دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کیا ' بی جے پی' غلام نبی آزاد کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں متبادل سیاسی جماعت کے طور پر سامنے لا رہی ہے؟
No image سرینگر ( کشیر ررپورٹ ) ہندوستان وزیر اعظم نریندر مودی کی سربراہی میں قائم ' بی جے پی' حکومت مقبوضہ جموں وکشمیر میں اپنی سیاسی ناکامیوں کے پیش نظر ایک متبادل سیاسی جماعت کے طور پر غلام بنی آزاد کو سامنے لانا چاہتی ہے،آزاد ہندوستان کی سیاست سے مقبوضہ جموں وکشمیر کی سیاست میں داخل ہونے کے لئے پر تول رہے ہیں، نیشنل کانفرنس اور 'پی ڈی پی ' غلام بنی آزاد کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کی سیاست میں داخلے کو اپنے لئے خطرہ سمجھتی ہیں،آزاد کا جموں میں پہلا جلسہ کرتے ہوئے نئی سیاسی جماعت قائم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے دفعہ370 کی خاتمے کی بات نہ کرتے ہوئے' بی جے پی' کے منظور نظر ہونے کا اشارہ دیا ہے۔
سرینگر سے امریکہ کے سرکاری نشریاتی ادارے'' وائس آف امریکہ' VOAکے نمائندے یوسف جمیل نے VOAمیں شائع ایک رپورٹ میں بتا یا کہ
بھارت کی حزبِ اختلاف کی جماعت کانگریس پارٹی میں پانچ دہائیوں سے زیادہ عرصہ گزارنے کے بعداس سے علیحدگی اختیار کرنے والے سینئر سیاست دان غلام نبی آزاد بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے سیاسی افق پر ایک مرتبہ پھر نمودار ہوئے ہیں جس پر بعض علاقائی جماعتوں کے قائدین فکر مند نظر آرہے ہیں۔تہتر سالہ غلام نبی آزاد نے اتوار کو بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے سرمائی صدر مقام جموں میں عوامی جلسے سے خطاب کیا ۔ یہ اگست کے آخری ہفتے میں کانگریس سے مستعفی ہونے کے بعد ان کا پہلا اجتماع تھا۔ جلسے سے خطاب کے دوران انہوں نے کہا کہ وہ قومی سطح کی جماعت بنا رہے ہیں جس کا اولین مقصد جموں و کشمیر کے عوام کو درپیش مشکلات کا ازالہ کرانا ہوگا۔انہوں نے اپنی جماعت کا ایجنڈا پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت جموں وکشمیر کو دوبارہ مکمل ریاست کا درجہ دلانے ، اس کے عوام کے حقوق بالخصوص اراضی اور سرکاری نوکریوں پر حق کے تحفظ کو یقینی بنانے سمیت کشمیر سے شورش کے آغاز پرنقل مکانی کرنے والے برہمن ہندوں یا پنڈتوں کی وطن واپسی کے لیے کام کرے گی۔
واضح رہے کہ غلام نبی آزاد نے ابھی صرف اپنی نئی جماعت بنانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ تاہم نئی جماعت کا نام اور اس میں شامل ہونے والے سیاست دانوں کے نام سامنے نہیں آئے۔غلام نبی آزاد نے 27 اگست کو کانگریس کی رکنیت سے یہ کہہ کر استعفی دیا تھا کہ راہل گاندھی کے سیاست میں آنے کے بعد تمام سینئر اورتجربہ کار پارٹی رہنمائوں کو نظر انداز کر دیا گیا ہے جب کہ سونیا گاندھی برائے نام پارٹی صدر ہیں اور نا تجربہ کار لوگوں کا ایک نیا حلقہ پارٹی کو چلا رہا ہے۔غلام نبی کے استعفے کے بعد ان کی آبائی ریاست جموں و کشمیر میں کانگریس پارٹی کے سینئر رہنماوں، کارکنوں اور سابق ارکان ان کی حمایت کا اعلان کر رہے ہیں۔ اب تک تقریبا 200 سرکردہ رہنما کانگریس پارٹی سے مستعفی ہوکر آزاد کیمپ میں شامل ہوئے ہیں۔
کانگریس پارٹی سے منسلک نیشنل اسٹوڈنٹس یونین آف انڈیا کے کئی مقامی عہدے داروں نے بھی غلام نبی آزاد کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔غلام نبی آزاد کی جموں و کشمیر کے سیاسی منظر نامے پر دوبارہ نمودار ہونے پر 'جموں کشمیر اپنی پارٹی' سمیت دیگر علاقائی جماعتیں فکر مند نظر آرہی ہیں۔نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی بھی غلام نبی آزاد کی مقامی سیاست میں واپسی پر ناخوش نظر آرہی ہیں۔ اگرچہ ان جماعتوں کے رہنماوں نے تا حال اس کا برملا اظہار نہیں کیا۔تجزیہ کاروں اور سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ کانگریس سے علیحدگی اختیار کرنے والے دیکھ رہے ہیں کہ مرکز میں برسرِ اقتدار جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا اقتدار طویل ہو سکتا ہے اس لیے دانش مندی کا تقاضہ ہے کہ کانگریس کے پلیٹ فارم کے ذریعے سیاست کرنے کے بجائے غلام نبی آزاد کے ساتھ مل کر مقامی سیاست میں اپنے لیے بہترمستقبل کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جائے۔
تجزیہ کار ڈاکٹر ارون جوشی کہتے ہیں کہ غلام نبی آزاد بظاہر اسی ایجنڈے پر گامزن ہیں جس پر 'جموں و کشمیر اپنی پارٹی' جیسے سیاسی گروپ چل رہے ہیں اور آئندہ برس کے اوائل میں متوقع انتخابات میں کامیابی کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مقامی جماعتوں کی موجودگی میں غلام نبی آزاد کے لیے عوام کے ایک وسیع حلقے میں پہنچ کر اور کشمیری مسلمانوں کی جذباتیت کے پیش نظر انتخابی سیاست میں قدم جمانا آسان نہیں ہوگا۔ڈاکٹر ارون جوشی کے ِخیال میں غلام نبی آزاد نے اتوار کو جلسے سے خطاب کے دوران کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے سمیت دیگر حساس موضوعات پر کوئی بات نہیں کے۔ ان کے خیال میں آزاد نے جان بوجھ کر ان امور کو نہیں چھیڑا ، کیوں کہ انہیں یہ معلوم ہے کہ ان دفعات کی واپسی کسی عدالتی مداخلت کے بغیر ممکن نہیں اور اس کے سیاسی مضمرات بھی ہوسکتے ہیں ۔
واضح رہے پانچ اگست 2019 سے پہلے جموں کشمیر کو بھارت کے آئین کی دفعہ 370 کے تحت ہند یونین میں ایک خصوصی پوزیشن حاصل تھی۔ اس دفعہ کی ذیلی شق 35 ایکے تحت سرکاری ملازمتوں پر ریاست کیحقیقی باشندوں کا ہی تقرر عمل میں لایا جاسکتا تھا۔لیکن ان دونوں دفعات کی منسوخی کے بعد اب بھارت کا کوئی بھی شہری وادی میں منقولہ اور غیر منقولہ جائیدار کا مالک بن سکتا ہے اور سرکاری نوکری حاصل کرسکتا ہے۔غلام نبی آزاد نے جلسے سے خطاب میں دفعہ 370 یا دفعہ 35 اے کی منسوخی کا ذکر تک نہیں کیا جو ان کے قریبی حلقوں کے نزدیک ان کے حقیقت پسندانہ اپروچ کی عکاسی کرتا ہے۔ کیوں کہ ان حلقوں کے بقول آزاد کو اس بات کا ادرا ک ہے کہ بھارت کی موجودہ حکومت دفعہ 370 یا دفعہ 35 اے کی بحالی پر کسی بھی صورت میں آمادہ نہیں ہوسکتی۔
یونیورسٹی آف کشمیر کے شعبہ قانون اور بین الاقوامی تعلقات کے سابق پروفیسر ڈاکٹر شیخ شوکت حسین کہتے ہیں کہ جب سے حکومتِ بھارت نے آئین کی دفعہ 370 کو ختم کیا ہے تب سے اس کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ جموں و کشمیر میں ایک متبادل سیاسی قیادت کیسے کھڑی کی جائے۔انہوں نے کہا "نریندر مودی حکومت نے گزشتہ تین برس کے دوران کئی تجربے کیے جو ناکام رہے اور اب وہ غلام نبی آزاد جیسی سیاسی شخصیت سے جس کا قومی اور ریاستی سیاست دونوں میں خاصا تجربہ ہے، فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے پروفیسر شیخ شوکت نے کہا کہ غلام نبی آزاد کو قومی سیاست سے مقامی سیاست میں لایا جارہا ہے۔ بظاہر یہ ایک تجربہ لگتا ہے جس کی کامیابی یا ناکامی سے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔انہوں نے کہا کہ اس سے قبل جن لوگوں کو سامنے لایا گیا تھا وہ اس قدر عوامی اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے جس کی حکومتِ ہند کو توقع تھی۔ یہ سب کو پتا ہے کہ وزیرِاعظم نریندر مودی آزاد کو قابلِ اعتماد سیاست دان سمجھتے ہیں جس کا اظہار انہوں نے راجیہ سبھا ( بھارتی پارلیمان کے ایوانِ بالا) میں اظہار خیال کرتے ہوئے کیا تھا۔پروفیسر شیخ شوکت کہتے ہیں کہ غلام نبی آزاد کا قومی اور ریاستی سیاست میں وسیع تجربہ ہے لیکن وادی کی سیاست میں انہیں اپنی جڑیں مضبوط کرنے میں وقت لگے گا۔

واپس کریں