دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پاکستانی حدود میں انڈین میزائل براہموس گرنے پر فلپائن کی انڈیا سے جواب طلبی۔( بی بی سی)
No image لندن( مانیٹرنگ رپورٹ)فلپائن نے انڈیا کی جانب سے پاکستان کے اندر حادثاتی طور میزائل فائر ہونے کے چند روز بعد انڈیا سے جواب طلب کیا ہے۔انڈیا کے معروف انگریزی اخبار دی انڈین ایکسپریس نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ فلپائن نے یہ وضاحت اس لیے طلب کی تھی کیونکہ وہ انڈیا سے براہموس میزائل کی خریداری کے ایک معاہدے پر دستخط کر چکا ہے۔رپورٹ کے مطابق فلپائن کے صدر روڈریگو ڈوٹرٹے کی کابینہ میں سب سے سینیئر وزیر اور سیکریٹری دفاع ڈیلفائن لورینزانا نے انڈین سفیر شمبھو ایس کمارن کو اس سلسلے میں طلب کیا تھا۔انڈین سفیر نے فلپائن کے سیکریٹری دفاع کو بتایا کہ میزائل سسٹم میں کوئی تکنیکی مسئلہ نہیں تھا اور اس سلسلے میں تحقیقات جاری ہیں۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ جب تحقیقات مکمل ہوں گی تو اس کی معلومات بھی فلپائن کے متعلقہ حکام کے ساتھ شیئر کی جائیں گی۔
پاکستان کی سرزمین میں حادثاتی طور پر گرنے والے میزائل کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ یہ براہموس میزائل تھا لیکن ابھی تک اس میزائل کی ساخت پر کوئی سرکاری بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ اور شاید یہی وجہ فلپائن کی پریشانی کی وجہ بھی ہے۔واضح رہے کہ رواں سال 28 جنوری کو فلپائن نے انڈیا کے ساتھ براہموس میزائل کی خریداری کے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جسے انڈیا کے ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن (ڈی آر ڈی او) اور روس کے این پی او میشینوسترونیا ادارے مشترکہ طور پر تیار کر رہے ہیں۔فلپائن کے ساتھ ہونے والا یہ معاہدہ 37 کروڑ 50 لاکھ امریکی ڈالر مالیت کا ہے جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ انڈیا کے لیے ایک بڑا دفاعی سودا ہے۔منگل کو اننتھا سینٹر میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انڈین سفیر شمبھو ایس کمارن نے کہا کہ میں اسے تشویش نہیں بلکہ ایک تجسس کہوں گا۔ میں نے فلپائن کے سیکریٹری دفاع سے بات چیت کی اور انھیں تفصیل سے بتایا کہ کوئی تکنیکی خرابی نہیں ہے اور اس سلسلے میں تحقیقات جاری ہیں۔
یاد رہے کہ پاکستان میں انڈین میزائل گرنے کے واقعے کے ایک دن بعد یعنی دس مارچ کو پاکستانی فوج نے کہا تھا کہ ایک غیر مسلح انڈین سپرسونک میزائل انڈین سرزمین سے اڑا اور وہ پاکستان میں میاں چنوں کے مقام پر گرا۔ یہ جگہ پاکستان میں انڈین سرحد سے 124 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔11 مارچ کو انڈین وزارت دفاع کی جانب سے کہا گیا کہ پاکستان کی حدود میں گرنے والا میزائل حادثاتی طور پر انڈیا سے فائر ہوا تھا جس کی اعلی سطح پر تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے۔
انڈیا کے ایک دوسرے موقر اخبار دی ہندو میں شائع رپورٹ کے مطابق انڈین سفیر مسٹر کمارن نے اننتھا سینٹر کے زیر اہتمام فلپائن: انڈیاز نیو انڈو-پیسفک پارٹنر کے عنوان کے تحت منعقدہ ایک تقریب میں کہا کہ مجھے فلپائن کے وزیر دفاع ڈیلفن لورینزانا سے بات کرنے کا موقع ملا اور ہماری وزارت دفاع نے اس بابت وضاحت کر رکھی ہے۔ ایک استفسار کیا گیا تھا اور ہم نے اس کا اس حقیقت کے ساتھ جواب دیا کہ جہاں تک ہم سمجھتے ہیں وہ کوئی تکنیکی مسئلہ نہیں تھا۔ اس کے متعلق ایک انکوائری جاری ہے، معلومات دستیاب ہونے کے بعد ہم اسے واضح کر دیں گے۔اس دوران انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس میزائل نظام پر انڈیا کو یقینی طور پر پورا اعتماد ہے، اسی وجہ سے انڈیا اس نظام کو بڑے پیمانے پر استعمال کرتا ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ فلپائن کے ساتھ ابتدائی معاہدہ گذشتہ سال مارچ میں ہوا تھا، دوسرا معاہدہ نومبر میں اور حتمی معاہدہ رواں سال جنوری میں ہوا ہے۔ان کے مطابق یہ میزائل انڈین ڈیفنس فورسز میں ایک فرنٹ لائن سسٹم ہے اور اس کے متعلق جو حقیقت سامنے آئے گی ہم اسے شیئر کرنے کے خواہاں ہیں۔مارچ 23 کو انڈین خبر رساں ادارے اے این آئی کی ایک رپورٹ میں سرکاری ذرائع سے بتایا گیا ہے کہ ایئر فورس افسر (فوج میں میجر جنرل کے عہدے کے مساوی)ابھی بھی تحقیق کر رہے ہیں اور بادی النظر میں ایک گروپ کیپٹن رینک کے افسر کی غلطی کے بنا پر میزائل فائر ہو گیا تھا۔
کانگریس کے رہنما منیش تیواری نے انڈین پارلیمان میں اس متعلق سوال اٹھایا اور کہا کہ ہم اس دن بہت خوش قسمت تھے کہ اس میزائل سے کسی کو نقصان نہیں پہنچا ورنہ اس علاقے میں بہت سارے طیارے محو پرواز تھے۔انھوں نے پاکستان کے ساتھ ادارہ جاتی سطح پر جوہری مسائل پر بات چیت کا مطالبہ کیا تھا اور کہا کہ اسے عسکری کمانڈرز کی سطح پر مستقل ہونا چاہیے۔ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل نے لکھا کہ 'میزائل کی خرابی کے بعد براہموس کے خریدار فلپائن نے انڈین سفارت کار کو بلایا، مجھے یقین ہے کہ سفارتکار نے انھیں درست تصویر پیش کی ہو گی۔'ایک سوال کے جواب میں کہ کیا چین کو اس فروخت سے کوئی مسئلہ ہو سکتا ہے تو مسٹر کمارن نے فلپائن کے بیان کا حوالہ دیا کہ وہ اسے خود دفاعی پلیٹ فارم کے طور پر دیکھتا ہے اور اس لیے وہ نہیں سمجھتے کہ یہ کس طرح دوسرے دارالحکومتوں میں تشویش کا باعث ہو سکتا ہے۔انڈین فضائیہ کے ایک ٹو سٹار افسر کی سربراہی میں ایک کورٹ آف انکوائری اس واقعے کی تحقیقات کر رہی ہے۔ ابتدائی نتائج کی بنیاد پر انڈیا کے دفاعی حکام نے کہا تھا کہ یہ کوئی تکنیکی مسئلہ نہیں لگتا بلکہ ممکنہ طور پر انسانی غلطی ہے جس پر انکوائری کے ذریعے پتا چلے گا۔

واپس کریں