دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
15ویں ترمیم کے حوالے سے آزاد کشمیر کی کابینہ کمیٹی خطرناک غلطی کی مرتکب ہو رہی ہے۔ JKCHRکے صدر ڈاکٹر سید نذیر گیلانی کا کمیٹی ارکان کے نام خط
No image لندن 5اگست.2022 ( کشیر رپورٹ) جموں کشمیر کونسل فار ہیومن رائٹس کے صدر ڈاکٹر سید نزیر گیلانی نے حکومت پاکستان کی وزارت امور کشمیر کی طرف سے آزاد کشمیر حکومت کوارسال کردہ15ویں آئینی ترمیم کے مسودے کے حوالے سے آزاد کشمیر کی خصوصی کابینہ کمیٹی کے نام ایک خط میں اس ترمیم کے حوالے سے اہم امور کی نشاندہی کی ہے۔ڈاکٹر سید نزیر گیلانی نے15ترمیم کے حوالے سے آزاد کشمیر کی11رکنی کابینہ کمیٹی کے نام تین صفحات پر مبنی اپنے خط میں کہا ہے کہ صدر آزاد کشمیر نے3جون.2022کو 15ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے امور کشمیر اور آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے بعد اپنی سفارشات پیش کرنے کے لئے کابینہ کمیٹی قائم کی ہے جس میں خواجہ فاروق احمد، سردار میر اکبر خان، ویوان علی خان ، چودھری محمد اکبر،عبدالماجد خان،اظہر صادق، ظفر اقبال ملک، سردار فہیم اختر،چودھری یاسر سلطان، سیکرٹری زراعت، سیکرٹری قانون ،پارلیمانی امور و انسانی حقوق،راجہ فاروق حیدر خان اور چودھری لطیف اکبر شامل ہیں۔کمیٹی اپنے اصول خود طے کرے گی اور اسے کسی دوسرے رکن کو شامل کرنے کا اختیار بھی حاصل ہے۔

ڈاکٹر گیلانی نے کہا کہ مجوزہ آئینی ترمیم آزاد کشمیر حکومت اور حکومت پاکستان کے تعلقات کار کا از خود تعین نہیں کر سکتے۔انہوں نے کہا کہ ریاست جموں وکشمیر کے ایک شہری اور کشمیر پر اقوام متحدہ کے فقہ پر کام کرنے کے حوالے سے میری یہ ذمہ داری ہے کہ یہ واضح کیا جائے کہ آزاد کشمیر حکومت ایک لوکل اتھارٹی ہے اور اپنے طور پرکشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کے ٹیمپلیٹ کے دائرہ کار کی خلاف ورزی نہیں کر سکتی،جیسا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار داد نمبر91اس کی وضاحت کرتی ہے کہ جموں و کشمیر اور آزادکشمیر یا دونوں دوسروں کے بغیر از خود کوئی فیصلہ کرنے کی مجاز نہیں ہیں۔اقوام متحدہ نے کشمیر کے عوام کی تعریف کی ہے اور سلامتی کونسل کی قرار داد نمبر47میں ان کی اقسام کا تعین کیا گیا ہے۔سرینگر، مظفر آباد اور گلگت بلتستان میں جو حکومتیں ریاست کے عوام کی ہوں گی،حکومت پاکستان نے عارضی طور پر آزاد کشمیر کی (لوکل اتھارٹی) کے تحت ذمہ داریاں سنبھالی ہیں۔اقوام متحدہ کمیشن انڈیا پاکستانUNCIPکی قرار دادیں،یہاں کے لوگوں کو اقوام متحدہ کے زیر نگرانی رائے شماری کی تیار ی اور اس کا حصہ بننے میں مدد کرنے کے لئے اور رائے شماری انتظامیہ کا حصہ ہونے کے طور پر ہے۔حکومت پاکستان کے ساتھ لوکل اتھارٹی کے تعلقات کشمیر پر یو این ٹیمپلیٹ کے مطابق ہونے چاہئیں، ریاست کی تینوں انتظامیہ میں رہنے والے لوگ ،جب تک کہ اقوام متحدہ کی زیر نگرانی رائے شماری نہ ہو۔

پاکستان کے آئین کے آرٹیکل257کے مطابق لوکل اتھارٹی اور پاکستان کے ساتھ حتمی تعلقات ، دو الگ الگ معاملات ہیں۔پہلا معاملہ اقوام متحدہ کے ٹیمپلیٹ، سانچے کے مطابق ہونا چاہئے اور دوسرا معاملہ آرٹیکل257کے نتیجے میں پاکستان کا آئین آزاد کشمیر کی حکومت، ان دونوں معاملات میں سے کسی ایک کو بھی از خود بنانے کا اختیار نہیں رکھتی۔ریاست کشمیر ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور یہاں کے عوام تقسیم ہیں۔ حکومت پاکستان کے ساتھ تعلقات میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار داد47کا پیراگراف1اور14aکو ملحوظ خاص رکھنا لازم ہے اور اس میں عوام کے مفادات کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ہندوستان کے طرف سے5 اگست 2019 کی کاروائی کے بعد آزاد کشمیر حکومت کی ذمہ داری میں اضافہ ہوا ہے اور اسے حکومت پاکستان کے ساتھ تعلقات کو از سرنو تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ہمارے، آزاد کشمیر کے قانون سازوں کو حکومت پاکستان سے یہ پوچھنا چاہئے کہ حکومت پاکستان آزاد کشمیر حکومت کو مکمل طور پر ایک مقامی اتھارٹی کے طور پر اختیار کی اجازت دے تا کہ آزاد کشمیر حکومت ہندوستان کی 5 اگست 2019 کی کاروائی کے خلاف موثر طور پر کام کر سکے۔

حکومت پاکستان کو کراچی معاہدے کے تحت اپنے حصے کے فرائض کی وضاحت کرنا ہو گی جو کہ آزاد کشمیر میں UNCIPکی قرار دادوں کے تحت اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے سانچے کے تحت قرار دیا گیا ہے۔بد قسمتی سے حکومت پاکستان نے نومبر 1965سے اقوام متحد کی سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر کو اٹھانے سے گریز کیا اورستمبر 1996 تک تقریبا 32 سال،ا ایک ایجنڈے کے طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کشمیر کی باقاعدگی حیثیت کو نقصان پہنچایا ہے۔ جنوری 2013 میں پاکستان کے پاس اقوام متحدہ کے پاس سلامتی کونسل کی صدارت تھی اس کے باوجود حکومت پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کشمیر نہیں اٹھایا۔

ڈاکٹر گیلانی نے کہا کہ کراچی معاہدہ اورUNCIPقرار دادوں کے تحت حکومت پاکستان اور آزاد کشمیر حکومت کے درمیان شراکت داری ہے، اس حوالے سے ادرہ جاتی نظم و ضبط کا تعین اور اس کی شرائط کا مکمل اطلاق ضروری ہے تاکہ آزاد کشمیر حکومت پاکستان حکومت کو اس کی ذمہ داریوں کی یاد دہانی کرا سکے۔اب 11رکنی کمیٹی پر یہ ذمہ داری عائید کی گئی ہے کہ وہ اپنے قواعد و ضوابط ، اصول مرتب کرے اور دوسرے ممبران کو بھی اس عمل میں شامل کرے۔اس حوالے سے کمیٹی کے ارکان کو مقدمہ کشمیر اور کشمیر کی جیورسپرڈنس ،فقہ کا ادراک کرنا اہم امر ہے۔اس حوالے سے کمیٹی کو
ا مور کشمیر،کشمیر کمیٹی کے علاوہ اپنے لوگوں سے بھی مشاورت کی ضرورت ہے کہ پاکستان کا دفتر خارجہ اس معاملے کا ادراک کرنے میں ناکام رہا ہے۔

ڈاکٹر گیلانی نے کہا کہ آزاد کشمیر حکومت کو بطور لوکل اتھارٹی حکومت پاکستان کے ساتھ اقوام متحدہ کے ٹیمپلیٹ اور سفارشات کے مطابق امور طے کرنا ہیں۔آزاد کشمیر حکومت کی اس11رکنی کمیٹی میں ' پی ٹی آئی ' کی نمائندگی کا غلبہ ہے اور کئی اہم فریقین کو اس میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔15ویں ترمیم پر غور اور سفارشات مرتب کرنے کے حوالے سے یہ بات بھی اہم ہے کہ وزار ت امور کشمیر کو اقوام متحدہ کی کشمیر ٹیمپلیٹ، سانچے کو نقصان نہیں پہنچانا چاہئے۔آزاد کشمیر کی لوکل اتھارٹی کی حیثیت میں حائل تمام رکاوٹوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔کابینہ کمیٹی کو اس بات کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ آزاد کشمیر کے صدر نے 8 جولائی 1948 کو سلامتی کونسل اور UNCIPکوجو خط لکھا تھا ، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے ملاقات کی تھی جس نے مارچ 1959 میں لوگوں کی سیاسی اور معاشی حالت کا جائزہ لینے کے لیے سرینگر کا بھی دورہ کیا تھا۔یہ امور کابینہ کمیٹی کے پیش نظر ہونے چاہئیں۔پاکستان کے ساتھ تعلقات کار کے تعین، ترمیم میں کشمیر ٹیمپلیٹ،فقہ کابینہ کمیٹی کے لئے رہنما اصولوں کے طور پر موجود ہے۔لہذا اس اہم معاملے میں کمیٹی کو از خود، تنہااقدامات نہیں کرنے چاہئیں اور کسی بھی بیوقوفانہ ،غلط اور مضر اقدام سے گریز کرنا چاہئے۔

ڈاکٹرسید نزیر گیلانی نے کہا کہ 15ویں ترمیم کے مجوزہ مسودے کی عوامی ،سیاسی حلقوں کی طرف سے شدید تنقید اور مخالفت کی گئی ہے اور جموں کشمیر کونسل فار ہیومن رائٹس بھی اس میں شامل ہے۔ہیومن رائٹس کونسل کی یہ ماہرانہ رائے ہے کہ یہ طریقہ کار حکمت کی غلط سمت ہے، اس سے کشمیر کاز کو شدید نقصان پہنچے گا اور آزاد کشمیر کے عوام کے علاوہ پاکستان میں مہاجرین جموں وکشمیر کے آزاد کشمیر کے حلقوں کے ووٹر اور بیرون ملک مقیم کشمیری بھی اس سے شدید متاثر ہوں گے۔15ویں ترمیم کے حوالے سے کابینہ کمیٹی اور طریقہ کار غیر شفاف ہے اور اس سے مناسب عوامی بحث کے تقاضے پورے نہیں ہوتے،اس معاملے میں 11رکنی کمیٹی ریاست اور اس کے عوام کے مفادات کو نقصان پہنچانے میں مجرمانہ طورپر ذمہ دار ہو گی۔15ویں ترمیم پر رازداری کی فضا غیر جمہوری ہے اور اسے جلد از جلد ختم کیا جانا چاہیے۔کشمیر کاز کے درج بالا بیان تمام پہلوئوں کے حوالے سے کمیٹی کے ارکان کے پاس مناسب علم اور فہم و فراست کا ہونا لازمی شرط ہے،ریاست اور اس کے باشندے متغیر قسم کی تفہیم کے خطرناک نتائج کے متحمل نہیں ہو سکتے ، اس صورتحال میں بھی کہ جب مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو دس لاکھ ہندوستانی فوج کے جبر کا سامنا ہے۔

صدرجموں کشمیر کونسل فار ہیومن رائٹس نے خط کے آخر میں کہا کہ میں ادب کے ساتھ یہ بھی واضح کرتا ہوں کہ آزاد کشمیر کا موجودہ سیٹ اپ یا اس کا کوئی بھی ممبر ، اس سیٹ اپ کو دوبارہ تعین میں بڑے خطرات سے ڈیل کر رہے ہیں، یہ حکومت آزاد کشمیر اور حکومت پاکستان پر اعتماد کا کمپاس بھی ہے، مجوزہ15ویں ترمیم کے علمبردار کشمیر کے پاکستان کے دوست نہیں ہو سکتے بلکہ کشمیر اور پاکستان کے وسیع تر مفادات کو مہلک اور دیرپا اثرات پر مبنی نقصانات سے دوچار کرنے کے درپے ہیں۔ہم لوگوں کی برابری اور ان کے حق خود ارادیت کے اصول پہ کھڑے ہیں۔
واپس کریں