دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مقبوضہ کشمیر میں ہندوستانی مظالم کی صورتحال میں ہندوستان کی طرف سے دہشت گردی کی بات کرنا آسان نہیں ہے، جرمن '' ڈائوچ آف ویلے''
No image نئی دہلی( کشیر رپورٹ) جرمنی کے میڈیا ادارے '' ڈائوچ آف ویلے'' نے ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کے مقبوضہ جموں وکشمیر کے جموں علاقے کے دورے کے حوالے سے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ '' وزیر اعظم نریندر مودی اتوار کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر کا دورہ کریں گے۔ اس موقع پر وہ ایک خطاب بھی کریں گے۔ کشمیر کی آئینی حیثیت کی تبدیلی کے بعد مودی کا کشمیر میں یہ پہلا عوامی خطاب ہو گا۔نریندر مودی کی ہندو قوم پرست حکومت بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں جاری مزاحمت کو ختم کرنے اور وہاں اپنے قدم جمانے کی بھرپور کوششوں میں ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں کمشیر کو اپنے اپنے ملک کا حصہ مانتے ہیں۔بھارتی وزیر اعظم کے دورے سے قبل علاقے کی سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔ توقع ہے کہ بی جے پی کی جانب سے پالی نامی گاں میں منعقد کی جانے والی تقریب میں ہزاروں افراد شریک ہوں گے۔ یہ گاں جموں میں ہے جو کہ اس علاقے کا ہندو اکژیتی جنوبی حصہ ہے۔ اس علاقے میں کشمیر کی آئینی حیثیت کی تبدیلی پر جشن منایا گیا تھا۔مودی پنچایتی راج جو کہ مقامی جمہوری نظام کو منانے کا دن ہے، کے موقع پر عوام سے خطاب کریں گے۔ کشمیر 2018 سے عوام کی نمائندہ علاقائی حکومت سے محروم ہے۔ اس وقت بی جے پی نے حکومتی اتحاد چھوڑ دیا تھا اور نئی دہلی نے یہاں گورنر راج نافذ کر دیا تھا۔بھارت نے 2019 میں کشمیر کی آئینی حیثیت کو تبدیل کر دیا تھا۔ اس موقع پر پولیس کی جانب سے ہزاروں افراد کو گرفتار کیا گیا اور یہاں انٹرنیٹ پر دنیا کی طویل ترین پابندی عائد کر دی گئی۔ اس کا مقصد حکومت مخالف آوازوں کو سوشل میڈیا پر متحرک ہونے سے روکنا تھا۔بھارتی کشمیر کا شمار دنیا کے ان علاقوں میں ہوتا ہے، جہاں سب سے زیادہ فوجی تعینات ہیں۔ اس پورے خطے میں پانچ لاکھ کے قریب سپاہی اور نیم فوجی تعینات ہیں۔مودی حکومت کے مطابق کشمیر کی آئینی حیثیت میں تبدیلی کا مقصد دیرپا امن قائم کرنا اور یہاں سرمایہ کاری بڑھانا ہے۔ لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ درحقیقت یہاں عام شہریوں کی زندگی اب بہت زیادہ قواعد و ضوابط میں گھر گئی ہے اور عوام کا احتجاج کرنا تقریبا ناممکن ہو گیا ہے۔ سن 2019 کی آئینی تبدیلی کے بعد اب بھارتی شہری یہاں زمین بھی خرید سکتے ہیں، نوکریاں حاصل کر سکتے ہیں اور یہاں کی یونیورسٹیوں میں تعلیم بھی حاصل کر سکتے ہیں۔''
'' ڈائوچ آف ویلے '' کا کہنا ہے کہ ''ایسے 2300 سیاست دان اور سرگرم کارکنان جیلوں میں بند ہیں، جو بھارتی حکومت کے اس فیصلے کے خلاف تھے۔ مقامی اتنظامیہ ایسے سخت قانون کا استعمال کرتی ہے جس کے ذریعے کسی پر بھی دہشت گردی کا الزام عائد کرنا آسان ہے۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں نے بھارتی حکومت کے اقدامات کی مذمت کی ہے۔مودی لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوجیوں کے ساتھ ملاقات کے لیے یہاں پہلے بھی دورہ کر چکے ہیں لیکن کشمیری عوام سے یہ ان کا پہلا براہ راست خطاب ہو گا۔مودی کا یہ دورہ بظاہر کشمیر میں آباد ان افراد کے لیے ہے، جن کی تائید پہلے ہی نریندر مودی کو حاصل ہے لیکن اس دورے سے ایک مرتبہ پھر یہاں کے دیرینہ تنازعات خبروں کی زینت بن سکتے ہیں۔''
واپس کریں