دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سیاسی نو مسلموں کے درمیان
حماد غزنوی
حماد غزنوی
امریکہ یاترا جاری ہے اور ”طلسمِ خوابِ زلیخا و دامِ بردہ فروش“ جیسے قصے قدم قدم پر درپیش ہیں، نیک روحوں سے آشنائی ہوتی ہے، کائیاں لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے، ناگہانی مشکلات ٹوٹتی ہیں اور پھر کوئی اجنبی مہرباں یک دم کہیں سے نمو دار ہوتا ہے، یعنی ”کب وہ ظاہر ہو گا اور حیران کر دے گا مجھے… جتنی بھی مشکل میں ہوں آسان کر دے گا مجھے“ کا عملی تجربہ ہونے لگتا ہے۔ بھلا ہو سابق وزیرِ ہوا بازی غلام سرور خان کا جن کی لسانی دہشت گردی کی بدولت اب پی آئی اے کی پروازیں مغرب کی سمت کم کم ہی آتی ہیں لہٰذا امریکہ پہنچنے میں دس بارہ گھنٹے زائد لگ جاتے ہیں، دو تین جگہ رکنا پڑتا ہے، کنکٹنگ فلائٹس کے بکھیڑے سلجھانے پڑتے ہیں، ایک ایئر پورٹ، دوسرا ایئر پورٹ، طویل سفر سے اکتائے ہوئے لوگوں سے لدے ہوئے ائر پورٹ لاﺅنج، سوئے ہوئے لوگ، ادھ موئے لوگ، اپنے ٹیلی فون میں غرق لوگ۔ ان طویل پروازوں کے مسافروں کی اکثریت کا تعلق پس ماندہ ممالک سے ہوتا ہے جن کی اپنی ملکی ائر لائن براہِ راست پروازیں چلانے کی اہل نہیں ہیں،سو یہ کم قسمت مسافر اپنے حکم رانوں کی بد اعمالیوں کی سزا ملک سے نکل کر بھی کاٹتے ہیں۔

”ہر چند ہو مشاہدہ حق کی گفتگو… بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر“ یعنی پاکستان کی سیاست کا تذکرہ کئے بغیر ہماری بات بھی ادھوری رہتی ہے۔ سیاسی گفتگو کے بھی وافر مواقع یہاں میسر ہیں، پاکستانی تارکینِ وطن سے مسلسل ملاقات رہتی ہے، پانچ دس منٹ میں سب احوال بھگت جاتے ہیں، کس کا کیا لیگل اسٹیٹس ہے،کس نے اپنا پورا خاندان امریکہ لانے کا کارنامہ انجام دیا ہے، حلال گوشت کہاں سے ملتا ہے، جمعہ کی نماز کے لئے کتنی دور جانا پڑتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اور پھر اس کے بعد اہلِ مجلس سراپا اشتیاق بن کر سوال کرتے ہیں ’پاکستان کی سنائیں، آپ تو صحافی ہیں، آپ کو تو اندر کی سب باتیں پتا ہوں گی‘۔ ہم بھی جواباً ایسا منہ بناتے ہیں جیسا ہم نے نو اِٹ آل قسم کے صحافیوں کو بناتے دیکھا ہے، گلا کھنکھارتے ہیں اور بات کا آغاز کرنے ہی والے ہوتے ہیں کہ میزبان بقلم خود بولنا شروع کر دیتے ہیں، پھر بولتے ہی چلے جاتے ہیں، کہیں انہیں ٹوکنے کی حماقت ہو بھی جائے تو برا نہیں مناتے، بولتے جاتے ہیں، بولتے جاتے ہیں، اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے جاتے ہیں کہ ’آپ تو صحافی ہیں، تازہ تازہ پاکستان سے آئے ہیں، آپ تو بہت کچھ جانتے ہوں گے‘۔ پھر اس کے بعد مزید بولتے ہیں، کچھ دیر بعد ان کی آواز آنا بند ہو جاتی ہے، بس ہونٹ ہلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

یہ اصحاب کیا بولتے ہیں؟ یہ بتانے سے پہلے ’نو مسلموں‘ کی سائیکی پر بات کرنا انتہائی ضروری ہے۔ نو مسلموں کا اس بات سے کیا تعلق ہے، میں عرض کرتا ہوں۔ نومسلم سب سے پہلے دین کی الف ب پڑھتے ہیں، اللہ ایک ہے، محمدآخری نبی ہیں، نماز یاد کرتے ہیں، سورہ فاتحہ، چھوٹی چھوٹی سورتیں، یعنی دین کی مبادیات بارے پر تجسس اور پر وفور ہوتے ہیں۔ سیاست کے میدان میں اکثر پاکستانی تارکینِ وطن کا رویہ بھی نو مسلموں والا ہو چکا ہے۔ پاکستانی سیاست کے وہ حقائق جو پچھتر سال سے اپنی جگہ ڈٹے ہوئے ہیں ان کا تذکرہ یہ اصحاب ’انکشاف کی تازگی‘ کے ساتھ کرتے ہیں، مثلاً ان دوستوں تک ابھی ابھی یہ خبر پہنچی ہے کہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ بہت طاقت ور ہے، آئین اور پارلیمان بہت کم زور ہیں، انسانی حقوق کی صورتِ حال قابلِ رشک نہیں ہے اور الیکشن میں مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لئے ہلکی پھلکی موسیقی کا اہتمام فوجی بینڈ کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ یہ ’راز‘ کھولتے ہوئے ان اصحاب کی حیرت دیدنی ہوتی ہے۔ اس ’دلچسپ‘ گفتگو کے نتیجے میں ہماری مسلسل یہ کوشش ہوتی ہے کہ بات چیت کا رخ حلال گوشت کی دستیابی کے مسائل کی طرف موڑ دیں مگر ہماری یہ کاوشیں ’نو مسلموں‘ کے خروش کے سامنے ہار جاتی ہیں جو آنکھوں کی پتلیاں پھیلا کو ایمان پرور لہجے میں ہمیں سمجھاتے ہیں کہ ’اللہ ایک ہے،حروفِ تہجی میں پہلے الف آتا ہے پھر ب اور پھر پ۔

پاکستانی ڈاکٹروں کی تنظیم ’اپنا‘ کی سالانہ کانفرنس پر بہت سے نام ور ڈاکٹروں سے بات چیت کا موقع ملا، ان کا بھی آج کل یہی خیال ہے کہ ’آئین اچھی چیز ہوتی ہے، سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت نہیں ہونی چاہئے اور انسانی حقوق کا احترام بہت ضروری چیز ہے۔ یاد رہے کہ ان دوستوں کی اکثریت پہلے پرویز مشرف کی حامی ہوا کرتی تھی اور ان دنوں حبِ عمران میں مبتلا ہے۔ جس طرح نو مسلموں کو اپنے زمانہ جاہلیت کے خیالات سے کامل آزادی میں کچھ وقت لگتا ہے، کچھاایسا ہی معاملہ ان دوستوں کا بھی ہے۔ آئین اور جمہوریت بارے پیاری پیاری باتیں کرتے ان کے منہ سے زمانہ جاہلیت کی یادگاریں بھی جھڑنے لگتی ہیں، یعنی پانچ ہزار کرپٹ لوگوں کو پھانسی دے کر پاکستان کے مسائل حل ہو سکتے ہیں، نواز شریف کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ نے جو کیا وہ ٹھیک تھا کیوں کہ وہ کرپٹ تھا، لیکن عمران کے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ غلط ہے کیوں کہ بندہ ایمان دار ہے، یعنی اچھی خاصی معقول باتیں کرتے کرتے ایک دم اپنے فرضی اسکوٹر کو کِک مارتے ہیں اور آپ کو اپنے پیچھے بیٹھنے کی پرخلوص دعوت دےدیتے ہیں۔

جب ان دوستوں سے سوال کیا جائے کہ پاکستان کے احوال سے باخبر رہنے کے لئے آپ کن ذرائع پر انحصار کرتے ہیں تو وہ کچھ یوٹیوبر ’صحافیوں‘ کا نام لیتے ہیں، اب آپ اسے ہماری کوتاہی کہئے کہ ہم ان میں سے اکثر کے نام سے غافل ہیں، اور جنہیں ہم جانتے ہیں وہ ففتھ جنریشن کی جنگ میں فیلڈ مارشل کے منصبِ جلیلہ پر فائز رہ چکے ہیں۔سوشل میڈیا کے جان کاہ اثرات کا احساس امریکہ آ کر دوچند ہو جاتا ہے۔بہرحال، امریکہ آ کر یوں لگ رہا ہے کہ ہم ”ریفریشر کورس“ پر آئے ہوئے ہیں، خوب دہرائی ہو رہی ہے، ہر مجلس میں الف ب پ پڑھ رہے ہیں، آئین کی عظمت کے گیت ازبر کر رہے ہیں، انسانی حقوق کے ترانے حفظ کر رہے ہیں۔ منیر نیازی کی ایک نظم ہے ”دشمنوں کے درمیان شام“۔ اگر ہم شاعر ہوتے تو ایک نظم لکھتے جس کا عنوان ہوتا ”نو مسلموں کے درمیان شام“۔

(بشکریہ روزنامہ جنگ)


واپس کریں