دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ابن صفی کا کاتب اور آج کے دور کا مدیر
یاسر پیرزادہ
یاسر پیرزادہ
آج بیٹھے بٹھائے مجھے ابن صفی کا ایک پیش رس یاد آ گیا۔ اپنے کسی ناول میں کاتب کی غلطیوں سے جز بز ہو کر انہوں نے لکھا کہ یہ کاتب حضرات عجیب و غریب قسم کی غلطیاں کرتے ہیں جن سے بعض اوقات مفہوم یکسر بدل جاتا ہے، پھر انہوں نے ایک واقعہ نما لطیفہ لکھا کہ ایک مرتبہ کسی نقاد نے تجریدی آرٹ پر مضمون لکھ کر رسالے کے مدیر کو بھیجا، مدیر نے پڑھ کر اسے کاتب کے حوالے کر دیا، مضمون میں جگہ جگہ پکاسو کو ذکر تھا، کاتب کو لگا جیسے مصنف سے لکھنے میں کوئی غلطی ہوئی ہے سو اس نے مضمون کے مندرجات کو دوبارہ غور سے پڑھا اور پھر سر ہلا کر پکاسو کو ’درست‘ کر کے اس میں ’ر‘ کا اضافہ کر دیا۔ مضمون شائع ہوا تو مصنف اور مدیر دونوں نے اپنا سر پیٹ لیا۔ ابن صفی نے لکھا کہ اسی طرح کبھی کبھار ان کی تحریر میں بھی کاتب صاحب طبع آزمائی فرما لیتے ہیں تاہم ایک قاری نے ان کی اس تاویل سے اتفاق نہیں کیا اور انہیں خط لکھا کہ جناب والا آپ نے صفحہ نمبر 25 پر جب فریدی کو دشمن سے بھڑایا تھا تو اس وقت وہاں دو لڑکیاں موجود تھیں جبکہ صفحہ نمبر 27 پر ان لڑکیوں کی تعداد چار ہو گئی۔ اس پر ابن صفی نے پیش رس میں جواب دیا کہ حضور میں معافی کا خواستگار ہوں، دراصل مجھے ایک کی چار چار دکھائی دیتی ہیں۔

دیکھیے کیسی اتفاق کی بات ہے کہ آج ہی ابن صفی کی یاد آئی اور اسی ماہ ان کا یوم ولادت اور یوم وفات بھی ہے، ابن صفی 26 جولائی کو پیدا ہوئے اور اتفاق سے یہی ان کا یوم وفات ہے۔ لیکن جس وجہ سے مجھے کاتب والا پیش رس یاد آیا وہ بہت دلچسپ ہے۔ گزشتہ دنوں مجھے ایک ویب سائٹ کے مدیر نے فون کر کے کہا کہ اگر آپ ہماری ویب سائٹ کے لیے بھی مضمون لکھ دیا کریں تو بہت خوشی ہوگی۔ دیگر باتوں کے علاوہ میں نے ان سے یہ بھی پوچھا کہ آپ کی ویب سائٹ چونکہ بین الاقوامی اخبار کی ملکیت ہے اس لیے یقینی طور پر اس کی پالیسی لبرل ہوگی، انہوں نے کہا کہ بالکل ایسا ہی، آپ نے جو لکھنا ہے، کھل کر لکھیں۔ سن کر اطمینان ہو۔ اگلے ہفتے میں نے انہیں مذہبی انتہا پسندی پرایک مضمون لکھ کر بھیج دیا۔ چند دن گزر گئے مگر وہ مضمون ویب سائٹ پر نہیں لگا، میں نے استفسار کیا تو مدیر صاحب نے جواب دیا کہ معافی چاہتا ہوں وہ مضمون ہماری اداراتی پالیسی سے متصادم تھا اس لیے شائع نہیں ہو سکتا۔ میں نے پوچھا کہ آپ کی پالیسی کیا ہے تو فرمانے لگے بس مذہبی معاملات پر ہم ذرا محتاط رہتے ہیں، باقی آپ جو جی چاہے لکھیں۔ ان کی اس بات سے مجھے ایک اور واقعہ یاد آ گیا جو میں نے مدیر صاحب کو بھی سنایا، آپ کی خدمت میں بھی پیش کر دیتا ہوں۔

کچھ عرصہ پہلے مجھے یونیورسٹی کے ایک طالب علم کا فون آیا جو اپنے شعبہ کی کسی ادبی مجلس کا سیکرٹری تھا، پہلے تو مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ آج کل بھی جامعات میں ادبی مجالس ہوتی ہیں، پھر اس نوجوان نے بتا یا کہ ادبی سوسائٹی اکثر و بیشتر لکھاریوں کو موجودہ مسائل پر گفتگو کرنے کے لیے مدعو کرتی رہتی ہے۔ چونکہ یونیورسٹی کے طلباء کے ساتھ اس قسم کی تقریبات میں شرکت کرنے کا تجربہ بہت دلچسپ ہوتا ہے اس لیے میں نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے دعوت قبول کر لی۔ میں نے نوجوان سے پوچھا کہ مجھے کس موضوع پر بات کرنی ہے۔ لڑکے نے جواب دیا، ”جناب یہ آپ کی مرضی ہے، موضوع کا انتخاب کر لیں، ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے!“ ۔ ”واہ، یہ تو کافی ترقی پسندانہ سوچ ہے، ٹھیک ہے پھر میں لا پتا افراد کے معاملے پر بات کروں گا“ ۔ میں نے یونہی بلا سوچے سمجھے موضوع تجویز کیا۔ ”ارے نہیں جناب، اس موضوع پر بات نہیں ہو سکتی، آپ کو شاید یاد نہیں کہ گزشتہ سال اسی شہر کی یونیورسٹی کو کس قدر ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا جب انہیں عین وقت پر ایک سیمینار منسوخ کرنا پڑا جو اسی موضوع پر تھا۔“ لڑکے نے جلدی سے جواب دیا۔ ”تو نوجوان پھر آپ ہی بتا دو کہ میں کس موضوع پر اظہار خیال کروں؟“

”جیسا کہ آپ جانتے ہیں مذہب بہت حساس مسئلہ ہے اور جب ہم اس پر بات کرتے ہیں تو لوگ اکثر ناراض ہو جاتے ہیں اس لیے مذہبی منافرت، فرقہ واریت، انتہا پسندی وغیرہ پر تو بالکل بات نہیں کر سکتے، باقی فوج اور عدلیہ کے بارے میں بھی ہمارے اساتذہ نے مشورہ دیا ہے کہ ان پر گفتگو نہیں کرنی، یہ چند نو گو ایریاز ہیں، باقی آپ جو مناسب سمجھیں بات کریں۔ اور ہاں، یونیورسٹی انتظامیہ جیسے وائس چانسلر، رجسٹرار، شعبہ جات کے سربراہان، فیکلٹی ممبران، یونین کے عہدیداران وغیرہ کے خلاف بھی تنقید مناسب نہیں کیونکہ یہ لوگ تو میزبانوں میں شامل ہوں گے اور وہیں موجود ہوں گے“ ۔ لڑکے نے گویا یونیورسٹی کی سرکاری پالیسی بیان کر دی۔ ”فکر نہ کرو میری جان، میں ان میں سے کسی کو بھی ہاتھ نہیں لگاؤں گا حتیٰ کہ آپ کے کینٹین والے لڑکے کو بھی نہیں۔ سو اب آپ خود ہی کچھ تجویز کیوں نہیں کرتے؟“ ”چلیں ٹھیک ہے مجھے سوچنے دیں۔ اممم۔ آپ پھلوں اور سبزیوں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں، ڈینگی وائرس، مقامی نکاسی آب کے نظام کو بہتر بنانے میں تحصیل ناظم کے کردار کے بارے میں بات کر سکتے ہیں۔ آج کل بارشوں سے جگہ جگہ پانی کھڑا ہوجاتا ہے، اس پر آپ ڈپٹی کمشنر کو آڑے ہاتھوں لے سکتے ہیں۔“ لڑکے نے اپنا ”لبرل“ موقف دہرایا۔ اس گفتگو کے بعد یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ میں نے اس ادبی مجلس میں شرکت سے معذرت کر لی، بعد میں مجھے پتا چلا کہ انہیں نے میری جگہ روزنامہ کالک کے مدیر کو مدعو کر لیا تھا جنہوں نے اپنے افکار عالیہ سے مجلس لوٹ لی۔ تاہم وہاں موجود کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہوں نے مجلس کے ساتھ ساتھ چند شرکائے مجلس کو بھی لوٹ لیا، واللہ اعلم بالصواب۔

معافی چاہتا ہوں کہ واقعہ کچھ طویل ہو گیا۔ دراصل جس طرح ابن صفی اپنے کاتب کے ڈسے ہوئے تھے اسی طرح میں اس مدیر (جنگ نہیں ) سے ڈسا گیا جس نے مجھے کہا تھا کہ آپ کچھ بھی لکھ سکتے ہیں، موضوع کی کوئی قید نہیں، لیکن پھر موصوف نے پہلی ہی تحریر پر یوں اعتراض لگا دیا جیسے سرکاری افسران فائل پر اعتراض لگاتے ہیں۔ چلیں کوئی بات نہیں، یہ ہوتا رہتا ہے، لیکن اصل تکلیف اس وقت ہوتی ہے جب کوئی شخص مدیر کے منصب پر بیٹھ کر آپ کی تحریر میں سے الفاظ یا جملے یوں حذف کر دیتا ہے جیسے اسے مصنف سے زیادہ موضوع کی حساسیت کا علم ہو۔ میرے ایک دوست جو اسی قسم کی ویب سائٹ کے لیے مضمون لکھتے ہیں، اپنے مدیر سے خاصے عاجز ہیں، وہ کہتے ہیں کہ میرے مضمون میں دو یا تین ہی تخلیقی جملے ہوتے ہیں اور مدیر صاحب چن کر انہی جملوں کو کاٹ دیتے ہیں۔ میں نے ان سے اظہار ہمدردی کیا اور پھر پکاسو والے کاتب کا واقعہ سنایا جس سے ان کی کچھ تسلی ہوئی۔ ویسے میرا ذاتی خیال ہے کہ اس قسم کے مدیران جو اتنی احتیاط کرتے ہیں، زندگی میں کافی کامیاب رہتے ہیں کیونکہ یہ زندگی گزارنے کا ایسا ماڈل ہے جس میں بندہ ایک فیصد بھی رسک نہیں لیتا۔ لیکن پھر یہ ایسی بے کیف زندگی ہے جسے گزارنے کا کوئی فائدہ نہیں، ایسی زندگی کے بارے میں کسی نے کہا ہے کہ یہ لوگ نوجوانی میں ہی فوت ہو جاتے ہیں مگر ان کی تدفین بڑھاپے میں ہوتی ہے!

بشکریہ ہم سب
واپس کریں