ہیں۔سلمان اکرم راجہ کے مطابق عدم اعتماد میں کامیابی کی صورت میں نیا منتخب ہونے والا کوئی عبوری وزیراعظم نہیں ہو گا بلکہ مکمل اختیارات کے ساتھ بااختیار قائد ایوان ہو گا جو قومی اسمبلی کی بقیہ مدت تک وزیراعظم رہ سکتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ وہ خود اسمبلی تحلیل کر دے اور مشاورت سے جلد انتخابات کا اعلان کر دے۔
واپس کریں