دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
19جولائی الحاق کی قرارداد اور ہماری ذمہ داریاں
نجیب الغفور خان
نجیب الغفور خان
لائن آف کنٹرول کی دونوں جانب اور ساری دنیا میں کشمیری قوم آج 19 جولائی کو یوم الحاق پاکستان منارہی ہے۔ آج ہی کے دن19جولائی 1947ء کو سری نگر میں الحاق پاکستان کی قرارداد منظور کی گئی تھی۔ قرار داد میں کشمیری عوام نے مستقبل کے پاکستان کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ کیا تھا۔ یوم الحاق پاکستان کے موقع پر آزادی کے حق اور بھارتی ناجائز فوجی قبضے کے خلاف کنٹرول لائن کے دونوں اطراف جلسے جلوس اور ریلیاں نکالی جارہی ہیں ۔ اس دن سری نگر میں سردار محمد ابراہیم خان کی رہائش گاہ پر آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے اجلاس میں پاکستان سے الحاق کی قرارداد منظور کی گئی تھی۔غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان نے سرینگر میں اپنی رہائش گاہ پر اس تاریخی اجلاس کی میزبانی کی تھی جس میں قرارداد الحاق پاکستان منظور ہوئی تھی۔ آگے چل کر24اکتوبر 1947ء کوغازی ملت آزادجموں وکشمیر کے بانی صدر بنے۔
سرینگر کے مقام پر تاریخی قرارداد الحاق پاکستان کی منظوری کے بعد آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام نے ایک بڑی جنگ آزادی لڑی اور ریاست کے ایک حصے کو ڈوگرہ مہاراجہ کے ظالمانہ شکنجے سے آزاد کرایا۔ کشمیریوں کی لازوال قربانیوں کی جو داستان 1947ء میں شروع ہوئی تھی وہ آج بھی نہ صرف جار ی و ساری ہے بلکہ10 لاکھ بھارتی فوج کی درندگی اور سفاکیت کشمیریوں کے عزم کو توڑنے میں ناکام رہی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ کشمیریوں کے جذبہ آزادی میں بے پناہ اضافہ ہو اہے ۔ آج کشمیریوں کی تیسری نسل اپنے حق خوداردیت کے حصول کے لیے اپنے آباو اجداد کی طرح پرعزم ہے۔ آج بھی مقبوضہ جموں وکشمیر اپنے تاریک ترین دور سے گزر رہا ہے، ہر روز درجنوں کشمیری شہید کیے جا رہے ہیں اور بی جے پی اور آر ایس ایس کی فسطائی حکومت ہزاروں ہندو شہریوں کو مقبوضہ کشمیر میں آباد کر رہی ہے۔ نئے ڈومیسائل قوانین کی آڑ میں کشمیریوں سے اُن کا روزگار اور نوکریاں چھینی جا رہی ہیں اور اُن کی زمین پر ناجائز قبضہ کیا جا رہا ہے۔ آج ہم اپنی آنکھوں کے سامنے مقبوضہ ریاست میں فسطائیت کا مکروہ چہرہ دیکھ رہے ہیں۔مقبوضہ وادی میں بھارتی سفاکیت انتہا کو پہنچ چکی ہے، نام نہاد سرچ آپریشنز کی آڑ میں روزانہ کشمیری نوجوانوں کو ماورائے عدالت قتل کیا جا رہا ہے ۔مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے 5 اگست 2019ء کے یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات کو 4سال مکمل ہونے کو ہیں جبکہ بھارت نے گذشتہ 4سالوں سے مقبوضہ وادی میںجدید ہتھیاروں سے لیس فورسز کو تعینات کرکے وادی کشمیرکو دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کر رکھا ہے۔
5اگست 2019 ء کے بھارتی غیر قانونی اقدامات سے مقبوضہ خطہ تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے، ہزاروں کشمیریوں کا کچھ پتہ نہیں کہ قابض بھارتی فورسزنے انہیں کہاں قید کر رکھا ہے۔ کشمیریوں کو جسمانی، سیاسی اور نفسیاتی طور پر کچلنے کیلئے بھارتی ظالمانہ مہم جاری ہے،10 لاکھ فوج کی تعیناتی کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر دنیا میں سب سے زیادہ قابض افواج کی موجودگی والا خطہ بن چکا ہے دوسری طرف ہندوستان جموں و کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کر رہا ہے ا ورجموں و کشمیر کو مسلم اکثریتی آبادی سے ہندوتوا غالب خطے میں تبدیل کرنا چاہتا ہے، آبادی کے تناسب میں تبدیلی عالمی قانون بشمول جنیوا کنونشن کی کھلی خلاف ورزی ہے،بھارتی قابض فورسز انسانی حقوق کی سنگین ترین پامالیوں کا ارتکاب کررہی ہیں۔ نوجوانوں سمیت ہزاروں کشمیریوں کو گھروں سے غائب کر کہ قابض بھارتی افواج نے انہیں گمنام جگہ پر قید کررکھا ہے اور ان کے گھر والے اپنے پیاروں کی تلاش میں سرگرداں ہیںدوسری طرف کورونا وباکشمیریوں کے لئے ایک نیا عذاب ثابت ہوئی ہے۔ کشمیریوں کی حالت زار پر آنکھیں بند کئے آر۔ایس۔ایس، بی۔جے۔پی حکومت ان سازشوں میں مصروف عمل ہے اور آزادی کا حق مانگنے والے کشمیریوں کو جسمانی، سیاسی اور نفسیاتی طورپر کچلنے کے لئے ایک ظالمانہ مہم پوری شدت سے جاری ہے۔
کنٹرول لائن کے دونوں اطراف کے کشمیری19جولائی اس عزم سے منا رہے ہیں کہ حق خوداردیت کے حصول تک جدوجہد جاری رہے گی اور بھارت کے مقبوضہ کشمیر کی ڈیموگرافی تبدیل کرانے سمیت تمام ہتھکنڈوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے گا۔مسئلہ کشمیر بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ تنازعہ ہے اور اس کو استصواب رائے کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہے جس کا وعدہ اقوام متحدہ نے بھی کیا ہے جب تک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوںکو حق خودارادیت نہیںمل جاتا اور انسانی عزت ووقار کے لئے ان کی جائز جدوجہد کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوجاتی وہ اپنی جد وجہد جاری رکھیں گے۔بھارت کشمیر پر بزور طاقت قابض ہے۔ بھارتی فورسز کی طرف سے کشمیری عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم ناقابلِ برداشت ہیں۔ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیاں اور کشمیریوں کی نسل کشی پر اقوام متحدہ کی خاموشی اور بھارت کیخلاف نوٹس نہ لینا لمحہ فکریہ ہے۔ اقوام متحدہ کو چاہیے کہ وہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی روک تھام اور وہاں رائے شماری کے دعدے پورا کرنے کے لیے فوری اقدامات کرے۔اگر دنیا امن کی خواہاں ہے تو اسے مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنا ہوگا۔دوسری طرف اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی اداروں کا یہ فرض بنتاہے کہ وہ بھارت پردبائو ڈالیں کہ وہ انسانی حقو ق سے متعلق ذمہ داریوں کو پورا کر نے کے ساتھ ساتھ اقوام متحد ہ کی قرار داوں کے تحت کیے گئے اپنے وعدوں کی بھی تکمیل کر ے ،دوسری طرف ہماری بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ سفارتی محاذ پر عالمی ادارو ں اور تنظیموں کو مجبور کریں کہ وہ کشمیر یوں کے حق خو دارادیت کے لیے آواز بلند کریں اورمقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے مظالم، انسانی حقو ق کی بد ترین خلا ف وزریوں اور درند گی پر مبنی اقداما ت کو سامنے لائیں تاکہ دنیا بھارت کے اصل چہرے سے واقف ہوسکے۔ بھارت کے ہاتھ اگر صاف ہیں اور وہ کچھ چھپانا نہیں چاہتا تو پھر اسے عالمی میڈیا اور سول سوسائٹی کومقبوضہ کشمیر جانے کی اجازت دے تاکہ غیرجانبدار میڈیا اور دنیا مقبوضہ جموں وکشمیر میں انسانی حقوق کی حقیقی صورتحال کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکے۔19جو لائی کی قرارداد اس امر کا تقاضہ کرتی ہے کہ کشمیریوں کو بھارتی ظلم و ستم سے بچانے کیلئے اقوام متحدہ اور بڑی طاقتوں سمیت پوری عالمی برادری سے فوری کردار ادا کرنا ہوگا کشمیر کبھی بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں بلکہ غاصبانہ سوچ کی تکمیل جسے وہ کسی صورت پورا نہیں ہونے دیں گے،1947 سے لیکر آج تک لاکھوں کشمیریوں کو شہید، خواتین کو بیوہ، بچوں کویتیم کیا گیا مگر عالمی برادری ٹس سے مس نہ ہوئی۔.بھارت نے ایک کے بعد ایک عالمی قوانین اپنی ہٹ دھرمی سے روند ڈالے۔حق خود ارادیت کی آواز اٹھانے پر حریت رہنماوں کی نظر بندی، گرفتاری اور سزائیں معمول ہیں،مگر کشمیریوں کی خواہش آزادی روز اول کی طرح قائم و دائم ہے ۔
بھارت محض پروپیگنڈہ کے ذریعے زمینی حقائق کو چھپانے کی ناکام کوشش کر رہا ہے اور جد و جہد آزادی کو دہشت گردی قرار دے رہا ہے۔حالانکہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے عین مطابق کی جانے والی حقِ خود ارادیت اور آزادی کی جدوجہد کبھی بھی دہشت گردی کے مترادف نہیں ہو سکتی۔ اس کے برعکس بھارت خود ریاستی دہشت گردی میں ملوث ہے جو معصوم، نہتے اور لاچار کشمیری لوگوں کا قتل عام کر رہا ہے۔بین الاقوامی میڈیا کی مسلسل خاموشی اور جمہوریت کے علم برداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی خاموشی بھی قابل افسوس ہےـ بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ اپنے ذرائع بروے کار لاتے ہوئے کشمیر میں کالے قوانین کا خاتمہ کریں خصوصاً کشمیری خواتین کے حقوق کے لیے بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔مسلم ممالک کو چاہیے کے وہ اپنے ممالک میں قائم بھارتی دفتر خارجہ میں احتجاج ریکارڈ کرائیں تاکہ کشمیریوں پہ ظلم و ستم ختم ہو اور انہیں اپنے حقِ خود ارادیت ملنے میں آسانی ہو۔ اقوام متحدہ اور عالمی برادری کو اس نازک صورت حال کا ادراک کرنا چاہیے اور بھارت کو مجبور کرنا چاہیے کہ وہ کشمیریوں پہ ظلم و استبداد کا خاتمہ کرے، اور انھیں ان کا پیدائشی حق حق خود ارادیت دے۔ یہی وہ پیغام ہے جس کے کشمیری منتظر ہیں۔

تحریر: نجیب الغفور خان ،جموں و کشمیر لبریشن کمیشن






واپس کریں