دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پاکستان کو کدھر لے جانا ہے؟
طاروق فاروق چودھری
طاروق فاروق چودھری
کسی بھی ریاست کو اپنا وجود برقرار رکھنے اور عوام کی تائید اور حمایت حاصل کرنے کے لیے ذرائع ابلاغ کو درست معلومات، فرائض اور حقوق کی تقسیم کار اور یکساں بنیادی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانا ھوتا ہے۔ سیاسی اور سماجی ادارے ان مقاصد کے حصول کے لیے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ان اداروں کی جگہ دو اہم محکموں نے سیاسی اور سماجی اداروں کا کردار پاکستان بنتے ہی سنبھال لیا تھا۔

سیاسی جماعتیں اور لیڈرشپ اپنا کردار اور فرائض کی ادائیگی سے ایک دوسرے کی مخاصمت میں دستبردار ہوتی گئیں۔ ذرائع ابلاغ ان دو اہم ریاستی ستونوں کی خبر، تعریف و توصیف اور قربت کی اشتہا میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی دوڑ میں کئی دہائیوں سے شریک کار اور سہولت کار ہیں۔ جمہوری ممالک میں ایسا عمل ممکن ہی نہیں اور اگر کہیں سرزد ہو تو شرمناک قرار پاتا ہے۔

اچھی معیشت کسی بھی ریاست کو قائم اور پرامن رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس کا تعلق براہ راست عوام کے ساتھ منسلک ہے۔ سیاسی ادارے اس اہم ریاستی اکائی کی بہتر بنیاد رکھنے میں اس لیے ناکام رہے کہ صلاحیت اور اعتماد کی کمی رہی۔ یہ اہم کام بھی قومی سلامتی کے ضامنوں نے سنبھالے رکھا۔ ایک دوسرے کو ضرب لگانے کے شوق تسخیر میں ہم تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزرتے رہے۔ تاریخی غلطیوں کو جمع کر کے انہیں آئندہ اپنی ریاست اور سیاست سے منفی کرنا ہمیں ناگوار گزرا۔

اس دو رکنی اتحاد نے جو کٹھ پتلیاں تخلیق کیں، ان کی ڈوریں اب ریاست کی دسترس سے باہر ہیں۔ اب وہ عالمی سیاست اور معیشت کا حصہ ہیں۔ ایک سرا پکڑتے ہیں تو دوسرا ہاتھ سے کسک جاتا ہے۔ یعنی آوے کا آوا ہی بگڑ چکا ہے۔جو نظام تطہیری عمل سے نہ گزرے، وہ زمین بوس ہو جاتا ہے۔ سیاسی ادارے زلزلوں کے منتظر ہیں کہ بچا کچھا سیاسی مال غنیمت سمیٹ سکیں، یہ دھیان میں نہیں کہ زلزلے اچھے برے کی تمیز نہیں کرتے۔نظریہ اور اصولوں کی سیاست غرق ھو چکی۔ بس حکومت چاہیے، ریاست جائے بھاڑ میں۔

بھوک اور افراط زر قحط الرجال کی نشانی ہیں۔ ساٹھ فیصد جوان نسل دیکھا دیکھی نقل مکانی یا نقب زنی کے راستے پر دوڑتی دکھائی دیتی ہے۔ ہمسائے جب خوشحال ھوں تو رشک کا جذبہ ماند پڑ جاتا ہے۔ ھر قسم کی لوٹ مار کا خدشہ رہتا ہے۔معیشت کی ناکامی سیاسی ذھنی، اخلاقی اور آفاقی قدروں سے لاتعلقی اختیار کر کے قیاس اور عدم تحفظ کو جنم دیتی ہے۔قائد اعظم کے پاکستان کواس وقت مکافات عمل کا سامنا ہے۔کیا اب آٹے کے ساتھ گھن بھی پسے گا ؟

رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں

) طارق فاروق چودھری پاکستان مسلم لیگ ن آزاد کشمیر کے سیکرٹری جنرل اورسابق سنیئروزیرہیں(
واپس کریں