دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
یہ حکومت چلے گی ؟
عاصمہ شیرازی
عاصمہ شیرازی
ایوان صدر کی تقریب میں ’زندہ ہے بی بی، زندہ ہے‘، ’ایک زرداری، سب پر بھاری‘ کے نعرے تھے اور آصف علی زرداری تاریخ میں دو بار منتخب ہونے والے واحد صدر بن رہے تھے۔ سامنے کُرسی پر چوتھی بار وزیراعظم کا وعدہ لے کر پاکستان لوٹنے والے نواز شریف براجمان تھے جو نہ تو چوتھی بار وزیراعظم بن سکے اور نہ ہی شاید قومی اسمبلی میں زیادہ دیر بیٹھ سکیں۔ 2013 میں نواز شریف کی حکومت وجود میں آنے والی تھی اور آصف علی زرداری کی ایوان صدر کی شاید یہ آخری چند شاموں میں سے ایک شام تھی۔ میں اور محترم حامد میر صاحب ایوان صدر میں مدعو تھے۔ رخصت ہوتے صدر مملکت سے سوال پوچھا کہ آپ کو عہدہ چھوڑنے کے لیے کس قدر دباؤ کا سامنا رہا یہاں تک کہ آپ کو ’ایمبولینس میں ہی واپس جاؤں گا‘ کی دھمکی دینا پڑی؟ اس پر صدر زرداری نے مختصر سی تفصیل بتائی کہ کس طرح اُس وقت کی عسکری قیادت نے اُنھیں مستعفی ہونے کا مشورہ دیا جس کے جواب میں اُنھوں نے ڈٹ جانے کا فیصلہ کیا۔

میمو گیٹ کا دباؤ بھی کچھ کم نہ تھا مگر آصف علی زرداری نہ صرف ملک میں موجود رہے بلکہ ڈٹ کر عسکری اور سیاسی دباؤ کا سامنا کیا۔آصف علی زرداری کی مشہور زمانہ ’اینٹ سے اینٹ بجانے‘ کی تقریر اور بعد میں اُس وقت کی حکومت کا ردعمل بھی یاداشتوں میں محفوظ ہے۔ ایک وقت وہ بھی آیا کہ محض ڈھائی سال قبل آصف زرداری سے ملک چھوڑنے کا مشورہ نما ’اصرار‘ کیا گیا تاہم انھوں نے اس دباؤ میں جیل کا سامنا بھی کیا اور مقتدرہ کے خلاف خاموش مزاحمت بھی جاری رکھی۔

سیاست ممکنات کا نام ہے اب حالات یقیناً مختلف ہیں۔ آصف علی زرداری اب ایک بار پھر ایوان صدر میں ہیں اور موجودہ حکومت کی بقا کے ضامن بھی۔ جب سے حکومت تشکیل پائی ہے یہ سوال بارہا اُٹھایا جا رہا ہے کہ کیا یہ حکومت چل پائے گی؟ اس کا جواب صرف ایک شخصیت کے پاس ہے اور اُس کا نام ہے آصف علی زرداری۔یہ ’سیاسی بندوبست‘ مقتدرہ کا ہے یا کسی اور کا مگر اس حکومت کی چابی زرداری صاحب کے ہاتھ ہے اور یہی وہ اطمینان ہے جو شہباز حکومت کو حاصل ہے۔ البتہ پیپلز پارٹی کا کابینہ کا فی الحال حصہ نہ بننا شہباز حکومت کے لیے باعث اضطراب ہے۔ اس سلسلے میں خاموش مفاہمت کو بہرحال کسی اہم موڑ تک پہنچنا ہے۔آئی ایم ایف سے مذاکرات کے بعد پیپلز پارٹی کابینہ کا حصہ بن سکتی ہے تاہم اس کے لیے ’سسٹم‘ اپنا اثرورسوخ بھی استعمال کر سکتا ہے۔ حکومت کا چلنا نہ صرف اسٹیبلشمنٹ کے لیے ضروری ہے بلکہ ملک بھی اب کسی قسم کا سیاسی بحران برداشت نہیں کر سکتا۔

یہ حکومت یوں بھی چلتی دکھائی دیتی ہے کہ بظاہر پنجاب میں مسلم لیگ ’ن‘ کی اکثریتی حکومت ہے اور اس حکومت کو عددی اعتبار سے کوئی خطرہ نہیں البتہ میاں نواز شریف کے حلقے کھلنے کی صورت میں کیا ہو گا اس پر ن لیگ کے تحفظات موجود ہیں۔وفاق میں مسلم لیگ ’ش‘ یعنی شہباز شریف حکومت کے بظاہر اختیارات سویلین جبکہ اصل اختیارات ایس آئی ایف سی کے پاس ہیں اور اس پر اُنھیں کوئی اعتراض بھی نہیں۔ یہ بندوبست بھی حکومت کے چلنے کی ہی ضمانت ہے۔تحریک انصاف سڑکوں پر رہے گی مگر کب تک؟ بالآخر اُنھیں کسی ایک ضابطے میں آنا ہو گا۔ اُن کا آخری تکیہ اب مولانا فضل الرحمان پر ہے مگر مولانا پہلے سے کہیں زیادہ سمجھدار ہیں۔ 2019 کے دھرنے میں اُن کے ہاتھ کچھ نہ آیا البتہ اُن کے حلیفوں کے ہاتھ بہت کچھ آیا۔ مولانا فضل الرحمان اب ایک اور جیل میں بند سیاسی رہنما کے لیے ’راستہ‘ فراہم کرنے کی غلطی نہیں کریں گے۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ مولانا موجودہ حزب اختلاف کی قیادت کے خلا کو اپنے حق میں استعمال کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے اور نا ہی حزب اختلاف کی پذیرائی اور مقبول سیاست کا یہ نادر موقع گنوائیں گے۔ تحریک انصاف اُن پر انحصار کرے گی اور وہ کس پر انحصار کریں گے یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔جمہوریت اب ہائبرڈ سے ہائبرڈ پلس ہو چکی ہے۔ کیا اب ایسا ہی نظام چلے گا جس میں ’وہ‘ پیچھے رہیں گے اور سامنے چہرے بدلتے رہیں گے؟ کیا اسی نظام کو سیاسی قبولیت بھی حاصل ہو چکی ہے؟ ایسے میں معاشی تقاضے اپنی جگہ مگر آئینی تقاضے کیسے پورے ہوں گے یہ بہرحال ایک بڑا چیلنج رہے گا۔

بشکریہ بی بی سی اردو
واپس کریں