دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آزاد کشمیر اسمبلی میں راجہ فاروق حیدر کی تحریک التوا پر15ویں آئینی ترمیم کے خلاف حکومتی اور اپوزیشن ارکان کا اتفاق
No image مظفرآباد22جولائی2022( کشیر رپورٹ)آزاد جموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی نے عبوری آئین ایکٹ 1974 میں تیرہویں ترمیم کے ذریعے حاصل ہونے والے اختیارات کے تحفظ، ریاست جموں وکشمیر کی جغرافیائی حیثیت میں تبدیلی اور ریاستی وسائل کی فروخت کے خلاف متفقہ مزاحمت کا اعلان کیا ہے۔ جمعہ کے روز سابق وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان کی تحریک التوا پر بحث سمیٹتے ہوئے حکومتی اور اپوزیشن ممبران نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ 84471مربع میل پر پھیلی ریاست جموں وکشمیر کے عوام کے حق خودارادیت سمیت ریاست جموں وکشمیر کے تشخص اور آزاد کشمیر حکومت کے اختیارات میں اضافے کے لئے منظور کی گئی تیرہویں ترمیم کے خاتمہ کیلئے کسی قسم کے دبا ئوکو خاطر میں نہ لایا جائیگا۔
راجہ فاروق حیدر خان کی تحریک التوا ایوان میں بحث کیلئے متفقہ طور پر منظور کی گئی جس کے حق میں گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعظم فاروق حیدر خان نے آزاد جموں وکشمیر کے قیام اور موجودہ پارلیمانی نظام کے حصول تک تاریخی دستاویزات کی روشنی میں کی گئی جدوجہد پر روشنی ڈالی اور دوٹوک اعلان کیا کہ ہر محب وطن نیشنلسٹ ہوتا ہے یہ نیشنلسٹ اور سب نیشنلسٹ کی فضول باتیں ہمیں نہ پڑھائی جائیں۔ آزاد کشمیر کا ہر شہری ریاست پاکستان کے ساتھ وفادار ہے۔ ریاست پاکستان کے ساتھ کسی کو کوئی اختلاف نہیں تاہم آزاد کشمیر میں کسی کو ریاست پاکستان کو گالیاں دینے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ موجودہ نظام اسلاف کی جدوجہد اور باپ دادا کی قربانیوں کا نتیجہ ہے جس کا ہر قیمت پر تحفظ کرینگے۔ انہوں نے کہا کہ ہم قید و بند سے نہیں گھبراتے اور نہ ہی کسی سے ڈرتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے مالک بزدل ہیں۔
سابق وزیراعظم راجہ فاروق حیدر نے ایوان کو بتایا کہ جون 1946 میں جو قرارداد آزاد کشمیر منظور ہوئی تھی اس کے سیاق و سباق بالکل واضح تھے۔ اے آر ساغر مرحوم کی تحریر کردہ یہ قرارداد اپنے متن کے اعتبار سے ایک جامع دستاویز ہے۔ یہ قرار داد اس وقت مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ نے منظور کی جس کا اجلاس مظفرآباد میں ہونا تھا مگر موسمی حالات کی وجہ سے سرینگر منتقل کیا گیا۔ اس قرارداد میں الحاق ہندوستان اور پاکستان کے علاوہ ریاست کی خود مختاری کا آپشن بھی زیر غور لایا گیا تھاتاہم ریاست کے اندر مقیم اسی فیصد مسلم آبادی اور قدرتی راستوں کی پاکستان کی طرف ہونے کی وجہ سے الحاق پاکستان قابل عمل تجویز ٹھہرا جس میں دفاع، مواصلات، امور خارجہ کے شعبہ جات پاکستان کی اسمبلی کے سپرد کرنے کی منظوری ہوئی۔ 1947 میں عبوری حکومت کے قیام کے اعلان میں جو سرکاری گزٹ میں شائع ہوا یہی اعلان موجود ہے جو سردار ابراہیم کی کتاب کشمیر ساگا میں بھی موجود ہے۔ آزاد کشمیر کو موجودہ حالت میں پہنچنے کے لئے طویل اور صبر آزما جدوجہد سے گزرنا پڑا۔ 1950 میں ایک انتظامی ڈھانچہ سامنے آیا اس سے پہلے 1949 میں کراچی میں قائداعظم کے انتقال کے بعد حکومت پاکستان، حکومت آزاد کشمیر اور مسلم کانفرنس کے مابین معاہدہ کراچی ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ریاستوں کے مستقبل کے حوالے سے اگر مہاراجے کا الحاق درست ہے تو دیگر الحاق بھی درست ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ آزاد کشمیر کو جمہوری حقوق کے حصول کے لئے 1951اور 1955میں مسلح بغاوت کرنا پڑی۔ یہ آئین ساز اسمبلی یونہی حاصل نہیں ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ 1952میں رولز آف بزنس کے نام سے سیٹ اپ دیا گیا جس میں وزارت امور کشمیر کا کردار شامل کیا گیا۔ یہ دفعہ 370طرز کا اختیار تھا جسے وزارت امور کشمیر نے تسلیم کرنا تھا مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر میں عوامی حقوق کے حوالے سے ہندوستان اور پاکستان نے بعض معاملات میں ایک دوسرے کی پیروی کی۔ ایکٹ 1970 میں بلدیاتی نظام آیا اسی دوران سٹیٹ کونسل بنی، ایکٹ 1964میں جائنٹ سیکرٹری کو صدر آزاد کشمیر نامزد کرنے کا اختیار دیا گیا۔ جائنٹ سیکرٹری سیاہ و سفید کا مالک تھا جو حکومت کو بھی برطرف کرسکتا تھا۔ سب سے زیادہ تذلیل 1968کے ایکٹ میں کی گئی جس میں باضابطہ طور پر آزاد کشمیر کو میونسپل کمیٹی سے بھی نیچے کا درجہ دیا گیا۔ اس عمل کے لئے 1897 کے کسی لوکل اتھارٹی ایکٹ کا حوالہ دیاجاتا رہا۔ 1955 میں لاہور میں منعقد ہونے والے آل
پارٹیز کانفرنس میں اس وقت کے وزیراعظم چوہدری محمد علی جو کشمیریوں کے لئے اچھی رائے رکھتے تھے اور اس آل پارٹیز کانفرنس میں حسین شہید سہروردی نے آزاد کشمیر کے اندر ایک نمائندہ، باعمل اور موثر حکومت کے قیام کے لئے قرارداد پیش کی جس کی تائید ممتاز دولتانہ نے کی۔ یہ قرارداد اعظم نذیر تارڑ نے نہیں پیش کی تھی۔ ایکٹ 1964اور ایکٹ 1968 کی مخالفت میں اتحاد ثلاثہ قائم ہوا جس میں سردار ابراہیم، سردار عبدالقیوم اور کے ایچ خورشید نے جدوجہد کی اور اس جدوجہد کے نتیجہ میں ایکٹ 1970 کا نفاذ کیا گیا جس کے تحت پہلے قانون ساز اسمبلی اور پھر صدر آزاد کشمیر کا انتخاب ہوا۔ 5ستمبر 1978 کو ایک نوٹیفکیشن کے تحت آزاد کشمیر میں سیکرٹری جنرل کو چیف سیکرٹری بنایا گیا۔ راجہ فاروق حیدر خان نے کہا کہ ہمارے اسلاف نے ایسا وقت اور ماحول بھی دیکھا ہے جب ایک جائنٹ سیکرٹری نے کے ایچ خورشید مرحوم سے متعلق ایک خط کے ذریعے شکایت کی کہ مسٹر خورشید حکومتی معاملات میں مداخلت کرتے ہیں۔ کے ایچ خورشید اس وقت صدر آزاد کشمیر تھے۔ انہوں نے کہا کہ 1970 میں قائم ہونے والے اسمبلی کا اجلاس بیڈمنٹن کورٹ میں ہوتا تھا۔ ممبران اسمبلی کو 25روپے اعزازیہ یومیہ اور 400روپے ماہانہ اعزازیہ ملتے تھے۔ اس وقت 25پیسے یومیہ پر کرسیاں کرائے پر لی جاتی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ قانون ساز اسمبلی کی عالیشان عمارت قائم کرنے کا مقصد جدوجہد کے ذریعے حاصل ہونے والی منزل کو شایان شان بنانا ہے۔ یہ عمارتیں حاکمیت اور اتھارٹی کی علامت ہوتی ہیں۔ وزارت امور کشمیر نے ہمیشہ ریشہ دوانیاں کیں اور کشمیر کونسل کے ذریعے اختیارات پر شب خون مارا۔ ہماری سادہ لوح قیادت اس بات پر خوش رہی کہ کشمیر کونسل کے چیئرمین بھٹو ہونگے تو انہیں کیا فکر ہے۔ کیا پتہ تھا کہ انہیں دو سال بعد پھانسی دے دی جائیگی۔راجہ فاروق حیدر خان نے کہا کہ ایک وقت تھا کہ جب میں دریائے جہلم کے اس پار آتا تھا تو آگے ایکسائز و ٹیکسیشن آزاد جموں وکشمیر کونسل کا بورڈ دیکھ کر دل کرتا تھا کہ اللہ تعالی ایک مرتبہ موقع دے تاکہ اس سے جان چھڑاں اور پھر اللہ نے موقع دیا اور ہم نے اس سے آزادی لی۔
راجہ فاروق حیدر نے کہا کہ تیرہویں ترمیم کی منظوری کیلئے طویل عرصہ صبر آزما جدوجہد کی۔ اس سلسلہ میں میاں نواز شریف قائد مسلم لیگ ن، اس وقت کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور تمام سٹیک ہولڈرز کا شکر گزار ہوں۔ آزاد کشمیر میں منتخب صدر اور وزیراعظم، سپریم کورٹ موجود ہے جو لوگ آج مختلف امور میں ٹانگیں اڑا رہے ہیں اس وقت بھی سرگرم تھے اور ٹانگیں اڑاتے رہے۔ آزاد کشمیر اسمبلی عبوری آئین کی دفعہ 33اور 56میں ترمیم نہیں کرسکتی باقی معاملات میں مکمل بااختیار ہے۔ آج تک پاکستان کی وفاقی کابینہ نے آزاد کشمیر میں آئینی ترمیم کی منظوری نہیں دی۔ ہمیں کہا گیا کہ دستخط کردیں بعد میں دیکھیں گے تو میں کوئی بے وقوف نہیں۔ اس موقع پر انہوں نے مختلف دستاویزات ایوان میں لہراتے ہوئے کہا کہ ایکٹ 74 اور عبوری آئین 1974 میں واضح فرق دیکھ رہے ہیں۔ 1985 کے رولز آف بزنس اور ہمارے بنائے ہوئے رولز آف بزنس کو بھی دیکھ لیں۔
راجہ فاروق حیدر خان نے انکشاف کیا کہ انہیں مجبور کیا جارہا تھا کہ چیف سیکرٹری اور آئی جی کے نام آئین میں درج کرکے انہیں اختیار دیا جائے کہ وہ کسی بھی سیاسی شخصیت یا جماعت پر پابندی عائد کرسکیں۔ ہم نے کابینہ کی منظوری کے بغیر غداری کے مقدمات کا اندراج کا قانون بنایا۔ اس سے پہلے ہر تیسرے دن بغاوت کے مقدمات درج کرنے کیلئے پہنچ آتے تھے۔ خوامخواہ والے ہر دور میں متحرک رہتے ہیں۔ ہم نے کابینہ کا اجلاس منعقد کرکے تیرہویں ترمیم میں کسی قسم کے ردوبدل سے انکار کیا اورباضابطہ اعلامیہ جاری کیا اور کابینہ پر اس سے دستخط بھی لئے۔ آزاد کشمیر کی جغرافیائی حیثیت بدلنے کا اختیار کسی کو حاصل نہیں۔ 1957 کی سلامتی کونسل کی قرارداد میں یہ بات دونوں ملکوں نے تسلیم کررکھی ہے۔ سابق وزیراعظم نے اس موقع پر کہا کہ کھل کر سامنے کیوں نہیں آتے؟ سامنے آکر بات کریں اور یہ بات مانیں کہ لائن آف کنٹرول کو بین الاقوامی بارڈر بنانا چاہتے ہیں۔ آپ ہندوستان کے ساتھ سو سالہ معاہدہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہم نے آپ کو نہیں روکا، آپ کشمیریوں کو جدوجہد آزادی سے نہیں روک سکتے اور نہ ہی مسئلہ کشمیر کو ختم کرسکتے ہیں جب تک ایک بھی کشمیری زندہ ہے۔ نہ یہ نظام ختم ہو گا اور نہ ہی تحریک آزادی۔ دس ہزار سال کیوں نہ لگ جائیں کشمیری اپنے حقوق سے دستبردار نہیں ہوسکتے۔ جی بی کے معاملے پر اسلام آباد میں ایک میٹنگ میں دوٹوک انداز میں کہہ دیا تھا کہ کوئی کشمیری لیڈر اس پر دستخط نہیں کرے گا۔ آج بھی اسی طرح کے فیصلے مختلف نام دے کر ٹھونسنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہم پاکستان کے خیر خواہ ہیں دشمن نہیں۔ صرف چاہتے ہیں کہ نکاح کرکے لے جائیں بے نکاحے نہ رکھیں۔ رائے شماری ہونے دیں۔
راجہ فاروق حیدر خان نے کہا کہ بہت اچھا اور باعزت وقت گزار چکا ہوں اب کوئی خواہش باقی نہیں۔ لہذا طے کیا ہے کہ ریاستی تشخص کے تحفظ اور عوامی حقوق کے ساتھ ساتھ ریاستی وسائل پر ناجائز قبضوں کے خلاف مزاحمت کرینگے۔ جب تیرہویں ترمیم ہوچکی تو کہا گیا کہ آپ نے سیکشن کی جگہ آرٹیکل کیوں لکھا۔ کیا اس سے پاکستان کی سلامتی کو خطرہ ہے۔ دنیا بھر میں اصول ہے کہ کوئی ایسا ادارہ جو براہ راست عوام کا منتخب کردہ نہیں قانون سازی نہیں کرسکتا۔ مالیاتی اور انتظامی معاملات میں منتخب ادارے ہی بااختیار ہوتے ہیں۔ راجہ فاروق حیدر خان نے دوٹوک انداز میں کہا کہ ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت آزاد کشمیر کے اندر پاکستان گریز رجحان پیدا کیا جارہا ہے جو گہری سازش ہے اس کے پیچھے کون لوگ ملوث ہیں تھقیقات کی ضرورت ہے۔ انہوں نے حکومت آزاد کشمیر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وزیروں کی تعداد بڑھانے سے کیا حاصل ہوگا جب اختیار نہیں تو وزیر بن کر کیا کرینگے۔ اگر کوئی وزیر نہیں بن سکتا تو کیا وہ مرجائے گا۔ عوام کے حقوق کو فروخت نہیں ہونے دینگے۔ کسی قسم کا ڈر تھا نہ ہے، میری جو بھی جائیداد ضبط کرنی ہے کرلیں، نہ پہلے جھکا ہوں اور نہ اب جھکوں گا۔ بہت سے معاملات پر حلف کے تحت پابند ہوں بات نہیں کرسکتا کہ خرابی ہوجائے گی۔ کتاب لکھنا چاہتا ہوں اور یہ آنے والی نسلوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ اس ریاست، اداروں اور شخصیات کی کس قدر توہین کی جاتی رہی۔
سابق وزیراعظم نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا کہ ٹورازم اتھارٹی اور پندرہویں ترمیم کو کسی صورت قبول نہ کریں یہ آزاد کشمیر کسی صورت برائے فروخت نہیں ہے اگر ایسا ہے تو اپنا کام ہمیں دے دیں اور خود کارروبار کریں۔ فاروق حیدر نے اس موقع پر حبیب جالب کا مشہور شہر وطن سے الفت ہے جرم اپنا،، یہ جرم تا زندگی کرینگے، ہے کس کی گردن پہ خون ناحق، یہ فیصلہ تو لوگ کرینگے، وطن پرستوں کو کہہ رہے ہو وطن کا دشمن، ڈرو خدا جو آج ہم سے خطا ہوئی ہے وہ خطا کل سبھی کرینگے۔ انہوں نے کہا کہ میرے حلقہ انتخاب میں برادری کے 1500ووٹ ہیں جبکہ گائوں میں صرف 35ووٹ ہیں اس کے باوجود لوگوں نے اعتماد کیا اور یہاں تک پہنچایا۔ انہوں نے اپنے دور حکومت میں وزیراعظم ہائوس اور وزیراعظم آفس کے اندر ریکارڈ ڈیوائس ملنے کا انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ جب مجھے پتہ چلا کہ یہ ریکارڈنگ کی جارہی ہے تو میں نے اونچی آواز میں بولنا شروع کیا اور فرشتوں کے ایک صاحب نے کہا کہ آپ گالیاں بہت دیتے ہیں اور میں نے کہا کہ میں اور کوئی ایسا ویسا کام نہیں کرتا، زبان کی چاشنی کے لئے گالیاں بھی نہ دوں۔ اپنی ذمہ داریاں بطریق احسن پوری کی ہیں کہ ریاستی تشخص، عوامی حقوق اور اختیارات کی بحالی کیلئے اپنے حصے کا کام کیا ہے۔ اس جدوجہد میں ساتھ دینے پر اپنی جماعت، پارلیمانی پارٹی، کابینہ، اور پیپلز پارٹی کی قیادت بھی شکر گزار ہوں۔ انہوں نے تقریر ختم کرنے سے قبل فیض احمد فیض نثار میں تیری گلیوں پہ اے وطن کے جہاں،،، چلی ہے رسم کہ کوئی سر اٹھا کر نہ چلے کے مختلف اشعار بھی پڑھے۔
تقریر ختم کرنے سے قبل راجہ فاروق حیدر خان نے اختیار دینا نہیں لینا ہے بس یہ بات یاد رکھیں۔ جموں وکشمیر پیپلز پارٹی کے صدر حسن ابراہیم نے راجہ فاروق حیدر خان کی تقریر سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے اعلان کیا کہ حاصل شدہ اختیارات اور ریاستی تشخص کے خلاف اگر کسی نے اس ایوان کے اندر کوئی معاملہ پیش کیا تو وہ پھر ایوان سے باہر نہیں جاسکے گا۔ وزیر تعلیم سکولز دیوان چغتائی بھی راجہ فارو ق حیدر خان کے موقف کی تائید کی اور کہا کہ وزارتیں اپنی جگہ تاہم ریاستی تشخص، اختیارات اور عوامی حقوق پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرینگے۔ انہوں نے تیرہویں ترمیم کے ذریعے ریاستی حکومت کے اختیارات میں اضافے پر راجہ فاروق حیدر خان اور ان کی ٹیم کو خراج تحسین بھی پیش کیا۔ اپوزیشن ممبر بازل نقوی نے بھی پیش کی گئی تحریک کی حمایت کی۔

واپس کریں