دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
2022-23 کے لئے9500 ارب روپے حجم کاوفاقی بجٹ
No image اسلام آباد ( کشیر رپورٹ) پاکستان کے مالی سال2022-23کیلئے 9500 ارب روپے حجم کاوفاقی بجٹ پیش کیاگیا ہے۔تنخواہوں میں 15 فیصد اضافہ، پینشن فنڈ کا قیام۔ کوئی نیا ٹیکس عائد نہیں کیا گیا، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15 فیصد ایڈہاک ریلیف جبکہ سابقہ ایڈہاک ریلیف بنیادی تنخواہ میں ضم کردیئے گئے، ٹیکس محصولات کا ہدف 7004ارب روپے رکھا گیا ہے، کسانوں کو ریلیف دینے کے لئے زرعی مشینری پر کسٹم ڈیوٹی جبکہ مختلف اجناس کے بیجوں پر سیلز ٹیکس ختم کردیا گیا، نان ٹیکس ریونیو2 ہزار ارب روپے ہو گا،این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو 41 سو ارب روپے ملیں گے، کینولا اور سورج مکھی کے بیجوں پر 17 فیصد سیلز ٹیکس ختم کر دیا گیا، انکم ٹیکس کی کم سے کم شرح 6 لاکھ روپے سے بڑھا کر 12 لاکھ روپے کردی گئی ہے، شرح سود 11.7 فیصد سے کم کرکے آئندہ مالی سال کا ہدف 11.5 فیصد، شرح نمو کا ہدف 5 فیصد مقرر کیا گیا، 1600 سی سی سے اوپر کی گاڑیوں پر ایڈوانس ٹیکس بڑھانے ،نان فائلر کے لئے ٹیکس کی موجودہ شرح 100 فیصد سے بڑھا کر 200 فیصد کی گئی ہے، 200 یونٹس سے کم بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو سولر پینل کی خریداری پر بنکوں سے آسان اقساط پر قرضے دلائے جائیں گے، سولر پینل کی درآمد اور مقامی سپلائی پر سیلز ٹیکس ختم کردیا گیا۔ جمعہ کو قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی جانب سے آئندہ مالی سال کا وفاقی بجٹ پیش کیا گیا۔

وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بجٹ تقریر میں کہا کہ وفاق میں اس وقت اتحادی حکومت تمام اکائیوں کی نمائندہ اور رائے عامہ کے 60 فیصد سے زائد کی حمایت یافتہ ہے لہذا ملکی معیشت کے بارے میں کئے جانے والے فیصلوں کو قوم کی وسیع تر حمایت حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ پونے چار سال کی بری کارکردگی کی وجہ سے پیدا ہونے والی ابتر معاشی صورتحال بہتر بنانے کا مشکل چیلنج درپیش ہے، ان کی عاقبت نااندیشی کی بنا پر سماجی ڈھانچہ متاثر ہوا، معاشی ترقی رک گئی اور قومی اتحاد تتر بتر ہوگیا، اس عرصے میں معاشی بدانتظامی عروج پر تھی جس کی وجہ سے عام آدمی بری طرح متاثر ہوا۔ روپے کی قدر میں بے تحاشہ کمی دیکھنے میں آئی جس کی بنا پر ہر چیز کی قیمت بڑھ گئی۔

اس طرح غریب اور متوسط طبقے کی زندگی اجیرن ہوگئی۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے پونے چار سال میں ایک ناتجربہ کار ٹیم نے ملک عزیز کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا۔ ہر سال ایک نیا آدمی بجٹ پیش کرتا اور ہر سال بلکہ سال کے دوران حکومت کی معاشی پالیسی بدل جاتی جس کی وجہ سے سرمایہ کاروں اور ترقیاتی شراکتداروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی۔ یہ لوگ بات کرکے مکر جانے کے ماہر ہیں۔ پاکستان کے لوگوں نے تو ہر مرحلے پر ان کے یو ٹرن دیکھے ہی تھے مگر اپنی اس عادت سے مجبور ہوکر انہوں نے عالمی برادری اور عالمی مالیاتی اداروں کے سامنے بھی بار بار موقف بدلنے کی عادت اپنائی۔

اس لئے آئی ایم ایف کا پروگرام جو اس برس ختم ہونا تھا فروری میں معطل ہو چکا تھا اور وہ بنیادی اصلاحات جو 2019 میں ہونی تھیں ابھی تک نہیں ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ معیشت کے ڈھانچہ جاتی بگاڑ کو درست کرنے کے لئے بنیادی اصلاحات کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جس کا ایک فوری منفی ردعمل دیکھنے میں آتا ہے مگر معیشت مضبوط بنیادوں پر استوار ہو جاتی ہے۔ گزشتہ حکومت ایسے اقدامات کرنے سے دامن چراتی رہی اس لئے وہ ساری اصلاحات موخر ہوتی رہیں جن کی وجہ سے آج معیشت اپنے پائوں پر کھڑی نہیں ہو سکی اور خوشحالی ہم سے دور ہوگئی۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کے پاس بہت کم وقت ہے۔

ہم بڑی آسانی سے ان تبدیلیوں کو آئندہ حکومت پر ڈال سکتے تھے لیکن اس میں ملک کا نقصان تھا اس لئے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ ساری تبدیلیاں کی جائیں گی جن سے معیشت اور ملک کا فائدہ ہوگا۔ ہم نے یہ جانتے ہوئے حکومت میں آنے کا فیصلہ کیا کہ معیشت خراب حالت میں ہے۔ ہمارے پاس دو آپشن تھے ایک تو یہ کہ ملک کو اسی حالت میں چھوڑتے اور نئے الیکشن کا اعلان کردیتے مگر اس طرح معیشت کا بیڑا غرق ہوجاتا اور ملک کو دوبارہ پٹڑی پر چڑھانا مزید مشکل تھا۔ اس لئے ہم نے دوسرا راستہ اپنایا اور مشکل فیصلے کرنا شروع کئے۔

یہ ایک مشکل راستہ ضروری ہے لیکن دیرپا ترقی کا راستہ صرف یہی ہے۔ ہم نے پہلے بھی یہ کیا ہے۔ ہم کر سکتے ہیں اور ہم کرکے دکھائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ قومی مفاد کو اپنے سیاسی مفاد پر ترجیح دی ہے۔ اس وقت بھی ہماری اولین ترجیح معاشی استحکام ہے۔ ہماری معیشت کا ایک بنیادی مسئلہ یہ رہا ہے کہ اکثر معاشی ترقی کی شرح 3 سے 4 فیصد کے درمیان رہتی ہے جو ہماری آبادی میں اضافے کی شرح سے مطابقت نہیں رکھتی۔

اس کے برعکس جب معاشی ترقی کی شرح 5 یا 6 فیصد سے اوپر جاتی ہے تو کرنٹ اکائونٹ کا خسارہ قابو سے باہر ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم معیشت کو چلانے کے لئے امیر طبقے کو مراعات دیتے ہیں جس سے درآمدات بڑھ جاتی ہیں جبکہ برآمدات وہیں کھڑی رہتی ہیں۔ یہی پچھلے سال بھی ہوا بلکہ تقریبا ہر دفعہ ہوا۔ اس لئے ہمیں کوئی نئی سوچ اپنانا ہوگی اور ایک قوم کے طور پر اس کا حل نکالنا ہوگا۔

ہمیں معیشت کو چلانے کے لئے کم آمدنی والے اور متوسط طبقے کو مراعات دینا ہوں گی جس سے گھریلو پیداوار بڑھے گی اور زراعت کو بھی ترقی ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں غریب کے معاشی حالات کو سنوارنا ہوگا اور غریب کو سہولتیں دینا ہوں گی تاکہ اس کی آمدن بڑھے۔ جب غریب کی آمدن بڑھتی ہے تو وہ ایسی اشیا خریدتا ہے جو ملک کے اندر تیار ہوتی ہیں۔ ایسی صارفین سے متعلق اشیا پر خرچ کی گئی رقم سے درآمدات نہیں بڑھتیں لیکن ملک کے اندر معاشی ترقی کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ ایسا کرنے سے ہم مستقل بنیادوں پر جامع ترقی کر سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں معاشی ترقی کی بنیاد رکھنی ہوگی۔ ایسی مضبوط بنیاد جس پر پائیدار ترقی کی شاندار عمارت تعمیر ہو سکے جو اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ قائم و دائم رہے۔ ہمیں ترقی کا فارمولا برآمدات بڑھانے پر مرکوز کرنا ہوگا۔ ہمیں زراعت، آئی ٹی اور صنعتی برآمدات بڑھانا ہوں گی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ہمیں زرعی شعبے کی پیداوار میں اضافہ کرنا ہوگا اور اپنی برآمدات کی مسابقت کا عمل بڑھانا ہوگی تاکہ وہ عالمی منڈی میں دیگر ممالک کی مصنوعات کا مقابلہ کر سکیں۔ ہمیں کاروبار میں آسانیوں کو بہتر بنانا ہوگا تاکہ مقامی اور بیرونی سرمایہ کار زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کریں۔

ہمیں مشینری اور خام مال کی درآمد کے بعد اس کی ویلیو میں اضافہ کرکے برآمد کرنا ہوگا۔ اس طرح جتنی درآمدات بڑھیں گی اس سے کہیں زیادہ برآمدات میں بھی اضافہ ہوگا۔ معاشی صورتحال اور منصوبہ بندی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ہر ایک کو معلوم ہے کہ ہمیں تباہ حال معیشت کو درست راہ پر گامزن کرنے کا انتہائی مشکل چیلنج درپیش ہے۔ پچھلے پونے چار سال میں معاشی عدم استحکام جاری تھا۔

تاریخی مہنگائی، غیر ملکی زرمبادلہ کی مشکلات، زیادہ لاگت پر بے دریغ قرضوں کا حصول، لوڈشیڈنگ اور اوپر سے مسائل کا حل نکالنے میں ناکام سابقہ حکومت نے عوام کی زندگیوں کو مشکلات سے دوچار اور شکستہ حال بنا دیا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ پونے چار سال کی بدانتظامی کی وجہ سے پاکستان مہنگائی کے حساب سے دنیا کے بڑے ملکوں میں تیسرے نمبر پر ہے۔ ساڑھے سات کروڑ لوگ غربت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ ان میں دو کروڑ کا اضافہ پچھلے پونے چار برس میں ہوا جبکہ اسی دوران ساٹھ لاکھ لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں۔

اپنی پونے چار سال کی مدت میں سابقہ حکومت نے 20 ہزار ارب روپے قرض لیا جو لیاقت علی خان اور خواجہ ناظم الدین سے لے کر ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو ، محمد نواز شریف، شاہد خاقان عباسی اور سپیکر سمیت تمام وزرا اعظم کی حکومتوں کے 71 سال میں لئے گئے قرضوں کے 80 فیصد کے برابر ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے آمدن سے زیادہ خرچ کیا اور پاکستان کی تاریخ کے چار بلند ترین خسارے کے بجٹ پیش کئے۔ ان کا اوسط بجٹ خسارہ 8.6 فیصد کے قریب رہا۔ اس دوران سالانہ تقریبا 5 ہزار ارب روپے کا قرض بڑھایا گیا اور رواں مالی سال میں 5100 ارب روپے کا خسارہ متوقع ہے۔

اسی طرح بجلی کا گردشی قرضہ 1,062 ارب روپے سے بڑھ کر جو ہم مئی 2018 میں چھوڑ کر گئے تھے، اب 2500 ارب روپے ہوگیا ہے اور ملکی تاریخ میں پہلی بار گیس کے شعبے میں گردشی قرضہ دیکھنے میں آیا ہے جو مارچ 2021-22 میں 1400 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میاں محمد نواز شریف کے دور میں مہنگائی کم سے کم کی گئی۔ مہنگائی کی شرح تقریبا پانچ فیصد کے قریب تھی جبکہ افراط زر کی کم سے کم شرح 3.9 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ پچھلے پونے چار سال کی بدانتظامی کی وجہ سے پاکستان ایک مستقل مہنگائی کی لہر میں ہے کیونکہ گزشتہ وزیراعظم کہتے تھے کہ میں پیاز اور ٹماٹر کی قیمتیں دیکھنے نہیں آیا بلکہ ملک کو عظیم بنانے آیا ہوں۔ مجھے نہیں معلوم کہ غریب آدمی کو مہنگائی کی چکی میں پیس کر کوئی ملک کیسے عظیم بن سکتا ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ عمران خان کی حکومت آتے ہی چینی اور آٹے کی قیمتیں کیوں بڑھ گئیں۔ 2013 میں چینی کی قیمت 55 روپے فی کلو تھی اور 2018 میں جب ہم گئے تو چینی کی قیمت 53 روپے فی کلو تھی۔

مگر پھر 2018 کے بعد چینی کی قیمت کو پر لگ گئے اور وہ بڑھتے بڑھتے 140 روپے فی کلو سے تجاوز کر گئی لیکن پھر وزیراعظم شہباز ریف آگئے جو اسے واپس 70 روپے فی کلو پر کھینچ لائے ہیں۔ اسی طرح 2018 میں جب ہم چھوڑ کر گئے تو آٹے کی قیمت 35 روپے فی کلو تھی جو نئے پاکستان میں بڑھ کر 80 روپے فی کلو ہوگئی مگر پھر شہباز شریف آگئے جنہوں نے یوٹیلٹی سٹورز اور بہت سی خصوصی دکانوں پر آٹا 40 روپے فی کلو فراہم کرنا شروع کیا۔

جب ہم گئے تو پاکستان چینی اور گندم برآمد کر رہا تھا مگر اب ہم یہ دونوں چیزیں درآمد کر رہے ہیں۔ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ گزشتہ دور میں مہنگائی کو بڑھانے میں توانائی کی قیمتوں کا بھی دخل ہے۔ ہم توانائی کا مسئلہ بڑی حد تک حل کر چکے تھے۔ توانائی کے اس بحران میں دوبارہ شدت لانے کی ذمہ دار پی ٹی آئی حکومت کی گزشتہ پونے چار سال کی غلط پالیسیاں اور فیصلے ہیں۔ انہوں نے ہمارے کئے ہوئے ایل این جی کے سستے سودوں پر جھوٹے الزامات لگائے جس کی وجہ سے یہاں بیٹھے ہوئے بہت سے اکابرین کو جیل بھی کاٹنا پڑی۔

ہمیں یہ بھی گوارا ہوتا اگر یہ ایل این جی سستے نرخوں پر لے آتے مگر انہوں نے کوویڈ کی وجہ سے میسر ہونے والے سستے ترین نرخوں پر طویل مدتی معاہدے کرنے کی بجائے مہنگے داموں سپاٹ پرچیز کی۔ اسی وجہ سے ہمیں بھی فوری ضروریات کے لئے مہنگی ایل این جی خریدنا پڑ رہی ہے۔ اس کے باوجود ہمارے اوپر الزام لگائے گئے اور مجھ سمیت ہمارے کئی معزز رہنمائوں کو جیلوں میں ڈالا گیا بلکہ ہماری بہنوں اور بیٹیوں کو بھی اس میں گھسیٹا گیا اور وہ آج بھی پیشیاں اور عدالتیں بھگت رہے ہیں۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ فروری کے آخر میں جب عمران خان کی حکومت کو لگا کہ ان کی رخصت کے دن قریب ہیں تو انہوں نے اتحادی حکومت کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کی جو دراصل ریاست پاکستان کی معیشت کے لئے بارودی سرنگیں تھیں۔ جس طریقے سے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کمی کی گئی جبکہ حکومت پاکستان کا خزانہ قرض مانگ کر چل رہا تھا۔ ان کے اس قدم سے ہماری ریاست ایک سنگین اقتصادی بحران میں پھنس گئی ہے جس کو نکالنے کی کوشش اب تک جاری ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے پٹرولیم کی قیمتوں کے پیش نظر کم آمدنی والے طبقہ کو تحفظ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ چنانچہ ان کی ہدایت پر 40 ہزار روپے ماہانہ سے کم آمدنی والے خاندانوں کو دو ہزار روپے ماہانہ مدد دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو کہ جون 2022 سے نافذ العمل ہے۔ اس سے تقریبا 8 کروڑ سے زائد لوگوں کو فائدہ پہنچے گا۔ یہ امداد مالی سال 2022-23 کے بجٹ میں شامل کردی گئی ہے اس میں ضروری نہیں کہ کسی کے پاس کار یا موٹر سائیکل ہو بلکہ جو عوام بس میں سفر کرتے ہیں وہ بھی اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

جو مستحق افراد بی آئی ایس پی میں پہلے سے رجسٹرڈ ہیں ان کو جون کے مہینے میں دو ہزار روپے کی اضافی ادائیگی خودکار طریقے سے کی جارہی ہے۔ ان میں مزید 60 لاکھ خاندانوں کو شامل کیا جارہا ہے جن کو ہر مہینے دو ہزار روپے دیئے جائیں گے۔ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ 2013 سے 2018 کے درمیان پاکستانی کرنسی میں استحکام دیکھنے میں آیا۔ مگر پھر انتہا درجے کی معاشی بدانتظامی کی بنا پر 2018 سے 2022 کے درمیان روپے کی قدر میں تقریبا 61 فیصد کمی واقع ہوئی جو ڈالر کے مقابلے مں 115 روپے سے 189 روپے تک پہنچ گی اور بدانتظامی کے آفٹر شاکس کی وجہ سے 200 کی حد بھی پار کرگیا مگر ہم نے کرنسی کو استحکام دینے کے لئے تمام ضروری اقدامات کئے ہیں اور امید ہے کہ اب ہمارا روپیہ مستحکم رہے گا۔

بجٹ وژن اور اقتصادی ترجیحات سے آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیراعظم چاہتے ہیں کہ اس مشکل گھڑی میں عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دیا جائے بالخصوص وہ غریب عوام جو مہنگائی کے اس طوفان سے لڑنے کی سکت نہیں رکھتے۔ اس مقصد کے لئے حکومت نے امداد اور سبسڈی کے لئے کئی اقدامات کئے ہیں لیکن ایسا مستقل بنیادوں پر کرنے کے لئے ہمیں ذرائع فراہم کرنا ہوں گے۔ اس مقصد کے لئے یہی طریقہ ہے کہ زیادہ آمدن کے حصول پر سپیشل ٹیکس لگایا جائے اور اس طرح دولت کا رخ غریب عوام کی طرف موڑا جائے۔

اس مقصد کے لئے آمدن پر ٹیکس یا ایسی اشیا پر ٹیکس لگائے جائیں جو زیادہ آمدن والے افراد استعمال کرتے ہیں اور متوسط طبقہ اور غریب عوام کم استعمال کرتے ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ہماری حکومت کی بجٹ فلاسفی یہ ہے کہ ہم ایک طرف زرعی پیداوار میں اضافہ کریں گے تاکہ نہ صرف قابل کاشت رقبہ بڑھے بلکہ فی ایکڑ پیداوار میں بھی اضافہ ہو۔ خاص طور پر خوردنی تیل پیدا کرنے والی فصلوں مثلا مکئی، سورج مکھی اور کینولا کی کاشت میں اضافہ کیا جائے گا تاکہ زرعی درآمدات میں کمی آئے اور جاری اخراجات کے خسارے میں بھی کمی لائی جاسکے۔

دوسری طرف ہم ایسی صنعتوں کو ترقی دیں گے جن کی پیداوار برآمد کی جاسکے۔ اس طرح ہمیں قیمتی زرمبادلہ حاصل ہوگا اور بیرونی ادائیگیوں کے توازن کو پائیدار بنیادوں پر درست کرنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ نئے محصولات کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ جو محصولات اس وقت وصول کئے جارہے ہیں ان کے انتظام اور مینجمنٹ کو بہتر بنایا جائے۔ اگر محصولات میں چوری کو ختم کردیا جائے جو گزشتہ پونے چار سالوں میں بڑھ گئی تھی تو خاطر خواہ حد تک اضافی وصولی ہو سکتی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ہم نان ٹیکس ریونیو بڑھانے کے لئے بھی کوشاں ہیں۔ کفایت شعاری کے لئے اقدامات سے آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ کفایت شعاری ہماری حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ حکومتی اخراجات میں کمی اس بجٹ کا حصہ ہے۔ ہم اس سلسلہ میں ٹھوس اقدامات اٹھا رہے ہیں۔ صرف زبانی جمع خرچ نہیں کر رہے۔ گاڑیوں کی خرید پر مکمل پابندی ہوگی، ترقیاتی پراجیکٹ کے علاوہ فرنیچر وغیرہ کی خرید پر مکمل پابندی عائد کردی گئی ہے۔ کابینہ اور سرکاری اہلکاروں کی پٹرول کی حد کو 40 فیصد کم کیا جائے گا۔ حکومت کے خرچ پر لازمی بیرونی دوروں کے علاوہ تمام دوروں پر پابندی ہوگی۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ بجٹ میں پنشن کی مد میں اگلے مالی سال میں 530 ارب روپے کا تخمینہ ہے۔ دیگر ممالک کی طرح ہم پنشن فنڈ قائم کر رہے ہیں جس کے لئے رقوم جاری کردی گئی ہیں۔ میکرو اکنامک فریم ورک سے آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کے ویژن کے مطابق معیشت کو ترقی کے راستے پر گامزن کرنے کے لئے ہماری ٹیم نے میڈیم ٹرم میکرو اکنامک فریم ورک وضع کیا ہے۔ مجھے کامل یقین ہے کہ اس کے ذریعے معیشت صحیح رخ اختیار کرنے میں کامیاب ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے لئے بڑا چیلنج کرنٹ اکائونٹ خسارے کے بغیر گروتھ حاصل کرنا ہے۔

لہذا اگلے سال توازن کو خراب کئے بغیر کم از کم پانچ فیصد گروتھ حاصل کی جائے گی۔ اس طرح جی ڈی پی کو 67 کھرب روپے سے بڑھا کر اگلے مالی سال کے دوران 78.3 کھرب روپے تک پہنچایا جائے گا۔ افراط زر کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ اس وقت افراط زر 11.7 فیصد ہے جوکہ گزشتہ دس برسوں کے مقابلے میں سب سے بلند سطح پر ہے۔ حکومت کو ادراک ہے کہ غریب آدمی مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے۔ ہم زری اور مالیاتی پالیسی کو بہتر بناتے ہوئے مہنگائی کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگلے مالی سال میں افراط زر میں کمی کرکے 11.5 فیصد پر لایا جائے گا۔

ایف بی آر ٹیکسز سے آگاہ کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ ابھرتی ہوئی مارکیٹس والے ممالک میں ٹیکس کی شرح جی ڈی پی کا تقریبا 16 فیصد ہے مگر پاکستان میں اس وقت یہ شرح 8.6 فیصد ہے۔ اگلے مالی سال کے دوران یہ شرح 9.2 فیصد تک لے جانے کی تجویز ہے۔ 2017-18 میں ہم یہ شرح 11.1 فیصد پر چھوڑ کر گئے تھے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ مجموعی خسارہ جو اس سال جی ڈی پی کا 8.6 فیصد ہے، اس میں بتدریج کمی لائی جائے گی۔ اگلے مالی سال کے دوران اس میں کمی لاکر 4.9 فیصد تک کیا جائے گا۔

اسی طرح مجموعی پرائمری بیلنس، جو جی ڈی پی کا منفی 2.4 فیصد ہے، اس میں بہتری لاکر اگلے مالی سال میں اس کو مثبت 0.19 فیصد پر لایا جائے گا۔ تجارتی خسارہ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت برآمدات میں اضافے کے لئے اہم اقدامات اٹھا رہی ہے اور درآمدات کے بڑھتے ہوئے رجحان پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ تجارتی توازن عمل میں لایا جائے اور ڈالر کی قیمتوں کا تعین خودبخود صحیح راستے پر گامزن ہو جائے۔

درآمدات جو اس وقت 76 ارب ڈالر تک متوقع ہیں۔ اگلے مالی سال ان میں کمی لاکر 70 ارب ڈالر کی سطح پر لائی جائیں گی۔ برآمدات اس وقت 31.3 ارب ڈالر ہیں۔ اگلے مالی سال ان کو 35 ارب ڈالر تک بڑھانے کے اقدامات کئے جائیں گے، ان اقدامات سے کرنٹ اکائونٹ بیلنس کو جی ڈی پی کے منفی 4.1 فیصد سے گھٹا کر اگلے مالی سال میں جی ڈی پی کے منفی 2.2 فیصد پر لایا جائے گا۔ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ رواں سال ترسیلات زر 31.1 ارب ڈالر ریکارڈ ہوں گی۔

اگلے مالی سال میں ترسیلات زر 33.2 ارب ڈالر تک بڑھنے کی توقع ہے۔ قومی قرضہ کے حوالے سے آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سال سود کی ادائیگی میں کل اخراجات 3144 ارب روپے ہوں گے جس میں ملکی سطح پر سود کی ادائیگی 2770 ارب روپے اور بیرونی ادائیگیوں پر سود کی مد میں 373 ارب روپے ہونے کا تخمینہ ہے جبکہ اگلے سال اس مد میں کل ادائیگی 3950 ارب روپے ہونے کا تخمینہ ہے جس میں سے 3439 ارب اندرونی اور 511 ارب روپے غیر ملکی قرضوں پر خرچ ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ سرکاری قرضے جوکہ 2017-18 میں 25000 ارب روپے تھا، مارچ 2022 میں 44365 ارب روپے تک پہنچ گیا جو جی ڈی پی کا 72.5 فیصد ہے۔ ہم نے مالی سال کے آخری دو ماہ میں اخراجات میں کمی کے ذریعے قرض میں اضافے کی رفتار کو کم کیا ہے۔ قانون کے مطابق حکومت کے قرض لینے کی حد جی ڈی پی کا 60 فیصد مقرر کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایف آر ڈی ایل اے 2005 میں ترمیم کے ذریعے وزارت خزانہ کے ڈیٹ مینجمنٹ آفس کو ماہرین فراہم کئے جائیں گے۔

فرائض کی بجاآوری کے لئے اس کے مینڈیٹ اور اختیارات میں خاطر خواہ اضافہ کیا جار ہا ہے تاکہ قرضوں کا انتظام موزوں بنیادوں پر استوار کیا جاسکے۔ یہاں پر میں ایوان کو آگاہ کرنا چاہوں گا کہ سابقہ حکومت نے ڈیٹ کی ری پروفائلنگ کرتے وقت 2029 میں 5400 ارب یعنی پانچ لاکھ 40 ہزار کروڑ روپے ایک ساتھ ادا کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔

تصور تو کیجئے، کیا پوری ڈومیسٹک منی مارکیٹ ایک ہی بار اتنی بڑی رقم کا بندوبست کر سکتی ہے؟ بالکل نہیں۔ ہم اس بہت بڑی قرض ادائیگی کی رقم کو ٹکڑوں میں بانٹ کر حکومت اور مقامی مارکیٹ کے لئے قابل ادائیگی بنا رہے ہیں۔ بجٹ اقدامات کے حوالے سے آگاہ کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ رواں مالی سال میں ایف بی آر کے ریونیو 6000 ارب روپے ہوں گے جس میں سے صوبوں کا حصہ 3512 ارب روپے رہا۔ وفاق کا نیٹ ریونیو 3803 ارب رہا۔

وفاقی حکومت کا نان ٹیکس ریونیو 1315 ارب روپے ہونے کی توقع ہے۔ کل اخراجات 9118 ارب روپے ہوں گے۔ پی ایس ڈی پی کے اخراجات 550 ارب روپے ہوں گے۔ ڈیبٹ سروسنگ کی مد میں 3144 ارب روپے خرچ ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ دفاع پر 1450 ارب روپے خرچ ہوں گے۔ وفاقی حکومت کے اخراجات 530 ارب، پنشن پر 525 ارب روپے اور سبسڈیز کی مد میں 1515 ارب روپے خرچ ہوں گے اور گرانٹ کی مد میں 1090 ارب روپے خرچ ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ اگلے سال ایف بی آر کا ریونیو کا تخمینہ 7004 ارب روپے ہے جس میں سے صوبوں کا حصہ 4100 ارب روپے ہو گا۔ وفاقی حکومت کے پاس نیٹ ریونیو 4904 ارب روپے ہو گا جبکہ نان ٹیکس ریونیوز میں 2000 ارب روپے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کے کل اخراجات کا تخمینہ 9502 ارب روپے ہے جس میں سے ڈیبٹ سروسنگ کے لئے 800 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے۔ ملکی دفاع کے لئے 1523 ارب روپے، سول انتظامیہ کے اخراجات کے لئے 550 ارب روپے ہوں گے۔ پنشن کی مد میں 530 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔

عوام کی سہولت کے لئے ٹارگٹڈ سبسڈیز 699 ارب روپے رکھی گئی ہیں اور گرانٹ کی صورت میں 1242 ارب روپے رکھے گئے ہیں جس میں بی آی ایس پی، بیت المال اور دیگر محکموں کی گرانٹس شامل ہیں۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اب میں اپنے پسماندہ اور غریب بہنوں اور بھائیوں کے لئے کئے جانے والے اقدامات کا ذکر کرتا ہوں۔ ان کے لئے ہم نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی مختص رقم میں اضافہ کیا ہے جو 2021-22 میں 250 ارب روپے تھی۔ 2022-23 کے بجٹ میں یہ رقم بڑھا کر 364 ارب روپے کر دی گئی ہے۔

اس کے علاوہ 12 ارب روپے کی رقم یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن پر اشیا کی سبسڈی کے لئے مختص کی گئی ہے۔ 5 ارب روپے کی اضافی رقم رمضان پیکج کے طور پر رکھی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگلے مالی سال میں بی آئی ایس پی کے تحت 90 لاکھ خاندانوں کو بے نظیر کفالت کیش ٹرانسفر پروگرام کی سہولت میسر ہو گی جس کے لئے 266 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بے نظیر تعلیمی وظائف پروگرام کا دائرہ ایک کروڑ بچوں تک بڑھایا جائے گا۔

اس مقصد کے لئے 35 ارب روپے سے زائد رقم رکھی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دس ہزار مزید طالب علموں کو بے نظیر انڈر گریجویٹ سکالرشپ دیا جائے گا جس کے لئے 9 ارب روپے سے زائد رقم مختص کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بے نظیر نشو و نما پروگرام تمام اضلاع تک بڑھا دیا جائے گا جس پر تقریبا 21.5 ارب روپے کی لاگت آئے گی۔ اس کے علاوہ 6 ارب روپے مستحق افراد کے علاج اور امداد کے لئے پاکستان بیت المال میں رکھے گئے ہیں۔

توانائی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ عوام اور صنعت و تجارت کے لئے توانائی کلیدی اہمیت رکھتی ہے۔ ان شعبوں اور عوام کے لئے ہم نے اپنے پہلے تین مہینوں کے دوران 214 ارب روپے اضافی سبسڈی ادا کی ہے تاکہ سابقہ حکومت کے دور کے بقایا جات کے بوجھ میں کمی لائی جا سکے۔ اگلے مالی سال کے دوران اس مد میں 570 ارب روپے کی رقم رکھی گئی ہے تاکہ گرمی کے سخت موسم کے دوران عوام بجلی کا خرچ برداشت کر سکیں۔

انہوں نے کہا کہ پٹرولیم کے شعبے میں ہم نے بقایا جات کی ادائیگی کے لئے 248 ارب روپے کی رقم کا اجرا کیا گیا ہے اور اگلے مالی سال کے لئے 71 ارب روپے مہیا کئے ہیں۔ ہم جلد گیس کے نئے نرخوں کا اعلان کریں گے جس کے تحت صنعتوں کو علاقے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں مسابقتی نرخوں پر گیس کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا جس سے ملکی برآمدات میں اضافہ ہو گا۔ تعلیم کے حوالے سے وزیر خزانہ کہا کہ کئی مالی مجبوریوں اور اس حقیقت کے باوجود بھی کہ یہ شعبہ اب صوبوں کو منتقل کر دیا گیا ہے ہم نے ہایئر ایجوکیشن کمیشن کے لئے حالیہ بجٹ میں 65 ارب روپے کی رقم مختص کی ہے۔ اس کے علاوہ 44 ارب روپے ایچ ای سی کی ترقیاتی سکیموں کے لئے رکھے گئے ہیں۔ جو پچھلے سال کے مقابلے میں 67 فیصد زائد ہیں جو نوجوان نسل کے ساتھ ہمارے عزم کا ثبوت ہے۔

ہم صوبوں کو قائل کر رہے ہیں کہ وہ آئندہ سالوں کے دوران اعلی تعلیم کے شعبے کی ترقی کے لئے زیادہ سے زیادہ ذمہ داری نبھائیں۔ انہوں نے کہا کہ ایچ ای سی کے بجٹ میں بلوچستان اور ضم شدہ اضلاع کے لئے 5000 وظائف شامل ہیں۔ بلوچستان کے ساحلی علاقوں کے لئے الگ سکالرشپ سکیم شامل ہے۔ ملک بھر میں طلبا کو ایک لاکھ لیپ ٹاپ آسان اقساط پر فراہم کئے جائیں گے۔ انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی کی تعلیم کو اپ گریڈ کرنے کی غرض سے جدید ساز و سامان مہیا کرنے کے لئے بھی فنڈز رکھے گئے ہیں۔ زراعت اور غذائی تحفظ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ زراعت وطن عزیز کی معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔

دیگر اقدامات کے علاوہ ہم نے فصلوں اور مویشیوں کی پیداوار بڑھانے کے لئے 21 ارب روپے رکھے ہیں تاکہ پیداوار بڑھائی جا سکے۔ وزارت برائے فوڈ سیکورٹی نے پلاننگ کمیشن اور صوبوں کے تعاون سے ایک تین سال شرح نمو کی حکمت عملی ترتیب دی ہے۔ اس حکمت عملی کا مقصد پیداوار میں اضافہ کرنا، کسان کو خوشحال کرنا، موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا مقابلہ کرنا، سمارٹ زراعت کا فروغ، خود انحصاری، ویلیو ایڈیشن اور ایگرو پروسیسنگ ہے۔ نوجوانوں کے لئے اقدامات کے حوالے سے وزیر خزانہ نے کہا کہ نوجوان ملکِ خداداد کا اہم سرمایہ ہیں۔ نیشنل یوتھ کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔

نوجوانوں کے لئے مختص سکیمیں رکھی گئی ہیں۔ فارغ التحصیل نوجوانوں کا ملکی ترقی میں کردار بڑھانے کے لئے ایک مربوط نظام لایا جا رہا ہے۔ یوتھ ایمپلائمنٹ پالیسی کے تحت 20 لاکھ سے زائد روزگار کے مواقع تک نوجوانوں کی رسائی یقینی بنائی جائے گی۔ نوجوانوں میں کاروبار کے فروغ کے لئے پانچ لاکھ تک بلا سود قرضے اور اڑھائی کروڑ تک آسان شرائط پر قرضے دیئے جانے کی سکیم کا اجرا بھی کیا جائے گا۔ قرضہ سکیم میں خواتین کا کوٹہ 25 فیصد مختص کیا گیا ہے۔

نوجوان خواتین کی معاشی خود مختاری کو یقینی بنانے کے لئے خواتین کو ہائی ٹیک اور دیگر اسکلز میں ترجیحی بنیادوں پر تربیت فراہم کی جائے گی۔ ملک بھر میں یوتھ ڈویلپمنٹ سنٹر قائم کئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ان سنٹرز کے ذریعے نوجوان ایک انٹیگریٹڈ جاب پورٹل تک رسائی اور اس سے متعلق رہنمائی حاصل کر سکیں گے۔ ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے نوجوانوں کی مثبت سرگرمیوں کو مربوط کرتے ہوئے گرین یوتھ موومنٹ کا آغاز کیا جائے گا۔ میرٹ کی بنیاد پر مفت لیپ ٹاپ دینے، ہر کسی کو قسطوں میں لیپ ٹاپ دینے اور 250 منی اسپورٹس اسٹیڈیم بنانے کے لئے رقم رکھی جائے گی۔

نوجوانوں کی صلاحیتوں کی حوصلہ افزائی کے لئے انوویشن لیگ کا بھی آغاز کیا جائے گا۔ گیارہ سے 25 سال کی عمر کے نوجوانوں کے لئے ٹیلنٹ ہنٹ اور سپورٹس ڈرائیو پروگرام بھی تشکیل دیا گیا ہے۔ صنعت و تجارت کے حوالے سے وزیر خزانہ نے کہا کہ صنعت کسی بھی ملک کے لئے نہایت ضروری ہے۔ کارخانوں میں بنی ہوئی اشیا نہ صرف برآمد کی جاتی ہیں بلکہ ملکی ضروریات بھی پوری کرتی ہیں اور لاکھوں لوگوں کے لئے روزگار کا ذریعہ بنتی ہیں۔ ان کی اہمیت کے پیش نظر وزارت صنعت و پیداوار نے ایشیائی ترقیاتی بینک کے تعاون سے صنعتی پالیسی پر کام شروع کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پچھلے تین سال سے ایکسپورٹرز کو ڈی ایل ٹی ایل کے بقایاجات کی ادائیگی بہت سست رفتار رہی ہے۔ وزیراعظم نے ہدایت کی ہے کہ ایکسپورٹرز کے تمام کلیم فوری طور پر ادا کئے جائیں۔ اس وقت اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے تصدیق شدہ 40.5 ارب روپے واجب الادا ہیں۔ ہم یہ رقم فوری طور پر ادا کر رہے ہیں۔ اسی طرح مالی مشکلات کے باوجود سیلز ٹیکس کے ری فنڈذ کی بھی فوری ادائیگی کی جا رہی ہے۔

صنعت کاروں کو مسلسل بجلی فراہم کرنے کے لئے انڈسٹریل فیڈرز کو لوڈ شیڈنگ سے مستثنی کیا جائے گا۔ وزیر خزانہ نے سرمایہ کاری کے حوالے سے کہا کہ ملک میں سرمایہ کاری کے فروغ کے لئے ایک نئی حکمت عملی پر کام کیا جا رہا ہے جس کے تحت سرمایہ کار دوست ماحول پیدا کیا جائے گا اور پیچیدہ طریقہ کار کا خاتمہ ہو گا۔ ہماری حکومت عام شہریوں اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لئے تنازعات حل کرنے کے متبادل طریقہ کار میں اصلاحات لائے گی۔

اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ یہ نظام سستا، سادہ اور موثر ہو۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں بہترین بین الاقوامی طریقہ کار کو اپنایا جائے گا جس میں تنازعات کے متبادل حل کا نظام بھی شامل ہو گا، یہ اصلاحات اعلی عدالتوں کی مشاورت سے لائی جائیں گی تاکہ ان پر بروقت عمل کروایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ سابقہ حکومت نے ایک بھی نیا سپیشل اکنامک زون نہیں بنایا۔ 2018 تک سی پیک کے تحت انفراسٹرکچر کا بہت سا کام مکمل کیا جا چکا تھا اور اب اس کو معیشت کے لئے بروئے کار لانا ضروری ہے۔

چین کی حکومت کے ساتھ یہ طے پایا تھا کہ سی پیک کے روٹ پر 9 سپیشل اکنامک زون بنائے جائیں گے جن پر چین اور دیگر ممالک کے سرمایہ کاروں کو کارخانے لگانے کی سہولت فراہم کی جائے گی۔ تاہم گزشتہ حکومت نے اس کام کی رفتار میں بہت سی رکاوٹیں کھڑی کیں اور ابھی تک ایک بھی سپیشل اکنامک زون فعال نہیں ہو سکا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے ہدایت کی ہے کہ خیبرپختونخوا میں رشکئی، پنجاب میں لاہور اور سندھ میں دھابے جی کے مقام پر سپیشل اکنامک زون کو فورا بجلی اور گیس فراہم کر کے اولین فرصت میں چالو کیا جائے گا۔ وزیر خزانہ نے ثقافت اور فلم انڈسٹری کے فروغ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سیاحت میں اضافے، معاشرتی و سماجی تنوع، عالمی سطح پر پاکستان کی ثقافت اور تشخص میں بہتری لانے کے لئے فلم و ثقافت، ورثہ، ڈرامہ اور فنون لطیفہ کا فروغ لازم ہے۔ 2018 میں ملکی تاریخ میں پہلی فلم اور کلچر پالیسی ہمارے دور میں کابینہ نے منظور کی تھی۔ بدقسمتی سے گزشتہ چار سال اس پر عمل ہوا نہ ہی یہ عمل آگے بڑھ سکا۔ 2018 کی فلم و کلچر پالیسی پر عمل درآمد کا آغاز کرتے ہوئے فلم کو صنعت کا درجہ دیدیا گیا ہے۔

ایک ارب سالانہ کی لاگت سے بائیڈنگ فلم فنانسن فنڈ قائم کرنے کے ساتھ فنکاروں کے لئے میڈیکل انشورنس پالیسی شروع کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلم سازوں کو پانچ سال کا ٹیکس ہالیڈے، نئے سینما گھروں، پروڈکشن ہائوسز فلم میوزیمز کے قیام پر پانچ سال کا انکم ٹیکس اور دس سال کے لئے فلم اور ڈرامہ کی ایکسپورٹ پر ٹیکس ری بیٹ جبکہ سینما اور پروڈیوسرز کی آمدن کو انکم ٹیکس سے استثنی دیا جا رہا ہے۔ ایک ارب روپے کی لاگت سے نیشنل فلم انسٹی ٹیوٹ اور پوسٹ فلم پروڈکشن فسیلٹی کے علاوہ نیشنل فلم سٹوڈیو کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے۔ سینما، پروڈکشن ہائوسز، فلم میوزیمز، پوسٹ پروڈکشن فسیلٹی کو سی ایس آر کا درجہ دیا جا رہا ہے۔

غیر ملکی فلم سازوں کو مقامی سطح پر فلم اور ڈرامہ کے مشترکہ منصوبوں میں ری بیٹ دے رہے ہیں۔ ان پر 70 فیصد مواد کی پاکستان میں شوٹنگ کی شرط لاگو ہو گی تاکہ مختلف علاقوں کی مارکیٹنگ سے سیاحت و ثقافت پھلے پھولے، روزگار، نوجوانوں کی ہنر مندی سمیت کاروباری سرگرمیاں فروغ پائیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈسٹری بیوٹرز اور پروڈیوسرز پر عائد 8 فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس ختم کیا جا رہا ہے۔ فلم اور ڈراموں کے لئے مشینری، آلات اور سازو سامان کی امپورٹ کسٹم ڈیوٹی سے پانچ سال کا استثنی ہو گا۔

فنانس بل 2022 کے ذریعے کسٹم ایکٹ 1969ئ، فنانس بل 2018 میں ترمیم کر کے نئی فلم، ڈراموں کے لئے آلات منگوانے پر سیلز ٹیکس صفر اور انٹرٹینمنٹ ڈیوٹی ختم کی جا رہی ہے۔ ان اقدامات سے ملکی فلمی صنعت بحال جبکہ دنیا کے ساتھ پاکستان کے ابلاغ کا منقطع سلسلہ پھر سے بحال ہو گا۔ نئے ٹیلنٹ کی حوصلہ افزائی کی خاطر نوجوانوں کو فلم انڈسٹری میں کام کرنے کا مواقع ملیں گے۔ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے حوالے سے وزیر خزانہ نے کہا کہ وفاقی ترقیاتی پروگرام کے لئے 800 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ 2017-18 میں ہم وفاقی ترقیاتی بجٹ 1000 ارب روپے پر چھوڑ کر گئے تھے۔

اب جو ہم نے حکومت سنبھالی ہے تو یہ تقریبا آدھا رہ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کو اپنی آمدن سے ایسا انفراسٹرکچر بنانا چاہیے جو ملک بھر کے کام آئے۔ ان لوگوں کی غفلت اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے گوادر کی بندرگاہ پر کام بند کر دیا۔ گوادر جو اس علاقے کی سب سے گہرے پانیوں کی بندرگاہ ہے اس وقت ریت اور گارے سے اٹی پڑی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت نے میرے قائد محمد نواز شریف کے ملک بھر میں موٹروے کا جال بچھانے کے وژن کو بھی نقصان پہنچایا اور دانستہ طور پر چین کی سرحد سے کراچی اور گوادر تک موٹروے کے روٹ کو جگہ جگہ سے نامکمل رکھا تاکہ ترقی کا یہ راستہ کہیں پاکستان میں خوشحالی نہ لے آئے۔ اسی طرح انہوں نے پاکستان بھر کو آپس میں ملانے والی ریلوے ایم ایل ون کو جدید بنانے کے لئے محمد نواز شریف کے خواب کو عملی جامہ پہنانے میں رکاوٹیں کھڑی کیں اور پاکستان کو جدید بنانے کے اس اہم منصوبے کو شروع ہی نہیں ہونے دیا۔

پونے چار سال تک عمران خان بس باتیں خرتے رہے اور کچھ کام نہں کیا اور اسی طرح قوم کا انتہائی اہم وقت ضائع کر کے دوبارہ ہیلی کاپٹر پر بیٹھ کر بنی گالہ چلے گئے۔ میں انہیں کہوں گا کہ تمہاری تو فقط باتیں ہیں ہم نے کام کرنا ہے، نہ بھولو فرق جو ہے کہنے والے، کرنے والے میں۔ ترقیاتی پروگرام کی ترجیحات بیان کرتے ہوئے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہ اکہ ہم جاری منصوبوں کو مکمل کرنے پر توجہ دیں گے تاکہ ان پر لگائی گئی رقمیں ضائع نہ جائیں۔

آبادی کم ہونے کے باوجود سب سے زیادہ رقم بلوچستان کی ترقی پر خرچ کی جا رہی ہے تاکہ بلوچستان کو ملک کے باقی حصوں کے برابر لایا جا سکے۔ صوبوں اور خصوصی علاقہ جات (آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان) کے لئے پی ایس ڈی پی میں رقم بڑھا کر 136 ارب روپے کر دی گئی ہے۔ پانی کا ذخیرہ کرنے والے ڈیم ہماری سب سے بڑی ترجیح ہیں وزیراعظم شہباز شریف کے حکم کے مطابق مہمند ڈیم اور دیامیر بھاشا ڈیم کو وقت سے پہلے مکمل کرنے کے لئے اضافی رقوم مختص کی گئی ہیں۔ چین کی سرحد سے دونوں بندرگاہوں کو ملانے والی شاہراہوں کے سلسلے کو مکمل کیا جائے گا۔

سی پیک کے تحت انفراسٹرکچر اور اقتصادی زونز کے منصوبوں میں تیزی لا کر قومی ترقی کی رفتار بڑھانے اور برآمدات میں اضافہ کرنے پر توجہ دی جائے گی۔ بنیادی ڈھانچہ کے حوالے سے وزیر خزانہ نے کہا کہ ہمیشہ کی طرح ملکی ضروریات کے مطابق بنیادی ڈھانچہ کی ترقی ہماری ترجیح ہے۔

مجموعی طور پر اس کے لئے 395 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ توانائی/ بجلی کے حوالے سے وزیر خزانہ نے کہا کہ بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم کو بہتر بنانا حکومت کی ترجیح ہے، بجلی کے شعبے کے لئے 73 ارب روپے کی رقم مہیا کی گئی ہے جس میں سے 12 ارب روپے وزیراعظم کے اعلان کے مطابق مہند ڈیم کی جلد تکمیل کے لئے خرچ کی جائے گی۔ پانی کا یہ ذخیرہ زراعت کے لئے بھی استعمال کیا جائے گا۔

اس منصوبے کی جلد تکمیل سے کسانوں کو فائدہ پہنچے گا۔ وزیر خزانہ نے آبی وسائل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ توانائی سے منسلک شعبہ آبی وسائل ہے، بڑے کثیر المقاصد ڈیموں خاص طور پر دیامر بھاشا، مہمند، داسو، نئی گاج ڈیم اور کمانڈ ایریا پراجیکٹس کے لئے بجٹ میں 100 ارب روپے کی رقم شامل کی گئی ہے جبکہ چھوٹے ڈیموں، نکاسی آب کی سکیموں، کم ترقی یافتہ اضلاع کو ترجیح دی گئی ہے۔

توانائی اور آبی وسائل کے پراجیکٹ ایک دوسرے سے منسلک ہیں جن کے لئے کل 183 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ ٹرانسپورٹ اور مواصلات کا ذکر کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کا کہ شاہراہوں اور بندرگاہوں کے لئے 202 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ عوام کو مواصلات کی سہولیات سے نہ صرف صنعت و تجارت کو ترقی ملتی ہے اور کسان کو منڈیوں تک رسائی ملتی ہے بلکہ لاکھوں لوگوں کو روزگار بھی مہیا ہوتا ہے۔

یہ ماضی میں ہمارا طرئہ امتیاز رہا ہے کہ م نے موٹرویوز شروع کیں، ان کی تکمیل کی اور آج یہ موٹرویز لاکھوں لوگ روزانہ کی بنیاد پر استعمال کر رہے ہیں۔ حکومتی سرمایہ کاری کے علاوہ ہم شاہراہوں کی تعمیر کے لئے غیر سرکاری سرمایہ بھی استعمال کر رہے ہیں۔ نجی شعبے کے اشتراک سے شاہراہیں تعمیر کرنے کو مزید فروغ دیا جائے گا۔

وزیر خزانہ نے سماجی شعبہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان ایس ڈی جیز کا دستخط کنندہ ہے اور ایس ڈی جیز کے اہداف حاصل کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ اس پروگرام میں عوام کو براہ راست شہری سہولیات دی جا رہی ہیں۔ عوام کی زندگی آسان بنانے اور کمزور طبقات عوام کی خدمت کے لئے 70 ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ سماجی شعبہ میں متعدد دوسری سکیموں کے لئے 40 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

وزیر خزانہ نے تعلیم و نوجوانوں کے لئے پروگرام کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہماری حکومت نے جاری پراجیکٹس کی تکمیل کو ترجیح دی ہے۔ بجٹ میں اعلی تعلیم کے منصوبوں کے لئے 51 ارب روپے کی رقم رکھنے کی تجویز ہے۔ صحت کے حوالے سے وزیر خزانہ نے کہا کہ عوام کو صحت کی بہتر خدمات کی فراہمی، متعدی بیماریوں کا سدباب اور ان پر قابو پانے، طبی آلات کی فراہمی، ویکسی نیشن اور صحت کے اداروں کی صلاحیت کار میں اضافہ کیل ئے 24 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کا حوالہ دیتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ اس مشکل وق تمیں بھی ہم ماحولیاتی تبدیلی کی اہمیت سے غافل نہیں۔

اس سے نمٹنے کے لئے تقریبا 10 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ اس میں شجرکاری اور قدرتی ماحول بہتر بنانے کے دیگر منصوبے شامل ہیں۔ وزیر خزانہ نے سائنس و ٹیکنالوجی اور آئی ٹی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے آئی ٹی کے شعبے میں تربیت دینے، نوجوانوں کو لیپ ٹاپ فراہم کرنے، نیٹ ورک بہتر بنانے اور آئی ٹی برآمدات کو فروغ دینے کے لئے 17 ارب روپے مختص کئے ہیں۔

وزیر خزانہ نے زراعت اور فوڈ سیکورٹی کے حوالے سے اقدامات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ زرعی شعبے میں جدت اور مشینوں کا استعمال بڑھانے، لیزر سے زمین ہموار کرنے، آبپاشی میں جدت لانے، معیاری بیجوں کی فراہمی اور زرعی پیداوار کی برآمد کیلئے 11 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سپیشل اکنامک زونز کیلئے ضروری انفراسٹرکچر اور سروسز فراہم کرنے کیلئے اقدامات اگلے سال کے منصوبہ جات میں شامل ہیں تاکہ ملکی اور بین الاقوامی منڈیوں میں مارکیٹ شیئر کو بڑھایا جا سکے۔ اعلی ٹیکنالوجی پر مبنی ویلیو ایڈڈ برآمدات، مثر مارکیٹنگ، معدنیات کے شعبے اور انڈسٹری کے دیگر شعبہ جات میں سرمایہ کاری کیلئے بجٹ میں 5 ارب روپے تجویز کئے گئے ہیں۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ انکم ٹیکس اور کیپیٹل ویلیو ٹیکس پر زیادہ انحصار، غیر پیداواری اثاثہ جات پر ٹیکس کا نفاذ، پیداواری اثاثہ جات کی حفاظت اور صاحب ثروت افراد پر ٹیکس کا نفاذ موجودہ حکومت کے ٹیکس پالیسی کے بنیادی اصول ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے سازگار ماحول میسر نہیں اور نہ ہی ٹیکس کا موجودہ نظام انٹر پرینیورشپ کی حوصلہ افزائی کرتا ہے بلکہ یہ نئے کاروبار کی حوصلہ شکنی کرتا ہے جبکہ ریئل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ یہ یقینا ایک ناخوشگوار پہلو ہے اور یہ معاشی ترقی میں رکاوٹ ڈالتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ریئل اسٹیٹ کی قیمتوں میں مصنوعی اضافے کا سبب بنتا ہے جس سے رہائشی سہولت متوسط طبقے اور عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو جاتی ہے۔ اس غیر پیداواری سرمایہ کاری سے حاصل ہونے والی رقم ایک طرف مہنگائی کا سبب بنتی ہے تو دوسری طرف معاشرے میں بے چینی کا ذریعہ بنتی ہے۔ ہم ریئل اسٹیٹ سیکٹر کی حوصلہ شکنی نہیں کرنا چاہتے لیکن ہم اس شعبے کو ایسی سمت میں لے جانا چاہتے ہیں جہاں یہ شہروں کی ترقی کا انجن بن سکے۔

ہماری تجاویز کا مقصد کثیر المنزلہ تعمیرات کے کلچر کو فروغ دینا ہے جو ساری دنیا میں رائج ہے۔ اس سے غیرتعمیر شدہ پلاٹوں میں افواہوں پر مبنی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ یہ حکومت کاروبار دوست ماحول پیدا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، یہ بدقسمتی رہی ہے کہ انکم ٹیکس کی وصولی کا بڑا حصہ ودہولڈنگ ٹیکس پر مبنی ہے۔ دراصل ود ہولڈنگ ٹیکس کا نظام نہ صرف ٹیکس کے ڈھانچے میں بگاڑ پیدا کرتا ہے بلکہ کاروبار کرنے میں مشکلات کا سبب بنتا ہے۔ ہماری حکومت کا مقصد اس بگاڑ کا خاتمہ کرنا ہے۔

ہماری ترجیحات میں ود ہولڈنگ ٹیکس کی تعداد کو کم کرنا، حتمی ٹیکسز کو کم سے کم ٹیکس میں تبدیل کرنا اور کم سے کم ٹیکس کو ایڈجسٹ ایبل ٹیکس میں بدلنا ہے۔ انہوں نے انکم ٹیکس میں رعایتی اقدامات کے حوالے سے چند اہم تجاویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے معاشرے میں تنخواہ دار طبقہ سب سے زیادہ معاشی مسائل میں جکڑا ہوا ہے مگر اس کے باوجود اسی طبقے پر ٹیکس کا اضافہ بوجھ بھی ڈالا گیاہے، لہذا ہماری حکومت نے تنخواہ دار طبقے کی معاشی پریشانیوں کے ازالے کیلئے ٹیکس چھوٹ کی موجودہ حد 6 لاکھ روپے سے بڑھا کر 12 لاکھ کرنے کی تجویز دی ہے۔ اس سے تنخواہ دار لوگوں کو فائدہ ہوگا جس سے ایک مثبت معاشی سائیکل پیدا ہوگا اور یہ رقم کاروبار میں اضافے کا سبب بنے گی۔

مزید برآں اس سے تنخواہ دار افراد کی ڈسپوزیبل انکم میں اضافہ ہوگا اور مستقبل میں زیادہ ٹیکس محصولات کے ذریعے قومی معیشت کو بھی فائدہ پہنچے گا۔ انہوں نے بتایا کہ مہنگائی کے پیش نظر بزنس انڈی وژولز اور اے او پیز کیلئے چھوٹ کی بنیادی حد 4 لاکھ سے بڑھا کر 6 لاکھ کرنے کی تجویز ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت بہبود سیونگ سرٹیفکیٹس، پنشنرز، بینیفٹ اکانٹ اور شہدا فیملی ویلفیئر اکانٹ میں سرمایہ کاری سے حاصل ہونے والے منافع پر زیادہ سے زیادہ 10 فیصد ٹیکس لگایا جاتا ہے۔ اسے کم کرکے پنشنرز کو مزید ریلیف فراہم کرنے کیلئے 5 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔

انہوں نے کہا کہ چھوٹے ریٹیلرز کیلئے ایک فکسڈ انکم اور سیلز ٹیکس کا نظام تجویز کیا جا رہا ہے جس میں ٹیکس کی وصولی بجلی کے بلوں کے ساتھ کی جائے گی۔ رجسٹریشن اور رپورٹنگ کا آسان نظام لایا جائے گا۔ جو ریٹیلرز حضرات کیلئے بہت آسان ہوگا۔ یہ ٹیکس 3 ہزار سے 10 ہزار روپے تک ہوگا۔ یہ ایک حتمی حل ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ میں اس بات کی ضمانت دیتا ہوں کہ اس ٹیکس کی ادائیگی کے بعد ایف بی آر آپ کو اس بارے میں سوال پوچھنے کا مجاز نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ صنعتی اداروں اور دیگر کاروبار کو پہلے سال میں 50 فیصد ابتدائی ڈپریسی ایشن چارجز کو ایڈجسٹ کرنے کی اجازت ہے جو صنعتی اداروں کے لئے اضافی بوجھ اور مالی مشکلات کا باعث بن رہا ہے۔ لہذا میں ابتدائی ڈپریسی ایشن قدر کی مد میں پہلے سال 100 فیصد ایڈجسٹمنٹ کی اجازت دینے کی تجویز پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ ٹیکس نظام میں خام مال کی درآمد پر وصول کیا گیا ایڈوانس انکم ٹیکس عام طر پور ایڈجسٹ نہیں کیا جا سکتا جس سے کاروباری طبقے کے ورکنگ کیپٹل کو شدید نقصان پہنچتا ہے اور ان کا کاروبار بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ لہذا یہ تجویز دی جاتی ہے کہ درآمد کے وقت صنعتی اداروں سے حاصل ہونے والے تمام ٹیکسوں کو ایڈجسٹ ایبل قرار دیا جائے۔

انہوں نے بجٹ کے عوام دوست نکات اور معیشت کے پیداواری شعبوں میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے فروغ کے لئے تجاویز پیش کرتے ہوئے بتایا کہ میری یہ تجاویز غیر پیداواری شعبوں میں ہونے والی سرمایہ کاری کو پیداواری شعبوں کی طرف منتقل کرنے کی کاوش ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ صاحب حیثیت افراد کی دولت کا بڑا حصہ پاکستان کے رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں موجود ہے۔ یہ دو دھاری تلوار ہے۔ اس سے ایک طرف غیر پیداواری اثاثے جمع ہوتے ہیں تو دوسری طرف غریب اور کم آمدنی والے طبقوں کے لئے مکانات کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔

لہذا ہم اس عدم توازن کو درست کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ لہذا وہ تمام افراد جن کی ایک سے زائد منقولہ جائیداد پاکستان میں واقع ہے اور جس کی مالیت 25 ملین روپے سے زیادہ ہے، اس پر فیئر مارکیٹ ویلیو کے 5 فیصد کے برابر فرضی آمدن/کرایہ تصور کیا جائے گا جس کے نتیجے میں پراپرٹی کی فیئر مارکیٹ ویلیو کے 1 فیصد ٹیکس کی شرح موثر ہوگی۔ تاہم ہر کسی کا ایک عدد ذاتی رہائشی گھر اس ٹیکس سے مستثنی ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ موجودہ معاشی مشکلات صاحب حیثیت افراد سے جذبہ ایثار و قربانی کا تقاضا کرتی ہیں اور ضرورت اس امر کی ہے کہ صاحب ثروت طبقہ آگے بڑھ کر قومی تعمیر و ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے۔ لہذا ہم ٹیکس کا ایک ایسا نظام وضع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جہاں تمام طبقات ے اثاثوں پر مساوی طریقے سے ٹیکس لگایا جائے۔

اب پاکستان میں واقع منقولہ جائیداد کے کیپیٹل گین پر ایک سال ہولڈنگ پیریڈ کی صورت میں 15 فیصد ٹیکس لاگو کرنے کی تجویز ہے جو ہر سال ڈھائی فیصد کی کمی کے ساتھ چھ سال کے ہولڈنگ پیریڈ کی صورت میں صفر ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ فائلرز کے لئے پراپرٹی کی خرید و فروخت پر ایڈوانس ٹیکس کی شرح موجودہ شرح 1 فیصد سے بڑھا کر 2 فیصد کرنے کی تجویز ہے جبکہ نان فائلرز کی حوصلہ شکنی کرنے کے لئے پراپرٹی کے خریداروں کے لئے ایڈوانس ٹیکس کی شرح بڑھا کر 5 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ انہوں نے کہا کہ کون نہیں جانتا کہ پاکستان اس وقت سنگین معاشی حالات سے دوچار ہے۔ لہذا وقت کا اہم تقاضا ہے کہ صاحب جائیداد طبقہ آگے بڑھے اور اپنے وسائل اور آمدن کے مطابق اپنے حصے کا پورا ٹیکس ادا کر کے اہم قومی ذمہ داری نبھائے اور غریبوں کی دعائیں لے۔

وقت آن پہنچا ہے کہ ٹیکس کا بوجھ غریب سے امیر کی طرف منتقل کرنے کے لئے تمام افراد بشمول کمپنیوں اور اے او پیز جن کی سالانہ آمدن تین سو ملین یا اس سے زائد ہو ان پر 2 فیصد ٹیکس ادا کرنے کی تجویز ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ صاحب حیثیت طبقے پر ٹیکس کا بوجھ منتقل کرنے کی ہماری اس پالیسی کے تسلسل میں 1600 سی سی سے زیادہ کی موٹر گاڑیوں پر ایڈوانس ٹیکس بڑھانے کی تجویز ہے۔ مزید برآں الیکٹرک انجن کی صورت میں قیمت کے 2 فیصد کی شرح سے ایڈوانس ٹیکس بھی وصول کیا جائے گا۔ اسی طرح نان فائلرز کے لئے ٹیکس کی شرح کو موجودہ 100 فیصد سے بڑھا کر 200 فیصد کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ بینکنگ سیکٹر نے اعلی شرح سود اور سرکاری سیکیورٹیز میں محفوظ سرمایہ کاری کی وجہ سے غیر معمولی آمدن حاصل کی ہے۔ لہذا ٹیکس کی حقیقی صلاحیت کو حاصل کرنے کے لئے بینکنگ کمپنیوں پرٹیکس کی موجودہ شرح 39 فیصد سے بڑھا کر 42 فیصد کرنے کی تجویز ہے جس میں سپر ٹیکس بھی شامل ہے۔

وزیر خزانہ نے قومی معیشت کو دستاویزی بنانے کے لئے میں اہم تجاویز پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ٹیکس کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لئے رہائشی شخص کو متعین کرنے کے معیار میں ترمیم کی جا رہی ہے۔ صاحب حیثیت افراد کی جانب سے موجودہ سسٹم کا ناجائز استعمال کیا جا رہا ہے جس کے تحت وہ کسی بھی ملک کے ٹیکس ریذیڈنٹ نہیں ہیں لہذا تجویز ہے کہ پاکستان کا کوئی بھی شہری جو کسی دوسری ملک کا ٹیکس ریذیڈنٹ نہیں اسے پاکستان کا ٹیکس ریذیڈنٹ سمجھا جائے گا۔ کریڈٹ، ڈیبٹ اور پری پیڈ کارڈز کے ذریعے پاکستان سے باہر رقم بھیجنے والے فائلرز کے لئے 1 فیصد اور نان فائلرز افراد سے 2 فیصد کی شرح سے ایڈوانس ودہولڈنگ ٹیکس وصول کیا جائے گا تاہم یہ ٹیکس واجب الادا ٹیکس کے خلاف ایڈجسٹ ایبل ہوگا۔

ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کی وصولی میں ان لینڈ ریونیو نے ایف بی آر کے مجموعی ٹیکس محصولات میں صحت مند اضافہ کیا ہے۔ مالیاتی خسارے کو پورا کرنے کی ضرورت کے پیش نظر یہ ضروری ہے کہ حکومت وسیع تر قومی مفاد میں سخت فیصلے کرے اور وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کی قیادت میں حکومت نے عملی طور پر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ ایسے فیصلے لینے کی صلاحیت اور ارادہ رکھتی ہے۔ سیلز ٹیکس ریونیو دراصل قومی محصولات میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے لیکن وزیراعظم کے وژن کے مطابق موجودہ بجٹ کی تجاویز کا مقصد ان شعبوں پر ٹیکس لگانا ہے جو یا تو ٹیکس نیٹ سے باہر رہ گئے ہیں یا دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنی اصل صلاحیت کے مطابق ٹیکس ادا نہیں کر رہے۔

انہوں نے کہا کہ جہاں حکومت، وزیراعظم پاکستان کے وژن کے مطابق ٹیکس بیس کو وسیع کر کے اور ٹیکس نادہندہ شعبوں پر توجہ مرکوز کر کے محصولات میں اضافہ کرنا چاہتی ہے وہیں حکومت ٹیکسوں میں ریلیف کو بھی بڑھانا چاہتی ہے تاکہ ملک میں عام آدمی کو فائدہ پہنچ سکے۔ پاکستان توانائی کی شدید قلت کا شکار ہے۔ ایندھن کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں جس کی وجہ سے تھرمل انرجی مہنگی ہے۔ قابل تجدید توانائی کو آگے بڑھانا ہی ممکنہ راستہ ہے۔

تہذا سولر پینلز کی درآمد اور مقامی سپلائی کو سیلز ٹیکس سے استثنی دینے کی تجویز ہے۔ اس کے علاوہ 200 یونٹ سے کم بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو سولر پینل کی خریداری پر بینکوں سے آسان اقساط پر قرضے دلائے جائیں گے۔ اس سے ماحول دوست طریقے سے بجلی پیدا کرنے کو فروغ حاصل ہوگا اور درآمد شدہ مہنگے تیل اور گیس کے استعمال میں کمی قواع ہوگی۔ زراعت کو آسان بنانے کے لئے ٹریکٹرز، زرعی آلات، گندم، مکئی، کینولا، سورج مکھی اور چاول سمیت مختلف اجناس کے بیجوں کی سپلائی پر سیلز ٹیکس واپس لینے کی تجویز ہے۔

خیراتی ہسپتال صحت کی سہولیت کی فراہمی میں بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔ خیراتی ہسپتالوں کو درآمد/عطیات اور 50 یا اس سے زیادہ بستروں والے خیراتی / غیر منافع بخش ہسپتالوں کو بجلی سمیت مقامی سپلائیز پر مکمل چھوٹ دینے کی تجویز ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس دہندگان کو سہولت فراہم کرنے کے لئے تنازعات کے متبادل حل کے میکانزم کے اندر بنیادی تبدیلیاں تجویز ہیں، جس کے مطابق اب ٹیکس دہندگان جن پر 10 کروڑ یا زیادہ کی ٹیکس ڈیمانڈ ہو وہ اے ڈی آر سی سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ نئے میکانزم کے تحت ٹیکس دہندہ اے ڈی آر سی میں اپنا نمائندہ اپنی مرضی سے نامزد کر سکتا ہے۔

دوسرا نمائندہ ایف بی آر کا آفیسر اور تیسرا نمائندہ ٹیکس دہندگان اور ایف بی آر کی باہم رضامندی سے نامزد ہو گا۔ اس میکانزم کی بدولت تین میں سے دو ممبران ٹیکس دہندہ کی مرضی سے نامزد ہوں گے۔ نہ صرف حقیقی سوال بلکہ قانونی سوال بھی کمیٹی میں لائے جا سکتے ہیں اور فیصلہ اتفاق رائے کی بجائے اکثریت رائے سے ہو گا۔ لہذا میں تمام ایسے ٹیکس دہندگان کو دعوت ہوں کہ وہ اس سہولت سے بھرپور فائدہ اٹھائیں۔ میں تمام کاروباری لوگوں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ عدالتوں میں سے اپنے مقدمے واپس لیں تو حکومت فوری طور پر ان کے ساتھ اے ڈی آر سی کے ذریعے معاملات طے کر لے گی۔ اس طریقہ کار کو اپنانے سے عدالتوں پر بوجھ کم ہو گا اور عوام کو سہولت میسر آئے گی۔

انہوں نے کہا کہ اس بجٹ میں زراعت سے متعلق فارم میکانائزیشن اور لاجسٹکس کیلئے بہت سے امدادی اقدامات کئے گئے ہیں۔ زرعی شعبے اور ملک میں موجود کسان بھائیوں کو ریلیف دینے کیلئے زرعی مشینری پر کسٹم ڈیوٹی ختم کر دی گئی ہے جس میں آبپاشی، نکاسی آب، کاشتکاری، فصلوں کی کٹائی اور اس کی پروسیسنگ، گرین ہائوس فارمنگ اور پودوں کو محفوظ بنانے کے آلات وغیرہ شامل ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ دیگر زرعی صنعتوں کے سازوسامان، مشینری اور زرعی شعبے پر قائم صنعتوں کیلئے بھی کسٹم ڈیوٹی ختم کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں صنعتی معیشت کو فروغ دینے اور مزید مضبوط بنانے کیلئے مختلف مینوفیکچرنگ سیکٹرز سے متعلق تقریبا 400 ٹیرف ہیڈنگز پر کسٹمز ڈیوٹی، اضافی کسٹمز ڈیوٹی اور ریگولیٹری ڈیوٹی کو ریشنلائز کیا گیا ہے۔

ملک میں ریگولیٹری ڈیوٹی نظام کا جائزہ لیا گیا ہے اور بہت سی اشیا پر ریگولیٹری ڈیوٹی کو یا تو ختم کر دیا گیا ہے یا کم کر دیا گیا ہے تاہم یہ بتانا ضروری ہے کہ بہت سے معاملات میں ریگولیٹری ڈیوٹی اس لئے لگائی گئی ہے تاکہ مقامی صنعتوں کو تحفظ دیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ ٹیکسٹائل کا شعبہ ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے لہذا اس پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے اس لئے اس شعبے کے دیرینہ مطالبے کو پورا کرتے ہوئے مصنوعی دھاگے پر ٹیرف کا ڈھانچہ ریشنلائز کیا گیا ہے۔ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ فارماسیوٹیکل سیکٹر کی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے 30 سے زیادہ ایکٹو فار سیوٹیکل انگریڈنٹس کو کسٹم ڈیوٹی سے مکمل استثنی دے دیا گیا ہے۔اس کے علاوہ فرسٹ ایڈ بینڈیجز بنانے والی صنعت کے خام مال کو بھی کسٹم ڈیوٹی سے مزید استثنی دیا گیا ہے تاکہ اس اہم میڈیکل آئٹم کی مقامی سطح پر پیداوار کی لاگت مزید کم ہو سکے۔ اس کے علاوہ کئی دوسرے شعبوں میں بھی ٹیرف سے چھوٹ اور رعایتیں دی گئی ہیں۔
واپس کریں