دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
جموں میں مسلمانوں کی نسل کشی ۔ مظالم اور سفاکیت کی داستان
 ڈاکٹر راجہ محمد سجاد خان
ڈاکٹر راجہ محمد سجاد خان
ڈاکٹر راجہ محمد سجاد خان ڈائریکٹرکشمیر پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ
1947میں ریاست جموںوکشمیر کی کل آبادی 40لاکھ تھی جس میں 32لاکھ مسلمان تھے جموں صوبہ میں 61فیصد مسلمان،صوبہ کشمیر میں 93فیصد اور سرحدی اضلاع میں 86فیصد مسلمان ہیں ۔کانگرس اور ہندوستان کی حکومت کی ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ کشمیر میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جا سکے ۔ اکتوبر2000ء میں فرنٹ لائن اخبار میں پروین سوامی نے ایک مضمون لکھا جس میں اعدادوشمار کے ذریعے ظاہر کیا گیا کہ کس طرح مسلمانوں کی آبادی کو کم کیا جا رہا ہے اور ہندو کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے ۔مردم شماری رپورٹوں کے مطابق 1971ء سے 1981ء کے درمیان ڈوڈہ ضلع میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ کی شرح 11.97فیصد تھا جبکہ ہندو کی 47.2تھی اس طرح اسی عرصہ میں ادھم پور میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کا تناسب 6.35فیصد جبکہ ہندو کا 45فیصد راجوری میں ہندو کا 47.72فیصد جبکہ مسلمانوں کا 33.01فیصد، کٹھوعہ میں ہندو کی آبادی میں 39.38فیصد اضافہ ہوا جبکہ مسلمانوں کی آبادی میں 14.57فیصد کمی ہوئی ۔اسی طرح جموں ضلع میں ہندو کی آبادی میں اضافہ 36.14فیصد ہوا جبکہ مسلمانوں کی آبادی میں 29.98فیصد کمی ہوئی ۔یہ اعدادو شمار ظاہر کرتے ہیں کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں 1947سے لیکر آج تک مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا ہے ۔

مارچ 1947 میں ہی سے پنجاب اور دوسرے صوبوں سے سیوا سنگھیوں کی ٹولیاں اور پٹیالہ فرید کوٹ اور نابھ کی ریاستوں سے سکھوں کے ہتھیار بند دستے ریاست میں در آمد کئے گئے تھے ۔ جولائی 1947ء میں راشٹریہ سوایم سیوک سنگھ کے ایک لیڈر بسنت راوایگر نے ان دستوں کا معائنہ کرنے کے لئے ریاست کا دورہ کیا ۔ ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ کے گروسوامی سنت دیو نے مندروں وغیرہ میں ہندونوجوانوں کو عسکری تربیت دینے کی مہم شروع کی ۔ مہارانی تارا دیوی نے مسلمانوں کے خلاف ہندوئوں اور سکھوں کا بھڑکانے کے لئے صوبہ جموں کا دورہ کیا ۔اگست میں پٹیالہ ،کپور تھلہ اور فرید کوٹ کے سکھ حکمرانوں نے سری نگر میں مہاراجہ ہری سنگھ سے ملاقات کی ۔اکتوبر1947 میں جموں میں مسلمانوں کا جو قتل عام ہوا تھا اس کا منصوبہ اسی ملاقات میں تیار کیا گیا تھا جس کے بعد ہندوئوں کو مسلح کیا گیا۔ستمبر 1947 سے پہلے جموں سیالکوٹ ریلوے سروس بند کر کے مہاراجہ نے پرمٹ کا نظام نافذ کر دیا تھا۔ جموں کے مسلمان اب ہندو انتہا پسندوں ، سکھوں کے جتھوں ، بھارتی افواج اور ڈوگرہ فورسز کے رحم و کرم پر تھے۔ ستمبر میں ہی جموں شہر میں مسلم اکثریتی علاقے تالاب کھٹیکاں اور استاد محلہ محاصرہ میں تھے حتی کہ ان علاقوں کا پانی اور خوراک کی سپلائی بھی بند کر دی گئی تھی۔

تقسیم سے قبل کی افواج ہند کے ایک آزمودہ کار آفیسر لارڈ برڈوڈ (Lrod Birdwood) اپنی کتاب "Two Nations and Kashmir" کے صفحہ 51 میں لکھتے ہیں ۔''اگست کے آخر تک سات ہزار رائفلیں جو جموں کے قلعہ میں ایمونیشن کے ساتھ موجود تھیں ۔مقامی ہندوئوں میں تقسیم کر دی گئیں ''۔ ریاست جموںوکشمیر کے ہندو ڈوگرہ حکمران کی خواہش تھی کہ ریاست جموںوکشمیر میں مسلم آبادی کا تناسب کم کیا جائے ۔ستمبر 1947میں مہاراجہ کی ڈوگرہ افواج نے مسلمانوںکو خوفزدہ کرنے ، ان کے گھر جلانے اور نسل کشی خاص کر دو علاقوں پاکستان کے علاقوںکے ساتھ ملحقہ پونچھ او رجموں میں شروع کی۔مہاراجہ پاکستان اور کشمیر کے درمیان تقریباً 03میل چوڑائی علاقہ کو بفرزون بنا نا چاہتا تھا جس کے لئے مسلمانوںکو یا تو پاکستان کی طرف دھکیل دیا گیا یا قتل کر دیا گیا اور دوسرے علاقوںسے ہندؤوں کو کشمیر میں داخل کیا گیا ۔ ہندوستان اس ظلم میںاپنے کردار سے انکار کرتاہے لیکن یہ خفیہ طور پر ڈوگرہ افواج کو اسلحہ فراہم کر رہا تھا ۔ Alex Von Tunzelmann ا پنی کتاب Indian Summer: The Secret History of the End of an Empire کے صفحات 287میں لکھتی ہیں کہ C.B.Dukeلاہور میں برطانیہ کے ڈپٹی ہائی کمشنر اکتوبر کے تیسرے ہفتہ میں علاقہ کی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے کشمیر گیا ۔ اس نے لکھا کہ" دریائے چناب کے قریب تقریباً 20گاؤں کی جلا کو صفحہ ہستی سے مٹایا گیا تھااور ان میں مساجد کی راکھ تھی ۔ یہ مسلمان تھے جو ظلم کا شکار تھے مہاراجہ نے مذہبی بنیادوں پر علاقہ کی صفائی کا حکم دیا تھا۔ 20اکتوبر 1947کو مہاراجہ کی افواج نے پاکستان کی سرحد کو عبور کر کے مارٹر ، خود کار بندوقوں اور گرنیڈوں سے حملہ کیا ۔ ایک برطانوی آفیسر جو موقع پر موجود تھا کہ مطابق 1750لوگ قتل کیے گئے ان میں وہ لوگ شامل نہ تھے جو ہسپتال گئے۔ 28اکتوبر کو مسٹر ریڈی کا ایک اور بیان کراچی کے ہندو اخبار ''ڈیلی گزٹ '' نے شائع کیا جس میں کہا گیا کہ ڈوگروں نے غیر مسلح مسلمانوں پر جو تشدد برپا کر رکھا ہے اس سے ہر خود دار انسان کا سرندامت سے جھک جاتا ہے ۔ میں نے راستے میں ریاستی حکام کو ڈوگروں میں ہتھیار اور گولہ بارود تقسیم کرتے دیکھے ۔ مسلح غنڈے فوج کی مدد سے بے سہارا مسلمانوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر رہے تھے ۔ راج پورہ کے گائوں میں میری آنکھوں نے جو کچھ دیکھا ا س سے مجھے انتہائی صدمہ اور رنج پہنچا ''۔

نومبر 1947 تک ان فسادات میں صوبہ جموں کے 123دیہات کو مکمل ختم کر دیا گیا ۔ جموں کنٹونمنٹ میں واقع گاؤں رائے پور کے محلہ رام نگر کو مکمل جلا دیا گیا۔ ڈوگرہ حکومت کے سپاہی مسلمانوں پر حملوں میں سرفہرست ہوتے تھے۔ ریاستی ادارے نہ صرف مقامی انتہا پسند تنظیموں جیسے آر ۔ایس ۔ایس کو بلکہ وہ جو قریبی مشرقی پنجاب کے گورداسپور کے لوگوں کو بھی اسلحہ فراہم کر رہی تھی۔ لندن ٹائمز میں لکھا'' ہری سنگھ نے جموں کے علاقہ میں دو لاکھ سینتیس ہزار (2,37,000) مسلمانوں کو قتل کیا"۔ اسٹیٹسمین کے آئن سٹیفن نے لکھا کہ '' خزاں 1947سے 2لاکھ سے زائد لوگوں کو صرف ایک ہی مرحلہ میں قتل کر دیا گیا '' ہورسین الیگزینڈرنےSpectator میں لکھاکہ '' قتل عام ریاستی اداروں کی خواہش پر ہوا جس سے 02لاکھ سے زائد لوگ قتل ہوئے''۔ ریاست جموں وکشمیر میں مہاراجہ کی حکومت نے نہ صرف فوج اور پولیس سے مسلمانوں کو نکال دیا۔ جموںشہر کو مسلم آبادی کو غیر مسلح کر دیا گیا ۔ جموں کنٹونمنٹ کے مسلم بریگیڈئیر کو تبدیل کر کے ہندو ڈوگرہ آفیسر کو لگا دیا گیا ۔ مسلمان جو پولیس اسٹیشن یا ڈپٹی کمشنر آفس میں پناہ لینے کے لیے جاتے تو ان کو آر۔ ایس ۔ ایس کے بھیڑیوں کے حوالہ کر دیا جاتا۔ اس دوران پٹیالہ کے مہاراجہ نہ صرف ہتھیار ریاست جموںوکشمیر کی افواج کو دے رہے تھے بلکہ ایک بریگیڈ پٹیالہ ریاستی افواج کو بھی ریاست جموںوکشمیر میں بھیج دیں تاکہ جموںمیں مسلمانوں کو ختم کیا جائے ۔

ٹائمز آف لندن نے لکھا کہ '' جموں سے مسلمانوں کو ختم کرنے کی مہم کی مہاراجہ ہری سنگھ خود سربراہی کر رہے تھے۔جموںمیں مسلمانو ںکے قتل عام کی ہدایات اور نگرانی مہارانی تارا دیوی ،گرو ست دیو اور گورنر جموں رام چوپڑہ مل کر کر رہے تھے۔ شیخ عبداللہ آتش چنار کے صفحہ نمبر 331میں لکھتے ہیں کہ '' یہ انسانیت کے خلاف سنگین ظلم تھااور اس کی سربراہی مہاراجہ ہری سنگھ اور اس کا وزیراعظم مہاجن کر رہے تھے''۔جموںمیں مسلمانوں کی جائیداد وں پر قبضہ کر لیا گیا ۔ اردو بازار کا نام بدل کر راجندر بازار اور اسلامیہ سکول کا نام ہری سنگھ سکول رکھ دیا ۔ روزنامہ ٹیلی گراف لندن نے 12جنوری 1948کو لکھا کہ '' 95فیصد جائیدادیں جو مسلمان چھوڑ گئے عام طور پر ریاستی حکومت کے پاس جانی چاہیے تھی لیکن ریاستی حکومت نے ڈکیتوں اور roiters کو دے دیں ''۔ جموں کے قتل عام پر 27نومبر اور 25دسمبر 1947کو گاندھی نے کہا کہ '' جموں کے ہندؤوں او سکھوں نے اور وہ جو باہر سے آئے تھے( راشٹریہ سیوک سنگھ،گورادسپور اور پٹیالہ)نے وہاں مسلمانوں کا قتل عام کیا ۔ ان کی خواتین غائب کر دی گئی۔یہ اخبارات میں مکمل طور پر نہیں آیا ۔ مہاراجہ کشمیر ان تمام واقعات کا ذمہ دار ہے''۔مجموعہ کام مہاتما گاندھی والیم 90صفحہ 115اور 298میں موجود ہے ۔ہورس الیگزینڈر نے جنوری1948 میں اسپیکٹیٹر میں لکھا کہ جموں میں سکھوں اورہندووں نے ریاستی حکومت کی رضامندی سے مسلمانوں کو گھروں سے نکالا۔ ارجن اپادوری اور آرین میک نے انڈیا ورلڈ میں لکھا کہ تقریباً دو لاکھ لوگوں کو شہید کیا گیا اور پانچ لاکھ لوگوں کو ہجرت پر مجبور کیا گیا۔

جموں میں اس دوران سرکردہ راہنماؤںپنڈت کرشن دیو سیٹھی اوروید بھنس نے مسلمانوں کو بچانے کی کوشش کی لیکن ان کی کوششیں بار آور ثابت نہ ہو سکیں۔جموں میں مسلمانوں کے خلاف مہم کاآغاز مارچ 1947 میں ہی کر دیا گیا۔ مسلمانوں سے ہتھیار لیکر ہندوئوں میں تقسیم کر دیئے گئے ۔ مسلمان پولیس اور ریونیو آفیسران کو تبدیل کر دیا گیا۔ مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی اور جموں فسادات کے عینی شاہد وید بھیسن کے مطابق ہندوئوں ،بنیاد پرست راشٹریہ سیوک سنگھ کی طرف سے 2مسلمان پولیس آفیسران راجہ اقبال خان اور شیخ امام الدین کو شہید کر دیا گیا ۔ وید بھیسن نے اپنی وفات سے قبل رائزنگ کشمیر کو اپنے انٹرویو میں انکشاف کیا کہ '' جموں میں فسادات ڈوگرہ حکومت کی سرپرستی میں آر ۔ ایس ۔ایس اور دیگر تنظیموں کی معاونت سے باقاعدہ منظم منصوبہ بندی کے تحت کئے گئے ۔مہاراجہ کے وزیراعظم مہر چندمہاجن نے اقلیتی پارٹیوں کے رہنمائوں کو مہاراجہ کے محل جموں میں بلایا ۔ میں بھی ایک طالب علم رہنما کے طور پر شریک تھا ۔ مہاجن نے ہندو اور سکھ رہنمائوں کو کہا کہ وہ برابری کا مطالبہ کریں جس پر اجلاس میں موجود اوم صراف نے کہا کہ برابری کیسے ممکن ہے جبکہ مسلمان واضح اکثریت میں ہیں ۔ مہاجن نے محل کے قریب جنگلات کے علاقہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جہاں کچھ دن ہی قبل کچھ مسلمانوں کو آر۔ ایس ۔ ایس نے شہید کر دیا تھاکہ آبادی کا تناسب ایسے بدل سکتا ہے ''۔

وید بھیسن کے مطابق جموں میں کرفیو نافذ تھا لیکن وہ صرف مسلمانوں کیلئے تھا ۔آر۔ ایس ۔ایس کے قافلے اور ہندو آزادانہ طور پر گھومتے تھے ۔ کشمیر میں مکمل ہم آہنگی تھی جب مسلمانوں کا اتنے بڑے پیمانے پر قتل عام کیا جارہا تھاتو وادی میں (ہندو)کشمیری پنڈت جو تعداد میں انتہائی کم تھے کسی کو چھوا تک نہیں ۔ بھیسن کے مطابق مسلمانوں کے اس اجتماعی قتل عام کا ذمہ دار مہاراجہ ہری سنگھ تھا جس کی انتظامیہ کی سربراہی میں آر۔ ایس۔ ایس ،پٹیالہ فورسز اور دیگر غنڈہ عناصر نے مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ آزادکشمیر کے ریٹائرڈ سیکرٹری طارق مسعود جو جموں میں مسلمانوں کے اجتماعی قتل عام سے نکلنے میں کامیاب ہوئے کہ مطابق ستمبر 1947میں جموں میں حالات مسلمانوں کے رہنے کے قابل نہیں رہے تھے ۔ جموں کے قریب پہاڑوں سے دھواں ،گھیرائو ،جلائو اور مسلمانوں کے قتل عام کے واقعات میں اضافہ ہو رہا تھا۔ ان کے والد نے سوچید گڑھ کے ذریعے پاکستان آنے کا پرمٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے لیکن مسلمانوں کیلئے پاکستان کی طرف ہجرت کرنا بھی جانی خطرے کا باعث تھی ۔ ان کے ایک دوست مسلمان آفیسر راجہ صعبت علی نے انہیں یقین دلایا کہ وہ کوشش کریں گے کہ انہیں محفوظ طریقے سے پاکستان کی سرحد تک پہنچایا جائے ۔ لیکن راجہ صعبت علی کو آر۔ ایس ۔ایس کے غنڈوں نے بہت بہیمانہ طریقہ سے سینے میں گولیاں مار کر شہید کر دیا اور ان کی دو انگلیاں جن پر سونے کی انگوٹھیاں تھیں وہ کاٹ کر لے گئے ۔ ۔ 1947میں جموں میں جس طرح مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا اس کی ایک مثال صرف ضلع جموں میں 1941کی مردم شماری کے مطابق مسلمانوں کی آبادی 1,58,630تھی جبکہ 1961کی مردم شماری میں مسلمانوں کی تعداد51,963رہ گئی تھی۔

نومبر 1947میں جموں میں مسلمانوں کے قتل عام کے حوالہ سے جموں سے ہجرت کر کے پاکستان اور آزاد کشمیر آنے والے چند افراد کا اظہار خیال کچھ یوں ہے۔ ملک عبدالرشید معروف کشمیر ی دانشور اور سابق سیکرٹری حکومت نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ''میں 22سال کا تھا ۔ جموں میںکئی دن تک ظلم و ستم کا سلسلہ جاری رہا ۔ مرد ، عورتیں اور بچے انتہائی سفاکانہ طریقے سے قتل کیے جاتے تھے ۔ میں نے اپنے والد ، بھائیوں ،بہنوں ، بیوی اور ایک بیٹے کو کھو دیا۔ 04نومبر کو ڈوگرہ فوج ریاسی میں داخل ہوئی ۔ شہر کے دو معززین خواجہ ایمک اللہ اور چوہدری عزیز الدین ڈپٹی کمشنر ٹھاکر گوپندر سنگھ کو اس حملہ کے بارے میں بتانے گئے ۔ ان دونوں کو ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں قتل کر دیا گیا ۔ خواجہ علی محمد جو بھدرواہ کے تھے اور ریاسی میں بطور پبلک پراسیکیو ٹرکام کر رہے تھے اپنی زندگی بچانے کے لیے تھانہ میں گئے ۔ ڈیوٹی آفیسر نے ان کو آر۔ایس۔ایس کے لوگوں کے حوالہ کر دیا۔ انہوں نے اس پر بے پناہ تشدد کیا لیکن سفاکوں نے ان کی ایک ایک کر کے انگلیاں کاٹی اور کہا کہ ہم تمھاری انگلیاں پاکستان بھیج دیں گے اور ان کو عدالتوں کے قریب سفاکانہ طریقہ سے قتل کر دیا گیا ۔ مہاراجہ ان قاتلوں کو اسلحہ فراہم کر رہا تھا ۔ہزاروں مسلمانوں نے تشدد اور سفاکانہ سلوک کو دیکھ کر خود کشی کر لی ۔ ان قاتلوں نے چوہدری غلام عباس کی بیٹی کو بھی اغواء کر لیا۔ مستری احمد دین سکنہ مست گڑھ محلہ جموں نے اپنی بیٹیوں کی عزت بچانے کے لئے اپنے ہاتھوں سے قتل کر دیا۔

ایک اور کشمیری دانشور جنہوں نے 1947میں جموں سے ہجرت کی محمد خان نقشبندی نے بتایا کہ '' ان کی والدہ کو جب وہ پاکستان کی طرف ہجرت کر رہے تھے ۔ شہید کر دیا گیا۔ ان کی تین بہنوں کو اغواء کر لیا گیا جن میں سے 02بہنیں مل گئی لیکن ''ثریا'' ابھی تک نہیں ملی مجھے نہیں پتا کہ زندہ بھی ہے یا قتل کر دی گئی ۔ انہوں نے کہا کہ یہ قتل عام منظم تھا۔ عبدالقیوم قریشی جو محلہ دال پتیاں جموں کے تھے کہ بتایا '' جموں میں مسلمانوں کا قتل عام کافی عرصہ سے شروع ہو چکا تھا لیکن 26اکتوبر 1947کے بعد اس میں تیزی آگئی اور مہاراجہ نے اپنی فوج کو حکم دیا تھا کہ جہاں بھی مسلمان ہیں ان کو قتل کر دیں ۔ 05نومبر کو جموںکے مسلمانوں کو کہا گیا کہ وہ پولیس لائنز جموں میں جمع ہو جائیں اور مجھے یاد ہیکہ 26ٹرک اور بسیں پولیس گراؤنڈ میں موجود تھے۔ لوگوں کو کہا گیا کہ وہ گاڑیوں میں بیٹھیں تاکہ ان کو پاکستان پہنچایا جائے لیکن ان کو کٹھوعہ اور سانبہ کے جنگلات میں قتل کر دیا گیا ۔ ظفر بٹ جو ہجرت کر کے سیالکوٹ پہنچے نے بتایا کہ ڈوگرہ فوج نے نواں کوٹ میں ان کے تمام خاندان کو قتل کر دیا ۔ خالد علی گجر کے مطابق اس کے دو بھائی اور ایک بہن کورام پورہ جموں میں شہید کر دیا گیا۔ حسین گجر جنہوں نے 1947 میں نواں کوٹ سے سیالکوٹ ہجرت کی نے بتایا کہ '' میری عمر اس وقت 18سال تھی۔ ایک رات ڈوگرہ فوج نے ہمارے گھر پر حملہ کر دیامیرے والدین، بہنوں اور دو چھوٹے بھائیوں کو قتل کر دیا گیا۔ میں اس رات گھر نہیں تھا صبح میں آیا تو دیکھا کہ سب شہید کر دیئے جا چکے تھے اور ہر طرف خون تھا۔ مہاراجہ کی فوج نے سب کچھ لوٹ لیا۔

جموں میں مسلمانوں کی نسل کشی کے حوالہ سے جسٹس یوسف صراف کی کتاب "Kashmir Fifgts for Freedom" سے بذیل اقتباس سب واقعات کا احاظہ کرتا ہے۔ "پنجاب سے ملحقہ سرحدی دیہات میں مسلمانوں پر حملے شروع ہو چکے تھے اور 10اکتوبر 1947ء تک تقریباً دو ہزار مسلمان ہجرت کرکے سیالکوٹ ضلع میں پناہ گزین ہو چکے تھے ۔ سرحد کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا تھا تاکہ کوئی مسلمان پنجاب سے ریاست میں داخل نہ ہو سکے۔ میاں افتخار الدین (جو اس وقت پنجاب میں وزیربحالیات تھے) کی تجویز پر بریگیڈئیرکولیر( سیالکوٹ بریگیڈ) نے اپنے ہم رتبہ بریگیڈئیر راوت (جموںبریگیڈ) سے جموںکا دورہ کرنے کی اجازت طلب کی جو نہ دی گئی۔ خود جموںشہر میں ہندوؤں کو فنون ِ حرب سکھانے کے لئے دید مندر، رگھناتھ مندر، تالاب رانی، پکاڈنگا، گوردوارہ پکی ڈھکی میں مراکز قائم کیے گئے جن کی نگرانی ریٹائرڈ فوجی افسر کرتے تھے۔ 19اکتوبر کے بعد سے جن سنگھی ، اکالی جتھے ڈوگرہ سپاہیوں کی ہمراہی میں کٹھوعہ اور جموں میں بڑے پیمانے پر غارت گری کرنے لگے ۔ طریقئہ واردات ہر جگہ ایک ہی تھا۔ مسلمانوں کو کہا جاتا کہ گھروں سے نکل آئیں اور پاکستان کی راہ لیں۔ باہر آنے کے بعد ان پر حملہ کر دیا جاتا اور پھر وہی لوٹ مار قتل عام اور اغوا۔20اکتوبر 1947ء کو قصبہ اکھنور اور مضافات کے تقریباً تین ہزار مسلمانوں کو جبراًپاکستان چلے جانے کو کہا گیا۔ چنانچہ جب وہ قصبہ کے ایک علاقہ میں جمع ہوئے تو انہیں دریائے چناب کے پل پر لایا گیا ، جہاں ڈوگرہ سپاہیوں نے ان پر دھاوا بول دیا اور ایک کثیر تعداد کو قتل کر دیا ۔ ا23اکتوبر کو ڈوگرہ سپاہیوں اور جن سنگھیوںنے موضع میراں صاحب میں جمع کئی ہزار مسلمانوں کے مجمع پر فائر کھول دیا اور ہزاروں کو شہید کر دیا۔ اس سے قبل راجپورہ کے مقام پر جو جموں اور کٹھوعہ کے درمیاں واقع ہے ، ڈوگرہ راجپوتوں کے مسلح گروپوں کا اجتماع ہوا جو مہاراجہ کے استقبال کے لئے آتے تھے۔ مہاراجہ کے اس دورہ کا مقصد مسلمانوں کے قتل عام کے انتظامات کی نگرانی اور مشاہدہ تھا۔نیز ہتھیاروں اور گولہ بارود کی تقسیم بھی عمل میں آنا تھی۔ اس دورہ میں ریاست کا وزیراعظم مسٹر جسٹس مہر چند مہاجن بھی مہاراجہ کے ہمراہ تھا۔ مہاراجہ کی آمد سے قبل مسلمانوں کا ایک قافلہ کٹھوعہ کے اندرونی علاقہ سے ہجرت کر کے آ رہا تھا اور پاکستانی سرحد کی طرف بڑھ رہا تھا۔ ڈوگرہ فوج نے انہیں مجبور کیا کہ وہ اس راستہ سے ہو کر گزریں جہاں مسلح ٹولے جمع تھے ۔ پھر ایک فوجی افسر نے حکم دیا کہ ان کو پاکستان بھیج دو ۔ اس کے ساتھ ہی مہاراجہ بہادر کی جے پکارتے ہوئے فوجی اور ہندو غنڈے قافلہ پر ٹوٹ پڑے ۔ معدود ے چند ہی جان بچا کر بھاگ سکے۔اگلے دن مہاراجہ اور پرائم منسٹر اس قصبہ میں آئے اور قاتلوں کو ان کی کارگزاری پر مبارکباد دی ۔ ضلع کٹھوعہ سے تقریباً بارہ ہزار مسلمانوں پر مشتمل ایک قافلہ پاکستانی سرحد سے دومیل ادھر موضع کیسالی کے قریب گھیر کر ڈوگرہ فوجی اور جن سنگھیوں نے باڑہ پر دھر لیا۔ موضع بنڈور کے دو ہزار مسلمانوں کے قافلہ پر پاکستانی سرحد سے تین میل ادھر چھتی کھوئی کے مقام پر حملہ کیا گیا ۔چھتی رودون سے سات ہزار افراد پر مشتمل قافلہ پاکستان کی طرف ہجرت کر رہا تھا کہ ہیرا نگر کے مقام پراس پر حملہ ہوا ۔ موضع کوہاٹہ سے پانچ سو مسلمان ہجرت کے لیے نکلے جن میں سے صرف چند اشخاص ہی پاکستان پہنچ سکے ۔بدھل اور تولامولا کے تین ہزار افراد کا قافلہ نکلا تھا جس پر ماہی چک کے قریب حملہ ہوا۔

چھ ہزار مسلمانوں کا قافلہ نگری ، رواب اور چٹھا دیہات سے روانہ ہوا جس پر کھکھیار کے مقام پر حملہ ہوا سلنی ، کنڈی اور ہیرانگر کے مسلمان ہیرا نگر میں جمع ہوئے اور قافلہ کی شکل میں پاکستان کے لیے روانہ ہوئے لیکن تھوڑے ہی فاصلہ پر ڈوگرہ فوجیوں نے روک لیا اور کہا کہ اگر وہ نقدی اور زیورات ہمارے حوالہ کر دیں تو انہیں بحفاظت پاکستان پہنچادیا جائے گا۔چنانچہ زرکیثر کے عوض قافلہ کو آگے بڑھنے دیا گیا ۔ حفاظت کے لیے ایک دستہ بھی ساتھ ہو گیا ۔جب یہ قافلہ چھتی کھوئی پہنچاتو ایک سپاہی نے گولی چلادی اورمعا سنگھی جو پہلے سے گھات میں بیٹھے اشارے کے منتظر تھے اپنی کمین گاہوں سے نکل کر حملہ آور ہوئے ان میں سے ایک کے پاس برین گن تھی ۔دوہزار مسلمانوں کا قافلہ راجپورہ اور کگووال سے چلا راستہ میں اس پر بھی حملہ ہوا۔ سانبہ میں قصبہ اور مضافات کے دس ہزار مسلمان پاکستان جانے کے لیے جمع ہوئے ۔ان میں سے متعد دمردوں کوتالاب پر مدعو کیا گیا تاکہ امن کمیٹی بنائی جائے لیکن وہاں انہیں مسلح افراد نے گھیر لیا اور ان کے گھروں سے ان کی غیر موجودگی میں ان کی لڑکیاں اغوا کرلیں ۔

یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ صوبہ کے مختلف علاقوں بالخصوص اودھم پور ریاسی جموں اور کٹھوعہ سے ہزاروں عورتیں اغوا کر لی گئیں ۔ایک اندازے کے مطابق پچیس ہزار عورتیں اغوا ہوئیں ۔ گویہ تعداد کچھ زیادہ معلوم ہوتی ہے ۔05نومبر کو مسلمانوں سے کہا گیا کہ وہ فوری طور پر پولیس لائن پہنچ جائیں تاکہ انہیں پاکستان بھیجا جاسکے ۔ چنانچہ چندگھنٹوں میں پولیس گرؤانڈ میں ایک جم غفیر جمع ہو گیا ۔ 12بجے دوپہر چھتیس ٹرک لائے گئے گھبرائے ہوئے لوگ جلدی جلدی دھکا پیل کرتے سوار ہو گئے ۔ محتاط اندازے کے مطابق ہر ٹرک میں پچاس تا ساٹھ شخص سوار ہوئے ہوں گے ۔ان کے ساتھ کیا ہوا ، سانبہ ہائی سکول کے سکینڈ ماسٹر کی زبانی سنیے ۔
''ان میں میرے معمر والدین ،تین بھائی ،دو بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں ۔ دن کے دو بجے ٹرک روانہ ہوئے ۔ ستواری چھاؤنی میں ہم نے دیکھا کہ سڑک کے دونوں طرف مسلح ہندواور سکھ تیار کھڑے ہیں ۔یہ دیکھ کر مسلمان فکر مند ہوئے اور انہیں یقین ہو گیا کہ اب وہ محفوظ نہیں ہیں ۔ بعض نوجوانوں سے بھاگنے کے لیے ٹرک سے چھلانگیں لگائیں ، لیکن وہ کہاں جاسکے تھے ۔ سب قتل ہو گئے ۔ ٹرک ڈرائیوروں نے رخ کٹھوعہ روڈ کی طرف موڑ ااور رفتار تیز کر دی ۔ اس سے ہماری پریشانی اور بڑھ گئی ۔ہم نے دیکھا کہ ڈوگرہ فوجیوں کی جیپیں بھی آگے پیچھے جارہی ہیں ۔ ہم نے ڈرائیوروں سے پوچھا کہ ہمیں کدھر لے جارہے ہو ۔ پاکستان جانے کا راستہ تو دوسرا ہے انہوں نے جواباً کہاکہ وہ راستہ بند ہو گیا ہے ۔ اس لیے متبادل راستہ سے جارہے ہیں اور یہ فکر کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اگر مارنا ہی مقصود ہوتا تو ستواری چھاؤنی میں جتھے موجود تھے ''۔ مسافروں کی کیفیت بیان نہیں کی جاسکتی ۔خوف کے مارے بے حس و حرکت ہو گئے تھے۔عورتیں رو رہی تھیں ۔دریں اثنا ء چار پانچ ٹرک انجن کی خرابی یا پٹرول ختم ہونے کے بہانے روک لیے گئے ۔ان میں سوار لوگوں میں سے مجھے پھر کوئی نہیں ملا۔ نمازمغرب کے وقت چار ٹرک سانبہ شہر کے قریب روک لئے گئے ۔ ہم جونہی اترے ہمیںگھیر کر ایک میدان کی طرف لے جایا گیا اور بیٹھ جانے کو کہا گیا۔ عورتوں اور مردوں کو علیحدہ کر دیا گیا ۔ اس میدان کی دو جانب ایک پہاڑی تھی۔ تیسری جانب ٹرک کھڑے تھے۔ چوتھی طرف فوجیوں نے مشین گن لگا رکھی تھی ، لہذ ا نکل بھاگنے کا کوئی راستہ نہ تھا۔ حملہ آور چھ یا سات ٹولیوں میں منقسم تھے جن کے پاس رائفلیں ، بندوقیں ، تلواریں اور برچھیاں تھیں ۔ جو نقدی ، زیورات اور دیگر اشیاء چھین رہے تھے وہ اچھوت تھے ۔ ایک گروہ عورتوں کو قابو کر رہا تھا۔ کچھ افسر تھے جو انہیں احکام دے رہے تھے۔ یہ شیطانی انتظامات ایسے مکمل تھے جس سے یقین ہوتا تھا کہ غنڈوں کی کافی عرصہ تربیت کی گئی ہے۔ ''مظلومین کو چھ چھ کی ٹولی میں ایک طرف لے جا کر قتل کیا جا رہا تھا۔ میں نے جوتے اتارے اور بھاگ کھڑا ہوا۔ مجھ پر گولی چلائی گئی لیکن بچ گیا لیکن میرے دیگر لواحقین کا پھر کچھ اتاپتہ نہ ملا "۔ ان تاریخی حقائق سے یہ واضح ہے کہ جموں میں مسلمانوں کا قتل عام ایک منظم منصوبہ بندی سے مہاراجہ ہری سنگھ کی سرپرستی میں ہوا اور اس کا آغاز ستمبر 1947 میں ہوا۔ قبائلیوں کے کشمیر میں آنے سے کافی عرصہ قبل یہ قتل عام شروع ہو چکا تھا ۔


واپس کریں