دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پریس بنام حکومت
منظور حسین گیلانی
منظور حسین گیلانی
جسٹس (ر) سید منظور حسین گیلانی
آزاد کشمیر میں کئ ماہ سے آزاد کشمیر کے نامی گرامی صحافیوں ، جن میں سر فہرست آزاد کشمیر کے قومی اخبار ، جموں کشمیر کے عامر محبوب اور ان کے گرپ کی حکومت کے ساتھ نوک جھونک چلی آرہی ہے - ان کا نشانہ خصوصی طور وزیر اعظم اور ان کے توسط سے ساری حکومت ہے - ناراض صحافی اپنے غم و غصہ کا اظہار اپنے اپنے اخبار میں الزامات پر مبنی بیان بازی اور وڈیو پرو گرام کے زریعہ ، جبکہ حکومت ان الزامات کی تردید اور فی زمانہ مقبول ابلاغ عامہ سو شل میڈیا پر حکومت کے خلاف بیان بازی پر قانونی گرفت مضبو ط سے مضبوط تر کرنے کے لئے قانون سازی کر رہی ہے - ایسا لگتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کو آج نہیں تو کل پچھاڑ کے رکھ دیں گے ، لیکن یہ دونوں کی خام خیالی ہے - جدید سیاسی دنیا میں دونوں کی اہمیت مسلمہ ہے - پریس کے پاس عوامی زہن سازی جبکہ حکومت کے پاس قوت قاہرہ موجود ہے ، اس کے باوجود دونوں کو ایک ساتھ چلنا پڑے گا ، بہ الفاظ دیگر Coexist کرنا پڑے گا -
فی زمانہ پریس حکومت کی آنکھیں اور کان کی حیثیت رکھتا ہے - حکومت کو موثر، مستحکم ، ٹرانسپیرنٹ ، اس کی بیروکریسی کی کرپشن سے پاک اور گڈ گورننس کو یقینی بنانے کے لئے اس پر نظر رکھنی اور حکومت کو ان میں نقائص کی نشاندہی کرنا پریس کی زمہ داریوں میں شامل ہے - ایسا کرنے کے لئے حکومت کے لئے پریس کو ضروری سہولیات، اطلاعات تک رسائی اور صحافیوں کو تحفظ دینا ضروری ہے - بغیر تحقیقات کے خبر دینا یا دانستہ طور غلط خبر دینا یا سنسنی پھیلانے والی خبریں دینا صحافت کی پیشہ ورانہ اخلاقیات کے خلاف عمل ہے، اس کے لئے حکومت پر قانون سازی کرنا ریاستی مفاد میں ہے - اخباری بیان بازی کے مطابق حکومت الیکٹرانک میڈیا جو سوشل میڈیا کے ہر پہلو کا احاطہ کرتا ہے کے بارے میں قانون سازی کرکے اپنے خلاف خبریں لگانے والے صحافیوں کے خلاف کاروائ کرنا چاھتی ہے ، بلکہ کچھ صحافیوں کے خلاف مبینہ طورایف - آئ -آر درج کراکر seal (مہر بند ) کی گئ ہے -
میری علمیت کے مطابق یہ دونوں باتیں غلط اور قانونی طور ممکن نہیں - الیکٹرانک میڈیا کو منظبط کرنے کے لئے پینل کوڈ میں 2020 میں ترمیم کے زریعہ اتنا واضع اور جامعہ قانون بنایا گیا ہے جو اس سلسلے میں ہر جرم کا احاطہ کرتا ہے اور اس میں اس وقت تک نہ کوئ ترممیم ہوئ ہے نہ میری اطلاعات کے مطابق زیر غور ہے- اگر کوئ ترمیم یا تجدید ہوئ بھی تو وہ پاکستان میں رائج قوانین کے مطابق ہی ہوگی - ہاں ہمارے قانون سازوں اور ڈرافٹنگ اتھارٹیز کو قانوں سازی کے حدود اختیار کو ملحوظ خاطر رکھنا پڑے گا - آزاد کشمیر اور پاکستان جیسا بے ہنگم ریلشنشپ شاید ہی دنیا میں کہیں اور ہو -میری نوٹس میں ایک اور قانون بھی ہے جو صحافیوں کے بارے میں ہی نہیں بلکہ تعزیرات پاکستان میں موجود Defamation کی دفعات کو زیادہ موثر طور نافذ کرنے کے لئے پورے پاکستان میں پہلے سے نافذ ہے اور آزاد کشمیر اسمبلی میں 2018 سے پڑا ہوا ہے ، اس کے ساتھ انوار الحق حکومت کا کوئ لینا دینا نہیں -
جہاں تک کسی کے خلاف ایف ، آئ ، آر درج کر کے مہر بند کی گئ ہے کی افواہ کا تعلق ہے ، یہ قانونی طور ممکن نہیں - ضابطہ فوجداری کے تحت جب کسی قابل دخل اندازی پولیس جرم کے بارے میں ابتدائ رپورٹ درج ہوتی ہے وہ پبلک ڈاکیو منٹ ہوتا ہے اور کوئ بھی اس کی نقل لے سکتا ہے اور اس کے درج ہونے کے فورآ بعد اس پر تفتیش کا عمل شروع ہوجاتا ہے - میری علمیت کے مطابق ضابطہ فوجداری میں کوئ ایسی دفعہ نہیں جس کے تحت ایف ، آئ ، آر کو مہر بند یا سر بہ مہر کیا جائے یا بدوں کاروائ چھوڑ دیا جائے - یہ مظلومیت ظاہر کر کے عوامی ہمدردیاں حاصل کرنے کا ایک پرانا طریقہ ہے ، جس کا قانون کی دنیا کے ساتھ کوئ تعلق نہیں - میری معلومات اور تحقیق کے مطابق صحافیوں میں سے سب سے زیادہ شاکی عامر محبوب اور وزیر اعظم کے درمیان عوامی یا قومی اہمیت کے حامل کسی ایشو پر بیر یا اختلاف نہیں ، ایک دوسرے کو تسلیم کرنے پر تحفظات ہیں ، وہ انسانی فطرت کا خاصہ ہے ، جس کو انا میں نہیں بدلنا چاھئے بلکہ متفق الیہ امور کو لے کے آگے بڑھنا اور اختلافی معاملات کے لئے درمیانی راستہ نکالنے میں ہی دونوں کی عافیت ہے - میں بحث کو ان دو اصحاب تک محدود کرتے ہوئے میں یہ رائے قائم کروں تو غلط نہ ہوگا کہ ان کی مبینہ طور برس ہا برس کی رفاقت اور ساتھ کے بعد انوار الحق صاحب کی عام سیاسی ورکر سے پوزیشن بدلنے کے بعد آزاد کشمیر کے وزیر اعظم بننے سے ان کی زمہ داری ہمہ گیر اور کام کی نوعیت بدل گئ ہے اس لئے انہوں نے نئی زمہ داریوں کے تقاضے پورے کرنے کے لئے اس منصب کے تقاضے پورے کرنے پڑتے ہونگے جس کے لئے قانون اور قواعد کا غلام بننا پڑتا ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کی نظروں سے ان کے احباب کا مرتبہ گر گیا ہوگا بلکہ وہ تنہا بھی ہو گئے ہونگے - ان کے احباب ، بشمول عامر محبوب صاحب کو اس زاویہ نظر سے بھی دیکھ کر ان کو شک کا فائیدہ دینا چاھئے -
میں اس آزمائش کا ایک نہیں کئ با ر شکار ہوا ہوں ، بلکہ ریٹائیر منٹ کے بعد بھی میرے احباب نے ہی میرے ہم منصب پاکستانی ججوں جیسی مراعات سے مجھے حکومتی سیکریٹریرویوں پر دباؤ ڈال کر محروم کروایا- میں اس کو ادروں کا بھرم اور معتبرین کی معتبریت کا بحال رکھنے کے لئے پی گیا، کیونکہ —اپنا اپنا ظرف ہے دونوں ادا کرتے رہیں- میں اس کے بعد زیادہ پر عزم اور مستعد ہوا ہوں- میرا چوہدری انوار الحق سے آزاد کشمیر میں اپنی لگ بھگ پچاس سالہ زندگی میں کوئ تعلق نہیں رہا جبکہ عامر محمود کے ساتھ کم و بیش بیس سال سے شناسی اور ان کے اخبار میں مستقل کالم بھی لکھتا ہوں - میں انوار الحق صاحب کو یہ کریڈٹ ضرور دوں گا کہ انہوں نے طورسیاسی طور تنہا شخص ہونے کے باوجود مبینہ طور انتظامی اور مالی طور بہت سی اصلاحات کی ہیں اور حکومت کے معاملات پر مکمل گرفت ہے - سیکریٹری سے لیکر کلرک تک ریگولر ہوگئے ہیں اور حاضر باشی میں ان کی چیخیں نکل گئ ہیں ، گوکہ کار کردگی میں فرق نہیں پڑا - انوار الحق تین بڑی پارٹیوں کے ممبران اسمبلی جن میں دو سابق وزیر اعظم اور ہر کو وزیر اعظم بننے کے خواب دیکھ رہا ہے کو بلا شکایت ساتھ چلا رہے ہیں - یہ بات ان کی سکل کی پختگی ہے - میں عامر محبوب صاحب کو بھی حکومت کے دیکھے ، ان دیکھے دباؤ کو خاطر میں نہ لاکر اپنی صحافتی زمہ داریوں کو بے باکی سے بدرجہ اُ ُتم ادا کرنے پر پورا کریڈٹ دیتا ہوں جس نے حکومتی مشینری کے خلاف ہونے کے باوجود اپنا معیار قائم رکھا ہے - میری تحقیق پر معلوم ہوا کہ پریس سے متعلق حکومت کے معمول کے اختیارات جیسے اشتہارات وغیرہ میں حکومت ان کے اخبارات کی حد تک نا انصافی برت رہی ہے - قانون کا بھی یہ تقاضا ہے کہ حکومتی اشتہارات وسیع سرکولیشن والے اخبارات کو دینے چاھئیں تاکہ ہر کوئ با خبر ہوکر مقابلے میں حصہ لے سکے - ریاست ماں کی جیسی ہوتی ہے اس کو سب کے ساتھ مساوی سلوک اور انصاف کر نا چاھئے - وزیر اعظم صاحب میں بے شمار خو بیوں کے باوجود اگر یہ خامی ہے تو اس کو اپنے منصب کو ملحوض خاطر رکھتے ہوئے ٹھیک کرنا چاھئے -
فی زمانہ عوامی حکومت کو اس حقیقت کا ادراک کرنا چاھئے کہ اس کی قوت قاہرہ کا دار و مدار اس کی ساکھ پر منحصر ہے طاقت پر نہیں ، جبکہ اس سے ٹکرانے والی قوتوں کو بھی اس حقیقت کا ادراک کرنا چاھئے کہ حکومت کسی ایک فرد یا چند افراد کا نام نہیں بلکہ طاقت کے مختلف مراکز کا ارتکاز convergence حکومت کہلاتی ہے - جس طرف ان مراکز کے اندر مقنا طیسی طاقت کا جھکاؤ ہوگا وقتی طور اسی کی بالا دستی قائم رہے گی ، لیکن مقناطیس بھی غیر متزلزل طاقت نہیں ہوتی آس پاس کی حرارت اور تپش سے پگل کر اپنی طاقت کھو بیٹھتی ہے - اس لئے یہ طاقت آس پاس کی درجہ حرارت پر منحصر ہے - اس کا دراک کرنے کی ضرورت ہے ، حرارت کو بڑھنے نہ دیں - حکومت چونکہ عوام اور خواس پر تقدم رکھتی ہے - اس کے دوام اور کامیابی کے لئے اس کو سہل روی (smooth sailing ) کی پالیسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے - اس معاملے میں حکومت کو اپنا ہاتھ بڑھانے کی ضرورت ہے ، کیونکہ دینے والے ہاتھ (Giving Hand ) پر لینے والے ہاتھ (Receiving Hand ) کے مقابلے میں زیادہ زمہ داریاں ہوتی ہیں - وہ اپنی زات سے کچھ نہیں دیتا ، اللہ کے دئے ہوئے سے دیتا ہے - ان حقائق کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے -
واپس کریں