دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
اسرائیلی جارحیت عالمی امن کے لئے سنگین خطرہ
سید مجاہد علی
سید مجاہد علی
ایک ماہ ہونے کو ہے۔ غزہ پر اسرائیل کی خوفناک بمباری کا سلسلہ جاری ہے اور دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ نہایت ڈھٹائی سے اسرائیل کی حمایت میں ’ڈٹا‘ ہوا ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس کا خاتمہ کیے بغیر جنگ بند نہیں وہگی۔ امریکی وزیر خارجہ کا دعویٰ ہے کہ اس وقت بمباری بند ہونے سے حماس کو اپنی صلاحیت از سر نو منظم کرنے کا موقع مل جائے گا۔اس لایعنی اور سفاکانہ طرز عمل اور اسرائیلی جنگ جوئی کے خلاف امریکہ سمیت تمام مغربی ممالک میں شدید مظاہرے ہو رہے ہیں۔ ہفتہ کے روز ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں ایسے ہی ایک مظاہرے میں پولیس کی اطلاعات کے مطابق 9 ہزار لوگ شریک تھے۔ واضح رہے ناروے پانچ لاکھ نفوس پر مشتمل ایک چھوٹا سا ملک ہے اور یہاں احتجاج یا اجتماعات میں بڑی تعداد میں شرکت کی کوئی روایت بھی موجود نہیں ہے۔ اسی طرح بڑے یورپی ملکوں میں ہونے والے مظاہروں میں لاکھوں افراد شرکت کر رہے ہیں۔ اسرائیل کی ہٹ دھرمی اور انسانیت سوز مظالم رکوانے کے لئے یہ مظاہرے اب روز کا معمول بن چکے ہیں۔ ان تمام ممالک کے عوام اپنے لیڈروں کی حکمت عملی کو مسترد کر کے یہ واضح کر رہے ہیں کہ غزہ پر بمباری کا سلسلہ فوری طور سے بند ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے یہ حقیقت بھی نوٹ کرنے کی ضرورت ہے کہ متعدد یہودی تنظیوں اور گروپوں نے بھی اسرائیلی جارحیت سے اظہار لاتعلقی کیا ہے بلکہ جنگ کے خلاف امریکہ کے شہروں واشنگٹن اور نیویارک میں مظاہرے یہودی تنظیموں ہی نے منظم کیے تھے اور ان میں بہت بڑی تعداد میں یہودیوں نے حصہ لیا تھا۔

بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے اسرائیل نے غزہ کے 24 لاکھ محصور لوگوں کو 7 اکتوبر سے مسلسل تختہ مشق بنایا ہے۔ اس کی بمباری سے نہ تو پناہ گزینوں کے مراکز محفوظ ہیں، نہ ہسپتالوں یا اسکولوں کو وحشیانہ فضائی حملوں سے استثنی دیا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوئیتریس اور دیگر عالمی اداروں کے سربراہان یا انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیوں نے اسرائیلی طرزعمل کو انسانیت کے خلاف اقدام قرار دیا ہے جو عالمی قوانین اور انسانی اقدار کے خلاف ہیں۔ اسرائیلی وحشت و بربریت کا اندازہ ایک اسرائیلی وزیر امیچے اینی یاہو کے اس بیان سے لگایا جاسکتا ہے جس میں انہوں نے غزہ میں سب لوگوں کو ہلاک کرنے اور ایٹمی ہتھیار سے فلسطینیوں کو نیست و نابود کرنے کی تجویز دی ہے۔ ایک ریڈیو انٹرویو میں اس انتہاپسند اسرائیلی وزیر کا کہنا تھا کہ وہ غزہ پر اسرائیلی حملوں سے مطمئن نہیں ہیں۔ اسرائیلی فوج کو زیادہ شدت سے حملہ کرنا چاہیے اور یہ مقصدحاصل کرنے کے لیے اگر حماس کے قبضہ میں اسرائیلی یرغمالی بھی ہلاک ہوتے ہیں تو اس کی بھی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔

غزہ پر اسرائیلی بمباری سے آج رات تک جاں بحق ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد دس ہزار تک پہنچ چکی تھی۔ ان میں چار ہزار بچے اور تین ہزار خواتین شامل ہیں۔ ہزاروں افراد عمارتوں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں اور کسی کو معلوم نہیں کہ وہ زندہ ہیں یا ہلاک ہوچکے۔ انہیں باہر نکالنے کا بھی کوئی انتظام نہیں ہے کیوں کہ اسرائیل ہر مقام پر ہر وقت بمباری کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ شمالی غزہ میں زمینی کارروائی کی جا رہی ہے اور ایک اعلان کے مطابق اسرائیلی فورسز نے غزہ شہر کا محاصرہ کر لیا ہے۔ اس اقدام کے بارے میں اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ غزہ شہر حماس کے دہشت گردوں کی پناہ گاہ ہے اور اسرائیلی فوج وہاں پر موجود حماس کے تمام ٹھکانے تباہ کرے گی اور تمام جنگجوؤں کو ہلاک کیا جائے گا۔ البتہ اس بات کو کوئی عملی ثبوت سامنے نہیں لایا گیا کہ اس کارروائی کے دوران اسرائیلی فوج نے کون سے اہداف حاصل کیے ہیں۔

متضاد بیانات اور غزہ پر بمباری کی شدت سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ اسرائیلی فوجیں غزہ میں اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہیں۔ اسے بظاہر حماس کے جنگجوؤں کی طرف سے مزاحمت کا سامنا ہے، اس لیے زمینی فوج کی نقل و حرکت یا ’افادیت‘ محدود ہے۔ البتہ فضائی بمباری کے ذریعے لوگوں کو ہلاک کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ سرکاری طور اعلانات کے مطابق اس بمباری سے حماس کے ٹھکانوں کو تباہ کرنا یا حماس کے جنگجوؤں کو ہلاک کرنا مقصود ہے لیکن درحقیقت اس کا نشانہ عام شہری ہیں حتی کہ ایمبولینسز، ہسپتال، اسکول، امدادی مراکز، پناہ گزین سنٹر یا کوئی بھی سول ٹارگٹ محفوظ نہیں ہے۔ اس بارے میں دلیل دی جاتی ہے کہ حماس فورسز ہسپتالوں اور اسکولوں میں پناہ لیتی ہیں اور وہاں سے اسرائیل پر راکٹ پھینکے جاتے ہیں۔ حالانکہ ان راکٹوں کے غیر موثر ہونے کا اعلان بھی اسرائیلی حکومت خود ہی کرتی رہتی ہے۔ اس کا میزائل سسٹم ’آئیرن ڈوم‘ اسرائیل کی طرف آنے والے ہر راکٹ کو مار گرانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ، صدر جو بائیڈن نے اس حفاظتی میزائل نظام کو مزید موثر کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔

پوری دنیا کے شہری اب اسرائیل کے اس عذر کو مسترد کرچکے ہیں کہ حماس کے خاتمہ کے لیے غزہ کے محصور شہریوں پر بمباری ضروری ہے۔ یہ ہتھکنڈا نہ صرف عالمی قانون کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ بھی واضح ہو رہا ہے کہ فضائی حملوں سے حماس کو ختم کرنا ممکن نہیں ہے۔ لیکن اسرائیلی حکومت انسانیت سوز جنگ جوئی سے دو مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ایک اپنے عوام کو باور کروایا جائے کہ ان کی حکومت 7 اکتوبر کے حملہ میں ہلاک ہونے والے 1500 اسرائیلی شہریوں کا انتقام لینے کے لیے غزہ پر فلسطینی آبادی کی اینٹ سے اینٹ بجا رہی ہے۔ اس کا دوسرا مقصد غزہ کے شہریوں کو وہاں سے باہر دھکیلنا ہے تاکہ اسرائیل اس فلسطینی علاقے کو سکیورٹی کے نام پر ہڑپ کرسکے اور وہاں یہودی بستیاں آباد کردی جائیں۔

عالمی رائے عامہ پر اب اسرائیل کے یہ عزائم کھل کر سامنے آرہے ہیں کہ وہ امن و تحفظ کی بجائے جنگ جوئی کا خواہاں ہے تاکہ کسی بھی طرح یا توفلسطینیوں کو اپنے تمام علاقے خالی کر کے کسی دوسرے ملک میں فرار ہونے پر مجبور کیا جائے یا پھر انہیں ہلاک کر دیا جائے۔ اسی لیے اسرائیلی وزیر اعظم اور دیگر عہدیدار تواتر سے کہتے رہے ہیں کہ غزہ کے شہری جان بچانے کے لیے مصر کے علاقے سینائی میں کیوں آباد نہیں ہو جاتے۔ یہ حکمت عملی اس علاقے میں طے شدہ دو ریاستی منصوبہ کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔ لیکن اسرائیل نے کبھی اس اصول کو تسلیم ہی نہیں کیا کہ فلسطینیوں کو اپنا علیحدہ وطن ملنا چاہیے۔ امریکہ اگرچہ اصولی طور پر دو ریاستوں کے قیام کو ہی مسئلہ کا مستقل حل سمجھتا ہے لیکن عملی طور سے اسرائیلی جنگجوئی کی حمایت کی جا رہی ہے جس کا واحد مقصد دو ریاستی حل کو ناکارہ اور غیر ضروری ثابت کرنا ہے۔

رملہ میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے آج فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس سے ملاقات کی۔ اس موقع پر محمود عباس نے اسرائیلی حملوں کو فلسطینیوں کی نسل کشی قرار دیا۔ بلنکن نے ملاقات کے بعد میڈیا سے بات کرنے سے گریز کیا۔ درحقیقت ان کے پاس نہ تو مسئلہ کا کوئی حل تھا اور نہ ہی امریکہ اسرائیلی جارحیت ختم کروانے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ صدر بائیڈن کے بیانات اور حکمت عملی سے ایک ہی بات واضح ہوتی ہے کہ اسرائیل اس علاقے میں من مانی کرتا رہے تاہم یہ جنگ غزہ تک ہی محدود رہے اور اس کا دائرہ عمل علاقے کے دیگر ممالک تک نہ پھیل جائے۔ البتہ اگر اسرائیلی دہشت گردی اور ظلم کا موجودہ سلسلہ جاری رہا اور امریکہ نے جنگ بند کروانے اور مظلوم شہریوں کی ہلاکت رکوانے کے لیے کوئی عملی اقدام نہ کیا تو محض جنگی بیڑا بھیجنے اور اسرائیل کی عسکری قوت میں اضافہ کرنے سے جنگ کو پھیلنے سے نہیں روکا جا سکے گا۔ ایرانی لیڈر اور لبنان میں حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ نے واضح کیا ہے کہ وہ جنگ کو توسیع نہیں دینا چاہتے لیکن وہ ہر قسم کی انتہائی صورت حال کے لیے تیار ہیں۔ امریکہ نے اگر غزہ میں ہونے والے مظالم کا سلسلہ بند نہ کروایا تو پھر نہ صرف یہ جنگ پھیل سکتی ہے بلکہ بحیرہ روم میں امریکی بحری بیڑا بھی محفوظ نہیں رہے گا۔

غزہ میں اسرائیلی بمباری کو عام طور سے جنگ کا نام دیا جاتا ہے۔ خاص طور سے مغربی میڈیا یہ تاثر دینے کی کوشش کرتا ہے جیسے اسرائیل اپنے تحفظ کے لیے حماس نامی کسی بہت بڑی قوت سے نبرد آزما ہے۔ حالانکہ یہ جنگ دنیا کی ایک جدید طاقت ور عسکری قوت اسرائیل اور غزہ کے نہتے شہریوں کے درمیان ہے۔ اسرائیل آسمان سے بارود کی بارش کرتا ہے اور زمین پر بے بس انسان اس تباہی کا نشانہ بنتے ہیں۔ اس یک طرفہ جارحیت کو جنگ کا نام دینا بجائے خود ایک گمراہ کن اصطلاح ہے۔ اگرچہ حماس اسرائیل کو تباہ کرنے کا دعویٰ کرتا رہتا ہے لیکن اس کے پاس اسرائیل کو نقصان پہنچانے کے وسائل نہیں ہیں۔ اسی طرح یہ بھی ناقابل فہم ہے کہ اسرائیلی فضائیہ کے طیارے اور توپیں شہری علاقوں پر حملے کر کے کیسے حماس کے پندرہ بیس ہزار جنگجوؤں کو ہلاک کر سکتی ہیں۔

یہ جنگ جوئی یک طرفہ اور ایک طاقت ور فوج کے ہاتھوں نہتی و محصور آبادی پر موت مسلط کرنے کی انسانیت سوز کوشش ہے۔ اس تنازعہ کو فوری طور سے ختم کرنا ہی عالمی امن کے لیے ضروری ہے ورنہ اس جنگ میں ایسے تمام عناصر موجود ہیں جو کسی بھی لمحے کسی بڑے تنازعہ میں تبدیل ہوسکتے ہیں۔ اگر یہ لڑائی مشرق وسطی کے دیگر ممالک تک پھیل گئی تو اسے تیسری عالمی جنگ میں تبدیل ہوتے دیر نہیں لگے گی۔ امریکہ یوکرین کے محاذ پر روس کے ساتھ برسر پیکار ہے۔ اگر اسرائیل کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں ایران اور اس کے حلیف گروہوں کے خلاف جنگ جوئی کا ارادہ کیا گیا تو امریکی وسائل اور جنگی طاقت بھی دو محاذوں پر طویل المدت جنگ میں کامیاب نہیں ہو سکے گی۔اس دوران امریکہ کو مصروف رکھنے کے لیے کوئی تیسرا محاذ بھی کھل سکتا ہے۔ اس خطرناک صورت حال کا تصور ہی اس دنیا کے پر امن شہریوں کے لیے ناقابل قبول ہے۔ اسی لیے اقوام عالم کے شہری فوری جنگ بندی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

بشکریہ کاروان ناروے
واپس کریں