دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
انوارالحق بنام انوارالحق
اکرم سہیل
اکرم سہیل
یہ ایک خوشگوار اتفاق ہے کہ آزاد کشمیر اور پاکستان دونوں کے وزرا اعظم ہم نام ہیں اور اگر آزاد کشمیر کے وزیراعظم کی جانب سے کوئی سرکاری مکتوب لکھا جاتا ہے تو یہ انوارالحق بنام انوارالحق ہی لکھا جاتا ہو گا۔ آزاد کشمیر میں اس وقت بجلی کے ہوشربا مہنگے بلات کے خلاف جو ایک بڑی غیر سیاسی عوامی تحریک چل رہی ہے اس کی بنیاد پر حکومت پاکستان سے موثر بات چیت کیلئے ایک ایسے ہی انوارالحق بنام انوارالحق مکتوب کی ضرورت ہے۔ آزاد کشمیر میں مہنگی بجلی کے بلات کے خلاف چلنے والی تحریک آزاد کشمیر حکومت کے ہاتھ میں ایک بڑی طاقت ہے۔ بجلی کا یہ بحرانی معاملہ صرف حکومتی معاملہ ہی نہیں بلکہ اس میں آزاد کشمیر کے پچاس لاکھ عوام کی ایک نہائت طاقتور آواز بھی شامل ہے۔

حکومتِ پاکستان سے مہنگی بجلی کے معاملے کو صرف وزیر اعظم پاکستان کے ساتھ ایک آدھ روائیتی ملاقات تک محدود کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا بلکہ میٹنگ سے پہلے ایک تفصیلی ورکنگ پیپر انہیں ارسال کرنا ضروری ہے۔جس میں آزاد کشمیر کیلئے سستی بجلی کے معائدوں کی خلاف ورزیوں اور خفیہ طور پر فیڈرل قابل تقسیم آمدنی سے سالانہ کھرب ہا روپوں کی آزاد کشمیر کے حصص کی کٹوتیوں کی تفصیل کے ساتھ معاملات بھرپور طریقے سے فیڈرل حکومت کے ساتھ پوری تیاری کے ساتھ اٹھائے جائیں۔اور حکومت پاکستان کو آئین پاکستان کے آرٹیکلز 38 ، 157 اور 161بھی پڑھائے جائیں جن میں کسی بھی قسم کے انفرادی اور اجتماعی معاشی استحصال کی ممانعت کے ساتھ پن بجلی کے منصوبوں سے پیدا ہونے والی بجلی اس خطہ کو براہ راست فراہمی کو یقینی بنانیاور اس پن بجلی کو کسی خطے کا معاشی استحصال کر کے اسے کمائی کا ذریعہ بنانے کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔آئین پاکستان کے ان طے شدہ اصولوں کی روشنی میں آزاد کشمیر میں پن بجلی کے منصوبوں سے آزاد کشمیر براہ راست بجلی اور اس کی فی یونٹ رواں لاگت ہی وصول کی جا سکتی ہے ۔ جو اس وقت دو روپے فی یونٹ کے لگ بھگ ہے۔ وفاقی حکومت اور واپڈا پر آئین پاکستان کا اطلاق ہوتا ہے اور وہ پاکستان کی علاقائی حدود کے اندر ہوں یا باہر وہ آئین پاکستان کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے۔ واپڈا آزاد کشمیر کیلئے نٹ ہائیڈل پرافٹ کے بجائے واٹر یوز چارجز کی اصطلاع استعمال کرتا ہے جس سے آزاد کشمیر میں واپڈا کے زیر انتظام پن پجلی کے منصوبے بھی پرائیویٹ پراجیکٹس کے زمرے میں آئیں گے جو 25 سالہ معیاد پوری کے بعد آزاد کشمیر حکومت کی ملکیت تصور ہونگے اور یہ شق نیلم جہلم معائدے میں شامل ہونی چاہیئے۔اور منگلا ڈیم پر بھی اس کا اطلاق ہونا چاہیئے

.وزاعظم آزادکشمیر نے پاکستان سینٹ کی ایک خصوصی کمیٹی میں اپنی گفتگو میں کہا تھا کہ اگر ھمارے جائز مطالبات نہ مانے گئے توآزاد کشمیر میں ہماری نسل شائد آخری نسل ہو جو الحاق پاکستان کے نعرے لگا رہی ہے۔ مجھے امید ہے کہ پاکستان کے ارباب اختیار آزاد کشمیر کے اس نہائت اہم معاملہ کو اپنی روائیتی سوچ کی بھینٹ نہیں چڑھائیں گے جہاں انہیں ہر وہ شخص یا خطہ جو اپنے بنیادی انسانی حقوق مانگتا ہو وہ انہیں غدار نظر آنا شروع ہو جاتا ہے۔ پاکستان کی مقتدر اشرفیہ کو اب تو تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیئے کہ ان کی انہی شعورِ عصر سے بے بہرہ اور طبقئہ اشرافیہ جس نے اب طبقئہ بد معاشیہ کا روپ دھار لیا ہے ان کے مفادات کے تحفظ کیلئے بنائی گئی پالیسیوں کے نتیجے میں ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے لیکن اب بھی ایسے لگتا ہے کہ اس مقتدر استحصالی اشرافیہ کی گردن سے سریا نکلنے کا کوئی امکان نہیں ہے اور انہوں نے تاریخ سے اگر کچھ سیکھا ہے تو بس یہی کہ " تاریخ سے سبق نہیں سیکھنا ہے۔

" عوامی مفاد کے خلاف آئی پی پیز کے ساتھ ان ہلاکت خیز معائدوں کی منسوخی کیلئے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا جو پاکستانی قوم کا لہو نچوڑ رہے ہیں اور اس طبقئہ بدمعاشیہ کی لوٹ مار میں آزاد کشمیر کے عوام کو بھی ان کی بجلی مہنگی کر کے بطور مالِ غنیمت اور بھتہ خوری کے طور پر استعال کیا جا رہا ہے۔ آج بھی پرائیویٹ بجلی کے وہ کارخانے بند پڑے ہیں لیکن سالانہ کھربوں روپے غریب عوام کی جیبوں سے نکال کر اس طبقئہ بدمعاشیہ سے تعلق رکھنے والے مالکان کی جیبیں بھری جا رہی ہیں۔۔. . . وزیراعظم آزاد کشمیر کے پاس ایک سنہری موقع ہے کہ وہ اپنے لوگوں کی آواز بن کر بجلی کے معاملات موثر طریقے سے تحریری طور پر حکومت پاکستان سے اٹھائیں اور تاریخ مں اپنا نام سنہری حروف سے لکھوائیں ورنہ عوامی مفاد پر مصلحت اندیشی کر کیمعیاد پوری کرنے کے چکروں میں پڑنے والے کئی حکمران وقت سے پہلے کفِ افسوس ملتے نکلتے ہوئے دیکھے گئے ہیں۔
واپس کریں