دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
خاموش انقلاب کیسے برپا کیا جائے
یاسر پیرزادہ
یاسر پیرزادہ
اگر آپ یو ٹیوب پر Gassan Kanafani interview لکھ کر تلاش کریں گے تو آپ کے سامنے ایک فلسطینی حریت پسند غصان کنافانی کا انٹرویو آ جائے گا، یہ اس انقلابی شخص کا انٹرویو ہے جسے اسرائیلی خفیہ تنظیم موساد نے طیارہ اغوا کرنے کے الزام میں گاڑی میں بم نصب کر کے ہلاک کر دیا تھا۔ کنافانی کی عمر اس وقت چھتیس برس تھی، اس واقعے میں اس کی سترہ سالہ بھتیجی بھی موقع پر جاں بحق ہو گئی تھی۔ یہ انٹرویو دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے، انٹرویو لینے والے صحافی کا تعلق آسٹریلیا سے ہے، وہ کنافانی سے خاصے مشکل سوالات کرتا ہے اور اس کی کوشش ہے کہ کسی طرح فلسطینی حریت پسندی کو دہشت گردی سے جوڑ دیا جائے مگر کنافانی بے حد ذہانت سے اس کے تمام سوالات کا جواب دیتا ہے۔ دونوں کا مکالمہ کچھ اس طرح ہے :

صحافی: ”یوں لگتا ہے جیسے (اس خطے میں جاری ) خانہ جنگی بے ثمر ثابت ہو رہی ہے! “
کنافانی: ”یہ خانہ جنگی نہیں ہے، یہاں لوگ ایک فسطائی حکومت کے خلاف اپنا دفاع کر رہے ہیں۔ یہ خانہ جنگی نہیں ہے۔“
صحافی: ”چلیے اسے تنازعہ کہہ لیتے ہیں۔“
کنافانی: ”یہ تنازعہ بھی نہیں ہے، یہ آزادی کی لڑائی ہے جو انصاف کے لیے لڑی جا رہی ہے۔“
صحافی: ”چلیں اسے جو بھی بہتر طریقے سے کہہ لیں۔“
کنافانی: ”یہ ’جو بھی‘ نہیں ہے کیونکہ یہیں سے مسئلہ شروع ہوتا ہے، کیونکہ یہیں سے آپ کو اپنے تمام سوالوں کا جواب ملے گا، بالکل یہیں سے تو مسئلہ شروع ہوتا ہے، یہاں لوگ ہیں جن کے خلاف تعصب برتا جا رہا ہے اور وہ اپنے حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں، یہ تاریخ ہے، اگر آپ اسے خانہ جنگی کہیں گے تو آپ کے سوالات کو جواز مل جائے گا، اگر آپ کہیں گے کہ یہ تنازعہ ہے تو لا محالہ آپ کو حیرانی ہوگی کہ پھر یہ سب کیا ہو رہا ہے۔“
صحافی : ”آپ کی تنظیم اسرائیل سے امن مذاکرات کیوں نہیں کرتی؟“
کنافانی: ”آپ کا مطلب حقیقت میں امن مذاکرات نہیں ہے، اصل میں آپ کا مطلب ہے ہتھیار ڈالنا؟“
صحافی : ”کیوں نہ صرف بات چیت کی جائے؟“
کنافانی : ”کس سے؟“
صحافی : ”بات چیت اسرائیلی لیڈران سے۔“
کنافانی : ”گویا آپ کا مطلب ہے کہ جارحیت کی ننگی تلواروں اور معصوموں کی گردنوں کے درمیان بات چیت ہو؟“
صحافی : ”اگر کمرے میں تلواریں اور بندوقیں نہ ہوں تو بھی آپ بات کر سکتے ہیں۔“
کنافانی : ”میں نے آج تک کسی نو آبادیاتی طاقت اور آزادی کی جد و جہد کرنے والوں کے درمیان مذاکرات ہوتے نہیں دیکھے۔“
کنافانی : ”اس کے باوجود، بات چیت کیوں نہ کی جائے؟“
کنافانی : ”کس بارے میں بات چیت؟“
صحافی : ”لڑائی نہ کرنے کے بارے میں“
کنافانی : ”لڑائی نہ کرنے کے بارے، کس لیے؟“
صحافی : ”بس لڑائی نہ کرنے کے بارے میں، کسی بات کی پروا کیے بغیر۔“
کنافانی : ”لوگ عموماً کسی وجہ سے ہتھیار اٹھاتے ہیں اور کسی وجہ سے لڑائی ختم کرتے ہیں لیکن آپ مجھے یہ بھی نہیں بتا سکتے کہ ہم کس وجہ سے لڑائی بند کر دیں!“
صحافی: ”آپ تباہی، بد بختی، درد اور بے گناہ اموات کو روکنے کے لیے بات چیت کریں۔“
کنافانی : ”کس کا درد، کس کی تباہی، بد بختی اور موت؟“
صحافی: ”فلسطینیوں، اسرائیلیوں اور عرب لوگوں کی۔“
کنافانی : ”فلسطینیوں کی جنہیں اپنے گھروں سے بے دخل کر کے کیمپوں میں پھینک دیا گیا ہے جہاں وہ قحط کی زندگی گزار رہے ہیں اور گزشتہ بیس برس سے مر رہے ہیں اور انہیں خود کو فلسطینی کہنے کی بھی اجازت نہیں!“
صحافی : ”کم از کم یہ مرنے سے تو بہتر ہو گا۔“
کنافانی : ”ممکن ہے آپ کے لیے ایسا ہو مگر ہمارے لیے نہیں ہے، ہمارے لیے اپنے ملک کو آزاد کروانا، وقار سے جینا، عزت سے رہنا اور تمام بنیادی انسانی حقوق کے ساتھ زندگی گزارنا اتنا ہی ضروری ہے جتنی کہ زندگی۔“

اس انٹرویو میں کنافانی سے یہ بھی پوچھا جاتا ہے کہ کیا پاپولر فرنٹ برائے آزادی فلسطین کا طیارہ اغوا کرنے کا اقدام درست تھا، کنافانی، جو اس پاپولر فرنٹ کا ترجمان تھا، کہتا ہے کہ اگر اسے صحیح تناظر میں دیکھا جائے تو اس وقت یہ بالکل درست اقدام تھا۔ یہ تنقید کنافانی پر کی جاتی ہے کہ اس نے طیارہ ہائی جیکنگ کی حمایت کی تھی مگر یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ کنافانی اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد کا حامی تو تھا مگر وہ خود پاپولر فرنٹ کے مسلح ونگ میں شامل نہیں تھا، اس کا ماننا تھا کہ اگر فلسطینی مسلح جدوجہد ترک کر دیں گے تو دنیا کا میڈیا انہیں ایک منٹ کی کوریج بھی نہیں دے گا۔

جب میں نے غصان کنافانی کا یہ انٹرویو دیکھا تو مجھے پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ کسی بیانئے کی پڑتال کیسے کی جاتی ہے، سچ جھوٹ کا پتا کیسے چلایا جاتا ہے اور حق و باطل کا فیصلہ کیسے کیا جا سکتا ہے۔ کنافانی کا یہ انٹرویو ہمیں سکھاتا ہے کہ عمومی نوعیت کی باتیں کس قدر بے معنی ہوتی ہیں اور بات کی گہرائی میں جانا کیوں ضروری ہوتا ہے۔

دنیا کی فسطائی ریاستیں بھی انصاف اور قانون کی عملداری کا دعویٰ کرتی ہیں، اگر ہم یہ باتیں ’فیس ویلیو‘ پر درست ماننا شروع کر دیں تو پھر اچھائی اور برائی کا فرق مٹ جائے گا اور شمالی کوریا سے لے کر ہندوستان تک، دنیا کی ہر استبدادی حکومت کو جارحیت کا جواز مل جائے گا۔ اپنے ملک کی مثال لیتے ہیں۔ آئے روز یہاں اخبارات میں کالم اور مضامین شائع ہوتے ہیں، ٹی وی پر مذاکرے ہوتے ہیں جن میں ہر چھوٹا بڑا دانشور اپنے بارے میں دعویٰ کرتا ہوا نظر آتا ہے کہ وہ اچھائی کے ساتھ کھڑا ہے اور برائی کے خلاف سینہ سپر ہے۔ مگر ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ ان باتوں کا فیصلہ کیسے ہو؟

کنافانی نے یہ فیصلہ کرنے کا طریقہ بتا دیا ہے اور وہ طریقہ ہے کہ ہمیشہ بات کی گہرائی میں جایا جائے۔ جب ہم عمومی باتیں کرتے ہیں، جمہوریت اور آزادی اظہار کے دعوے کرتے ہیں، حق کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کرتے ہیں تو ان باتوں کی اس وقت تک کوئی اہمیت نہیں ہوتی جب تک ان دعوؤں کی پڑتال کر کے حقیقت آشکار نہ کی جائے۔ ہماری گفتگو میں بھی اکثر جب لوگ آپس میں اختلاف رائے کرتے ہیں تو بات کو سلجھانے کے لیے کوئی صلح جو شخص یہ کہہ دیتا ہے کہ آخر ہم سب آئین اور قانون کی بالادستی کی حمایت ہی تو کر رہے ہیں، پھر اختلاف کیسا! یہی ہماری غلط فہمی ہے۔

انگریزی کا محاورہ ہے The devil ’s in the detail، اصل بات جزئیات میں پوشیدہ ہوتی ہے، انہی جزئیات کا پتا چلانا ہی تو کام ہے۔ آسٹریلوی صحافی سے جب غصان کنافانی کی باتوں کا جواب نہیں بن پڑا تو اس نے جان چھڑانے کے لیے کہہ دیا کہ ”یہ جو بھی ہے۔“ مگر کنافانی نے اس بات کو جانے نہیں دیا کیونکہ وہی مسئلے کی جڑ تھی۔ ہمیں بھی مسائل کو جڑ سے پکڑنے کی عادت اپنانی چاہیے اور تہہ در تہہ چھپی ہوئی باتوں کو اسی سادہ مگر موثر اور مدلل انداز میں سامنے لانا چاہیے جو انداز غصان کنافانی نے انٹرویو میں اپنایا۔ اس ایک کام کی تربیت اگر ہم اپنے نوجوانوں کو اسکولوں میں دے دیں تو خاموش انقلاب خود بخود برپا ہو جائے گا۔

بشکریہ ہم سب
واپس کریں