دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ہندوستانی حکومت نے گرفتاریوں اور جبر سے کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کو خاموش رہنے پر مجبور کر دیا ہے، جرمن نشریاتی ادارے کی خصوصی رپورٹ
No image سرینگر ( کشیر رپورٹ) ہندوستانی مقبوضہ کشمیر میں وکلاء کی صحافتی تنظیم '' کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن'' ہندوستانی حکومت کی طرف سے وکلاء کی گرفتاریوں، سخت پابندیوں اور جبر کی وجہ سے قانونی امور پر بھی بات کرنے سے خوفزدہ ہے۔جرمن نشریاتی ادارے '' ڈائوچ آف ویلے'' کے مطابق ''بھارتی کشمیر میں گزشتہ تین برسوں سے وکلا کی سب سے بڑی انجمن' کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن' خاموش ہے۔ ایک زمانے کی یہ متحرک تنظیم اب پریس بیانات بھی جاری نہیں کرتی جبکہ اس کے اعلی عہدے دار چپ ہیں یا کرا دیے گئے ہیں۔بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں گزشتہ تین برسوں سے وکلا کی سب سے بڑی انجمن' کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن' ایک طرح سے خاموش ہے اور اس کے انتخابات نہیں ہو پائے ہیں۔ ایک زمانے میں پرجوش اور متحرک یہ تنظیم اب پریس بیانات بھی جاری نہیں کرتی جبکہ اس کے اعلی عہدے دار چپ ہیں یا کرا دیے گئے ہیں۔ماضی قریب میں یہ تنظیم حقوق انسانی کے عالمی دن اور دیگر اہم مواقع پر بڑے سیمینار منعقد کیا کرتی تھی اور ذرائع ابلاغ میں بھی اس انجمن کے زعماء کے بیانات شائع ہوا کرتے تھے تاہم اب اس پر سکوت طاری ہے۔ کشمیر کی سب سے بڑی وکلا انجمن کی خاموشی کی وجہ سری نگر انتظامیہ کا وہ حکم نامہ ہے، جس کے تحت نومبر دو ہزار انیس سے بار ایسوسی ایشن کے انتخابات نہیں کرائے گئے اور ساتھ ہی اس تنظیم سے یہ بھی پوچھا گیا تھا کہ آیا یہ کشمیر کو بین الاقوامی تنازعہ تصور کرتی ہے یا بھارت کا اٹوٹ انگ؟''
جرمن نشریاتی ادارے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ''دو ہزار بیس کے اواخر میں سری نگر کے اس وقت کے ڈپٹی کمیشنر شاہد چودھری نے بار ایسوسی ایشن کے نام رسمی پیغام میں لکھا تھا، ''جموں و کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن سری نگر اپنے آئین میں بیان کرتی ہے کہ اس کے اولین مقاصد میں کشمیر تنازعہ کے پرامن حل کی راہیں تلاش کرنا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے یہ انجمن سیمینار اور کنوینشنز کا انعقاد بھی کرتی ہے اور اپنے وفود کو بھارت اور بھارت سے باہر بھیجتی ہے تاکہ وہ دیگر وکلا انجمنوں کے ارکان سے رابطے استوار کریں۔ اس ضمن میں آپ کے موقف کو لے کر آپ سے وضاحت طلب کی جاتی ہے کیونکہ آپ کا موقف بھارتی آئین سے میل نہیں کھاتا۔ بھارتی آئین کے تحت جموں و کشمیر ملک کا 'جز لا ینفک یا 'اٹوٹ انگ ہے نہ کہ کوئی تنازعہ۔
بار ایسوسی ایشن اپنے آئین میں یہ بھی لکھتی ہے کہ اس ا نجمن کے ارکان سیاسی قیدیوں اور مبینہ طور پر حکومتی ناانصافی کے متاثرہ افراد کے مقدمات بھی مفت لڑتی ہے۔ اس حوالے سے اکثر وکلا مرحوم ایڈوکیٹ شفقت حسین کا ذکر کرتے ہیں جو انڈر ٹرائلز کے کیس'پرو بونو بنیاد پر یعنی بلا معاوضے کے لڑا کرتے تھے۔ مرحوم وکیل کی لیگل ٹیم اس سلسلے میں کافی سرگرم ہوا کرتی تھی۔جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے ایک سینیئر وکیل نے ڈی ڈبلیو کو اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا، ''اب تو ہیبس کارپس کیسوں کی بہت مشکل سے عدالتوں میں شنوائی ہوتی ہے۔ پبلک سیفٹی ایکٹ اور یو اے پی اے کیسوں پر نظرثانی بھی نہیں ہو پاتی۔ اور اگر کبھی ہوتی بھی ہے تو وکیل کیس کی پیروی کرنے سے کتراتے ہیں۔ کوئی وکیل جیل نہیں جانا چاہتا ہے۔ کشمیر میں ہر جانب خوف کا عالم ہے
ابھی گزشتہ بدھ کے روز ہی جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے ایک وکیل کے خلاف ان کے دو ہزار اٹھارہ کی سوشل میڈیا پوسٹس کے حوالے سے انلافل ایکٹیویٹیز پریونشن ایکٹ' کے تحت دائر کی گئی ایف آئی آر ختم کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں بتایا، ''کسی کو بھی آزادی اظہار کے نام پر یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کشمیریوں کو بھارتی حکومت کا غلام بتائے یا پھر کشمیر کو مقبوضہ یا بھارتی فوج کے زیر کنٹرول علاقہ کہے۔
مختلف وجوہات کے باعث کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سرگرم نہ ہونے سے متعدد سیاسی قیدی، بالخصوص ایسے نوجوان جو اپنی لیگل فیس ادا کرنے کی حالت میں نہیں ہیں، پر گہرے اور منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔اگست دو ہزار انیس میں جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت اور خصوصی پوزیشن کے خاتمے کے نتیجے میں کشمیر بار ایسوسی ایشن کے انتخابات نہیں ہو پائے ہیں۔ بھارتی آئین کی جموں کشمیر سے متعلق دفعہ تین سو ستر ہٹنے سے پہلے ہی بار ایسوسی ایشن کے اس وقت کے صدر میاں عبدالقیوم کو بھارت کی تہاڑ جیل میں قید کر لیا گیا تھا۔
بار کے ایک ترجمان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اناسی سالہ قیوم کو تہاڑ کی مرکزی جیل نمبر تین میں رکھا گیا تھا۔ انہیں پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا تھا جبکہ ان کے بارے میں تب یہ بتایا گیا تھا،''وہ سخت گیر موقف کے حامل وکیل ہیں اور اپنے علیحدگی پسندانہ نظریات سے باز نہیں آتے۔میاں قیوم کے علاوہ بار ایسوسی ایشن کے سرکردہ وکیل ایڈوکیٹ نذیر رونگا اور ایڈوکیٹ محمد اشرف کو بھی احتیاطی حراست میں لیا گیا تھا جبکہ کشمیر کے مختلف اضلاع میں بار سے وابستہ درجنوں وکیلوں کو قید خانوں میں ڈالا گیا تھا۔تاہم اب ان میں سے بیشتر رہا کر دیے گئے ہیں۔بار ایسوسی ایشن کے ایک اور رکن نے ڈی ڈبلیو کو مزید بتایا کہ میاں قیوم کا ایک گردا ناکارہ ہو چکا ہے اور وہ ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہونے کے علاوہ بلند فشار خون اور دیگر بیماریوں کا شکار ہیں۔
سینیئر ایڈوکیٹ محمد الطاف خان نے میڈیا کو بتایا تھا کہ بار کے انتخابات میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے انتظامیہ بار کی رجسٹریشن اور دیگر معاملات کا بہانہ بنا رہی ہے اور اصل میں اس کا مقصد الیکشن میں رکاوٹ ڈالنا ہے۔ میاں قیوم کی بگڑتی صحت کے نتیجے میں الیکشن لڑنے سے معذرت کے بعد ایڈوکیٹ خان بار کے صدر کے عہدے کے لیے سب سے مضبوط دعوے دار کے طور پر سامنے آئے تھے۔مزید براں ایک جونیئر وکیل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اب موجودہ حکومت کے حامی وکلا نے کشمیر ایڈوکیٹس ایسوسی ایشن قائم کی ہے، ''ہماری بار ایسوسی ایشن نے تین مختلف مرتبہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا تاہم حکومت نے تینوں مرتبہ ہمیں ایسا کرنے سے روک دیا۔
اس خصوصی اسٹوری کے لیے ڈوئچے ویلے نے کئی وکلا سے بات چیت کی تاہم ان میں سے بیشتر سہمے ہوئے ہیں اور اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ہی تفصیلات بیان کرنے پر راضی ہوئے۔ کشمیر کے میڈیا، سول سوسائٹی اور سیاست دانوں کی طرح ہی بار ایسوسی ایشن کی خاموشی بھی معنی خیز ہے۔ جس طرح سرکار کے حامی وکلا نے بار ایسوسی ایشن کا متبادل ایڈوکیٹس ایسوسی ایشن کے ذریعے تلاش کیا ٹھیک اسی طرح کشمیر پریس کلب کے بدلے اب سرکار کے حامی صحافیوں نے پریس کور بنایا ہے۔کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن ویب سائٹ کے مطابق یہ وکلا کی نمائندہ انجمن ہے اور اس کا قیام ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ کے دور اقتدار میں انیس سو اٹھائیس میں ہوا تھا۔ اس انجمن کی خاموشی سے عوامی حلقوں 'بالخصوص سیاسی قیدیوں اور متاثرہ کنبوں پر نفسیاتی دبا پڑا ہے''۔
واپس کریں