دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
بے یقینی کے مارے لوگ
حماد غزنوی
حماد غزنوی
جو چیز ہمارے پاس نہیں ہوتی اس کی تمنا سوا ہوا کرتی ہے۔ یہ نارسائی کبھی احساسِ محرومی کو جنم دیتی ہے کبھی احساسِ کم تری کا روپ دھار لیتی ہے۔ یہ معاملہ افراد کو ہی نہیں اقوام کو بھی درپیش ہوا کرتا ہے، اس ضمن میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی مثال دیکھئے۔ اس ملک کے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے مگر تاریخ نہیں ہے، بہت ہی ننھی منی تاریخ ہے، یعنی اگر کولمبس سے آغاز کیا جائے تو یہی کوئی پانچ سو سال، اس سے پیچھے دھند ہی دھند ہے جسے چیرنے کی کوشش میں محققین اور سائنسدان مسلسل جتے رہتے ہیں، مگر کسی سلطنت کا سراغ نہیں ملتا، کسی عالی شان عمارت کا وجود نہیں ہے، کوئی قابل ذکر ادب نہیں ہے۔ غالباً امریکہ کا سب سے بڑا کامپلیکس عسرت تاریخ ہے۔ ا س سے نپٹنے کا امریکہ نے ایک انتہائی دلچسپ طریقہ اختیار کیا ہے اور وہ طریقہ ہے نت نئے میوزیم بنانا۔ امریکہ کے ہر شہر میں ہر بستی میں بیسیوں میوزیم ہیں۔ آپ اس سے اندازہ لگائیں کہ دنیا میں کل ملا کر قریبا 55 ہزارعجائب گھر ہیں جب کہ ان میں سے 35 ہزار امریکہ میں واقع ہیں۔ ان 35 ہزار میوزیمز میں کیا سجایا گیا ہے آپ اس سے اندازہ لگا لیجئے کہ”آلو“ اور”سرسوں“کی زریں تاریخ پر بھی علیحدہ علیحدہ میوزیم قائم کئے گئے ہیں۔

دوسری طرف جن ممالک اور خطوں کی واقعی ہزاروں سال پر پھیلی ہوئی تاریخ و تہذیب ہے وہ”ٹیک اِٹ ایزی“ کے اصول پر کاربند نظر آتے ہیں، یعنی یونان میں تقریبا 300 اور مصر میں کل 70 میوزیم ہیں۔ اب اسے کامپلیکس نہ کہیں تو اور کیا کہیں کہ ایک ایسا ملک 35 ہزار میوزیم کھول بیٹھا ہے جس کے تاریخی آثار اور نوادرات اگر کھلے ڈلے بھی رکھے جائیں تو ایک 10+12 کے کمرے میں سما سکتے ہیں۔ہم پاکستانیوں کے کامپلیکس بھی بہت دلچسپ ہیں، مثلاً تاریخ کے حوالے سے ہی دیکھ لیجئے، ہم سلیکٹو تاریخ کے ماننے والے ہیں، اپنے خطے کی تاریخ آدھی مانتے ہیں، آدھی نہیں مانتے، آپ یوں کہہ لیجئے کہ اپنے باپ کو باپ مانتے ہیں مگر دادا جان کو نہیں مانتے، یہ بھی ایک عجیب نفسیاتی کیفیت ہے۔ خیر، ہمارے کامپلیکس ہائے نوع بہ نوع کی فہرست تو بہت طویل ہے مگر تنگنائے کالم کا جبر ہے کہ ہمیں خود کو صرف ایک کامپلیکس تک محدود رکھنا ہوگا جس کا احساس امریکہ میں رہتے ہوئے اور بھی شدت سے ہوتا ہے۔

امریکہ کا ماضی دھند میں ہو سکتا ہے مگر ان کا ”حال“روشنی میں نہایا ہوا ہے، اور غالباً یہی فرق ہوتا ہے ایک ترقی یافتہ اور غیر ترقی یافتہ نظام میں۔ مثلاً امریکہ کا ہر شہری جانتا ہے کہ اگلے صدارتی انتخابات اگلے سال پانچ بعد نومبرمیں منگل کے دن منعقد ہوں گے، اور جو امیدوار جیتے گا وہ 20 جنوری 2025 کو اپنے عہدے کا حلف اٹھائے گا، جب کہ ہمارے کارواں کو گمانوں کے لشکر نے گھیر رکھا ہے، الیکشن کب ہو گا، ہو گا بھی کہ نہیں، اور اگر ہو گا تو کس کو انتخاب لڑنے کی اجازت ہو گی اور کس کو میدان سے باہر بٹھا دیا جائے گا، کیا نواز شریف کو چوتھی بار وزیراعظم بننے کی اجازت دی جائے گی، یعنی ا?ٓپ یوں سمجھئے کہ”حال ایسا نہیں کہ تم سے کہیں … ایک جھگڑا نہیں کہ تم سے کہیں۔“

بلا شبہ، عدم نظام ہمارا سب سے بڑا کامپلیکس ہے، نیم تاریکی میں سائے سے ڈگمگا رہے ہیں، یہ گرد میں اٹے ہوئے ایک بے سمت کارواں کی سرگزشت ہے، ہمارا المیہ بے یقینی ہے،اور یہ بے یقینی فقط الیکشن اور اس کے متعلقات تک محدود نہیں ہے، یہ ابہام ہماری داستانِ بے سروپا کی بنت میں شامل ہے۔ ابو سائفر کل تک تقویم کا احسن نمونہ تھا، آج اسفل السافلین کے درجے پر فائز ہے، نواز شریف کل تک”بھگوڑا اور مجرم“تھا، آج مسند آرا ہونے کو ہے، کبھی ہمیں بتایا جاتا ہے کہ نااہلی تو تاحیات ہوتی ہے، پھر خبر آتی ہے کہ تاحیات تو ہو ہی نہیں سکتی، کبھی جماعت کے منحرفین کا ووٹ گنا جاتا ہے کبھی گنتی سے باہر کر دیا جاتا ہے، کبھی ریکوڈک معاہدہ قوم کے مفاد میں ہوتا ہے کبھی مفاد سے متصادم، ایک دن مجاہد کہلانے والے اگلے دن دہشت گرد گردانے جاتے ہیں، پہلے اطلاع ملی کہ الطاف حسین ملک کی واحد مڈل کلاس کی نمائندہ جماعت کے محبوب قائد ہیں، پھر خبرآئی کہ وہ تو سرتاپا غدار ہیں۔کبھی نیب سے اختیارات لیتے ہیں کبھی دیتے ہیں، پہلے کہتے تھے نگراں حکومت بے اختیار ہو گی، اب شنید ہے کہ با اختیار ہو گی۔ یعنی آج تک کچھ طے نہیں ہوسکا، سب مایہ ہے، سب ابہام ہے، آج کا خوب کل ناخوب قرار پاتا ہے، اور ناخوب خوب، بے یقینی سی بے یقینی ہے، اب آپ ہی بتائیں کہ کسی ملک کا جما جمایا نظام دیکھ کر ہم جیسے کامپلیکس کا شکار نہ ہوں تو اور کیا ہو۔

سچ تو یہ ہے کہ ہم ہراس ریاست سے حسد کرتے ہیں جہاں نگراں وزیراعظم نام کا پرندہ نہیں پایا جاتا، دنیا کی ہر بڑی جمہوریت اس پنچھی سے ناواقف ہے، لیکن ہم بے یقینی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ، لہٰذا ”کون ہو گا نگراں وزیراعظم“ کی بحث ہر طرف خشوع وخضوع سے جاری ہے۔ ویسے نگراں وزیراعظم والی شق آئین میں شامل کرنے والوں کی نیت نیک تھی، کیوں کہ اگلے وقتوں میں ہوتا کچھ یوں تھا کہ بے نظیر بھٹو کو وزارت عظمیٰ سے ہٹا کر اپوزیشن لیڈر غلام مصطفیٰ جتوئی کو نگراں وزیراعظم لگا دیا گیا تھا، اس بو العجبی کا حل جمہورین نے یہ ڈھونڈا کہ سیاسی جماعتیں باہمی مشاورت سے کسی غیر متنازع شخص کو نگراں وزیراعظم چن لیا کریں، لیکن ریاست کے مستقل اربابِ بست و کشاد نے اس کا بھی توڑ ڈھونڈ لیا۔ ویسے ذرا یہ سوچئے کہ جس ملک میں منتخب وزیراعظم کو کان سے پکڑ کر کرسی سے اٹھا دیا جاتا ہو وہاں نگراں وزیراعظم کیا بیچتا ہے۔ ہمارا مسئلہ نگراں وزیر اعظم نہیں ہے، ہمارا مسئلہ”وزیراعظم“ہے، ایک شفاف انتخاب کے نتیجے میں منتخب اور با اختیار وزیراعظم۔ جس طرح مختلف مذاہب کے پیروکار کسی مقدس ہستی کی آمد کے منتظر ہیں، کچھ اسی طرح ہم بھی 76 سال سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے پہلے با اختیار وزیراعظم کے انتظار میں ہیں۔ اور جہاں تک میوزیمز کا تعلق ہے تو امریکہ اس میدان میں ہم سے کبھی نہیں جیت سکتا، امریکہ میں تو صرف 35 ہزار میوزیم ہیں، ہم نے تو پورا ملک ہی عجائب گھر بنا رکھا ہے۔

(بشکریہ روزنامہ جنگ)
واپس کریں