دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ہماری جدوجہد وزیر اعظم عمران خان نہیں انھیں لانے والوں کے خلاف ہے، ہم حکومت نکال کر جمہوریت بحال کر کے رہیں گے۔محمد نواز شریف
No image اسلام آباد۔ سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے کہا ہے کہ ان کی جدوجہد پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم عمران خان کے خلاف نہیں بلکہ انھیں اقتدار میں لانے والوں کے خلاف ہے۔اسلام آباد میں اتوار کو منعقدہ اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے کہاکہ سابق وزیر اعظم یوسف گیلانی نے کہا تھا ملک میں ریاست کے اندر ریاست ہے۔ لیکن اب معاملہ ریاست سے بالاتر ریاست تک پہنچ گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں جمہوریت کمزور ہو گئی ہے اور عوام کی حمایت سے کوئی جمہوری حکومت بن جائے تو کیسے ان کے خلاف سازش ہوتی ہے اور قومی سلامتی کے خلاف نشان دہی کرنے پر انھیں غدار قرار دے دیا جاتا ہے۔ وہ اس اے پی سی کو فیصلہ کن موڑ سمجھتے ہیں اور ایک جمہوری ریاست بنانے کے لیے ضروری ہے کہ مصلحت چھوڑ کر فیصلے کیے جائیں۔'جمہوری ریاست بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی تاریخ پر نظر ڈالیں اور بیباک فیصلے کریں۔ آج نہیں کریں گے تو کب کریں گے۔
نواز شریف نے کہا کہ پاکستان کو ہمیشہ جمہوری نظام سے مسلسل محروم رکھا گیا ہے، جمہوریت کی روح عوام کی رائے ہوتی ہے، جس کا مطلب ہے کہ ملک کا نظام وہ لوگ چلائیں جنھیں لوگ ووٹ کے ذریعے حق دیں۔انھوں نے کہا کہ آئین کے مطابق جمہوری نظام کی بنیاد عوام کی رائے ہے، جب ووٹ کی عزت کو پامال کیا جاتا ہے تو جمہوری عمل بے معنی ہو جاتا ہے، انتخابی عمل سے قبل یہ طے کر لیا جاتا ہے کہ کس کو ہرانا کس کو جتانا ہے، کس کس طرح سے عوام کو دھوکا دیا جاتا ہے، مینڈیٹ چوری کیا جاتا ہے۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف نے کہا کہ پاکستان کو ایسے تجربات کی لیبارٹری بنا کر رکھ دیا گیا ہے، اگر کوئی حکومت بن بھی گئی تو اسے پہلے بے اثر پھر فارغ کر دیا جاتا ہے، بچے بچے کی زبان پر ہے کہ ایک بار بھی منتخب وزیراعظم کو مدت پوری نہیں کرنے دی گئی۔ آئین پر عمل کرنے والے ابھی تک کٹہروں اور جیلوں میں ہیں لیکن کیا کبھی کسی ڈکٹیٹر کو سزا ملی؟ ڈکٹیٹر کو بڑے سے بڑے جرم پر کوئی اسے چھو بھی نہیں سکتا، کیا کسی ڈکٹیٹر کو سزا ملی؟ ایک ڈکٹیٹر پر مقدمہ چلا خصوصی عدالت بنی، کارروائی ہوئی، سزا سنائی گئی لیکن کیا ہوا؟
انہوں نے کہاکہ ہمیں اس کانفرنس کو بامقصد بنانا ہوگا۔ یہ ٹرینڈ آصف زرداری صاحب نے سیٹ کیا ہے اسی کو لے کر جانا ہو گا۔72 برس سے پاکستان کو کن مسائل کا سامنا ہے اس کی صرف اور صرف ایک وجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ پاکستان کو جمہوری نظام سے مسلسل محروم رکھا گیا ہے۔نواز شریف نے کہا کہ عوام کی رائے پر جمہوریت کی بنیاد ہے۔ دنیا بھر میں یہی اصول ہے۔ جب جمہوریت کی بنیاد پر ضرب لگتی ہے تو سارا نظام جعلی ہو کر رہ جاتا ہے۔ حکومت بن بھی جائے تو سازش سے اسے بے اثر اور پھر فارغ کر دیا جاتا ہے۔ ریاستی ڈھانچہ اس سے کمزور ہوتا ہے اور عوام کا اعتماد اٹھ جاتا ہے۔
نواز شریف نے اپنے خطاب میں آصف زرداری کا شکریہ بھی ادا کیا اور ان کی صحت کے لیے نیک تمنائیں بھی دی۔ ان کا کہنا تھا 'محترم آصف زرداری صاحب اللہ آپ کو بھی صحت عطا کرے۔ میری دعائیں آپ کے لیے اور بلاول کے لیے ہیں۔ ان سے پرسوں بات کر کے مجھے بہت خوشی ہوئی۔ جس پیار محبت سے انھوں نے بات کی میں نہیں بھولوں گا۔'
مقبول عام رہنما نواز شریف نے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ ان سوالوں کے جواب لیے جائیں۔ دو وزیر اعظم موجود ہیں وہ جانتے ہیں کہ سول حکومت کے گرد کس طرح کی رکاوٹیں ہوتی ہیں۔ ایسی کارروائیاں ہوتی ہیں جن کا وزیر اعظم یا صدر کو علم نہیں ہوتا۔ان کارروائیوں کی بھاری قیمت ریاست کو ادا کرنی ہوتی ہے۔ اکتوبر 2016 میں قومی سلامتی کے امور پر بحث کے دوران توجہ دلائی گئی کہ دوستوں سمیت دنیا کو ہم سے شکایت ہے ہمیں ایسے اقدامات کرنے ہوں گے کہ دنیا ہم پر انگلی نہ اٹھائے تو اسے ڈان لیکس کا نام دیا اور ایجنسیوں کے اہلکاروں کی جے آئی ٹی بنی اور مجھے غدار اور ملک دشمن بنا دیا گیا۔ایک ٹویٹ میں 'مسترد' کا ٹائٹل دے دیا گیا۔ سی پیک کو ناکام بنانے کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب چینی صدر کا دورہ منسوخ کرایا گیا۔ چین ہمارا دوست ہے۔ صدر شی جن پنگ کا کردار باعث تعریف ہے۔ لیکن یہ منصوبہ نااہلی کا شکار ہو رہا ہے۔
ملک بے امنی اور افراتفری کا گڑھ بن چکا ہے، پاکستان کی خارجہ پالیسی بنانے کا اختیار عوامی نمائندے کے پاس ہونا چاہیے، ہم کبھی ایف اے ٹی ایف کبھی کسی اور فورم میں کھڑے جواب دے رہے ہوتے ہیں، ایک غیر مقبول کٹھ پتلی حکومت کو دیکھ کر بھارت نے کشمیر کو اپنا حصہ بنا لیا، کیوں آج دنیا ہماری بات سننے کو تیار نہیں؟ کیوں ہم تنہائی کا شکار ہیں؟
انہوں نے کہا کہ آمر کے بنائے ادارے نیب کو برقرار رکھنا ہماری غلطی تھی۔ یہ اندھے حکومتی انتقام کا اعلی کار بن چکا ہے۔ اس ادارے کے چیئرمین جاوید اقبال کی خلاف کارروائیوں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا، نہ عمران خان کے کان پر کوئی جو رینگتی ہے۔سابق وزیر اعظم نے کہا کہ بہت جلد انشا اللہ ان سب کا یوم حساب آئے گا۔ بین الاقوامی ادارے اور ہماری عدالتیں اس کے کردار کو بیان کر چکی ہیں۔ یہ ادارہ اپنا جواز کھو چکا ہے۔ اپوزیشن کے لوگ اس کا نشانہ بنے ہوئے ہیں اور گھر کی خواتین کے ساتھ نیب کے دفتروں اور جیلوں میں رل رہے ہیں۔ نیب نہیں تو ایف آئی اے، اینٹی نارکوٹکس کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔
انھوں نے کہا سینیٹ میں انتخابات سے قبل ایک سازش کی گئی جس کے تحت بلوچستان کی صوبائی حکومت گِرا دی گئی۔نواز شریف نے چیئرمین سی پیک عاصم سلیم باجوہ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور ان کے اثاثوں پر سوال اٹھائے۔ نہ کوئی جے آئی ٹی بنی نہ کوئی احتساب نہ کوئی سزا۔ عمران خان نے بھی ان کے اثاثوں کا نہیں پوچھا اور ایمانداری کا سرٹیفیکیٹ جاری کر دیا۔
انھوں نے ملکی اداروں سے سوال کیا کہ کیا بنی گالہ کی فائل ایسے ہی بند رہے گی۔ ہم کب تک انتظار کریں گے۔ کیا ان لوگوں پر کوئی فوجداری مقدمہ درج نہیں ہو گا۔ عمران خان نے اربوں کے اثاثے رکھتے ہوئے بھی اتنا کم ٹیکس ادا کیا ہے۔ کیا نیب اس پر کوئی ایکشن نہیں لے گا؟ کیا کچھ لوگ آگے بھی سزائیں پاتے رہیں گے اور کچھ لوگ ایمانداری کے سرٹیفیکیٹ پاتے رہیں گے۔ کیا ہم ایسا پاکستان اپنی آنے والی نسلوں کے لیے چھوڑنا چاہتے ہیں۔ میں تو کہوں گا کبھی بھی نہیں۔ ایجنسیوں کی جانب سے لوگوں کو اٹھانا، میڈیا کے نمائندوں کو بے بنیاد مقدمات میں نامزد کر دینا کیا، یہ جمہوری معاشرے کی نشانیاں ہیں؟ ہم میڈیا پر کوئی قدغن منظور نہیں کریں گے۔ جمہوریت کو کمزور کرنے کے لیے 'لڑا اور حکومت کرو' کی پالیسی نافذ کر دی گئی ہے۔ سیاستدانوں کو بلایا، ڈرایا اور دھمکایا جاتا تھا۔ یہ طریقہ آج بھی استعمال ہوتا ہے۔ محکمہ زراعت کو تو آپ سمجھتے ہی ہیں۔ ہم ایک ہو کر تقسیم نہیں ہوتے تو یہ کانفرنس کامیاب ہوگی۔ وکلا، دانشوروں، میڈیا اور عدلیہ کے لیے بھی یہ طریقہ استعمال ہو رہا ہے۔ قاضی فائز عیسی اور شوکت عزیز صدیقی دونوں جج ایماندار ہیں اور انتقام کا شکار بن رہے ہیں۔یہاں ایماندار نہیں بلکہ ایسے لوگ استعمال کیے جاتے ہیں جن کے ساتھ نظریہ ضرورت بنایا جائے۔ یہ تماشہ آپ نے دیکھا ہے اور عوام کے منتخب وزیراعظم کو پھانسی، جلا وطن اور سزا دے کر ان کے خاندان کو ذلیل و رسوا کیا جاتا ہے۔
نواز شریف نے کہا کہ کانفرنس کو جامع لائحہ عمل تشکیل دینا چاہیے۔ اس وقت اولین ترجیح اس نظام سے نجات حاصل کرنا ہے۔ عمران خان ہمارا ہدف نہیں ہے۔ ہمارا مقابلہ عمران خان سے نہیں ہے۔ ہماری جدوجہد عمران خان کو لانے والوں کے خلاف ہے اور ان کے خلاف ہے جنھوں نے نااہل بندے کو لا کر بٹھایا ہے۔یہ تبدیلی عمل میں نہ آئی تو یہ نااہل اور ظالمانہ نظام ملک کو کمزور کر دے گا۔ مضبوط معاشی نظام کی بھی ضرورت ہے۔ ہماری قومی سلامتی کے لیے ضرورت ہے کہ معیشت کے ساتھ مسلح افواج کو بھی مضبوط بنائیں۔ آئندہ بھی ترجیح رہے گی کہ ضروری ہے کہ مسلح افواج قائد اعظم کی تقریر کے مطابق سیاست سے دور رہیں۔ کسی کے کہنے پر وزیر اعظم ہائوس میں داخل ہو کر وزیر اعظم کو گرفتار نہ کرے۔ وہ منظر میری آنکھوں کے سامنے آتا ہے اور مجھے دکھ ہوتا ہے۔ ملک کو تماشا بنا دیا ہے۔
نواز شریف نے تقریر کے آخر میں کہا کہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اے پی سی جو بھی لائحہ عمل تشکیل دے گی مسلم لیگ ن اس میں بھرپور ساتھ دے گی اور ایک سیکنڈ کے لیے بھی پیچھے نہیں ہٹے گی۔ ٹھوس اقدامات تجویز کیے جائیں۔ ہمارے کئی دوست جیلوں میں ہیں۔ ان کی قربانیاں ضائع نہیں جائیں گی۔ میں آپ سب قائدین کا شکر گزار ہوں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری نے اپنی تقریر میں آل پارٹیز کانفرنس کی جانب سے ایک ٹھوس اعلامیہ جاری کرنے پر زور دیا تاکہ لوگوں کے لیے آزادی لی جا سکے۔اگر منتخب نمائندے پارلیمان میں بول نہیں سکتے اور اپنے ووٹوں کی دوبارہ گنتی نہیں کروا سکتے تو عوام کو ایسے میں کیا امید ہو گی؟ سیاست اور میڈیا بلکہ پارلیمان میں بھی اپوزیشن کے خلاف بے ایمانی نہ کی جائے۔انھوں نے اپوزیشن سے کہا کہ وہ متحد ہو کر ایک تحریک چلائے جو ماضی میں تحریک بحالی جمہوریت جیسی ہو۔ انھوں نے کہا کہ 'ہم ان تمام فیصلوں کے ساتھ کھڑے ہیں جو اس فورم پر لیے جائیں گے اور ہم آخری سانس تک لڑنے کے لیے تیار ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ نواز کے صدر شہباز شریف نے کہا کہ ملکی تاریخ میں آمریت نے نہ صرف جمہوریت سیاہ دھبہ ڈالا ہے بلکہ عدلیہ کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔انھوں نے کہا کہ جب ایک سیلکٹڈ حکومت اقتدار میں آئی تھی اور ایک سیلیکٹڈ وزیرِ اعظم نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ الیکشنز میں ہونے والی دھاندلی کے خلاف اقدامات اٹھائے گا اور آر ٹی ایس نظام کی گمشدگی اور الیشکن سے پہلے کی گئی انجینیئرنگ کی تحقیقات کی جائیں گی۔

نواز شریف کے خطاب سے قبل پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن اور سابق صدر آصف علی زرداری نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اے پی سی بہت پہلے ہو جانی چاہیے تھی۔ اس اے پی سی کے خلاف جو ہتھکنڈے حکومت استعمال کر رہی ہے وہی اس کی کامیابی ہے۔انہوں نے کہا کہ جنرل مشرف کو دکھایا جا سکتا ہے، مگر میرے انٹرویو پر پابندی لگائی جا سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں پیمرا کی ضرورت نہیں ہے۔ لوگ ہمیں سن رہے ہیں اور سنتے رہیں ہیں۔حکومت پر تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جب سے سیاست میں ہیں کبھی ایسے نہیں دیکھا، یہ سب ان کی کمزوریوں کی نشانی ہے۔ آج کل میڈیا پر پابندی ناممکن ہے۔ کسی کو کوئی روک نہیں سکتا۔انہوں نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ مریم بی بی بھی یہاں ہیں۔ وہ میاں صاحب کی اور قوم کی بیٹی ہیں۔ میری اپنی بہن، بیوی جیل جا چکی ہیں۔ انھوں نے بھی تکلیف سے وقت گزارا میں انھیں سلام کرتا ہوں۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں اور ہم آپ کے لیے لڑتے رہیں گے۔آصف زردار ی نے کہا کہ اس تقریب کے بعد پہلا بندہ میں ہی جیل میں ہوں گا۔ مولانا صاحب آپ ضرور ملنے آئیے گا۔یہ لوگ اوپر سے آ کر ہم پر قابض ہو گئے ہیں۔ہم انھیں حکومت سے نکال کر جمہوریت بحال کر کے رہیں گے۔ ہم نے ان سے پاکستان کو بچانا ہے۔
واپس کریں