دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
یہ ملک ہے یا ٹوبہ ٹیک سنگھ؟
وسعت اللہ خان
وسعت اللہ خان
کسی کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی یاد ہیں؟ انھیں سنہ 2011 میں ایڈیشنل جج مقرر کیا گیا اور پھر مستقل کر دیا گیا۔ 2011 میں اسلام آباد ہائی کورٹ کی ویب سائٹ پر اُن کے قانونی کریئر کے بارے میں تفصیلی تعارف کی آخری لائنیں آج بھی نیٹ پر پڑھی جا سکتی ہیں۔’جسٹس صدیقی کا شمار ایماندار، راست گو اور محنتی وکلا میں ہوتا رہا ہے۔ اُن کو موثر زبانی و تحریری ابلاغ پر ملکہ حاصل ہے۔‘ 21 جولائی 2018 کو معزز جج کے جی میں جانے کیا آئی کہ وہ راولپنڈی ڈسٹرکٹ بار سے خطاب میں پھٹ پڑے اور دھماکہ کر دیا کہ عدلیہ میں ایجنسیوں کی مداخلت عروج پر ہے۔ وہ نہ صرف فیصلے ڈکٹیٹ کروانے کی کوشش کرتی ہیں بلکہ عدالتی بینچوں کی تشکیل پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں۔ اپنے خطاب میں جسٹس صدیقی نے چند نام بھی لیے۔اچانک سے جسٹس صدیقی ’فاتر العقل‘ اور اپنے عہدے کے ’وقار کے منافی‘ قرار پائے۔ سپریم جوڈیشل کونسل میں اُن کے خلاف دائر کرپشن اور بے قاعدگی کے دو ریفرنسز میں جان پڑ گئی۔ اکتوبر 2018 میں انھیں سپریم جوڈیشل کونسل نے ہائیکورٹ جج کے عہدے سے ہٹا دیا۔ اس فیصلے کے خلاف اُن کا کیس آج بھی سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت ہے۔ اور وہ اپنے ’سابقہ بیان‘ پر ہنوز قائم ہیں۔

راولپنڈی سٹرٹیجک و سیاسی اعتبار سے پاکستان کا سب سے حساس انتظامی ڈویژن ہے۔ 17 فروری کی صبح تک یہاں تعینات کمشنر لیاقت علی چٹھہ ذہنی طور پر صحت مند بھی تھے اور اُن کے بارے میں کرپشن کے اگر کوئی الزامات تھے بھی تو وہ مین سٹریم میڈیا کے علم میں تب تک نہیں تھے۔میڈیا کو تو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ کمشنر لیاقت علی چٹھہ کے خاندان کے کچھ قریبی لوگ ’انصافیے‘ ہیں۔ وہ یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ اُن کی آئی ایس آئی کے سابق سربراہ سے کوئی علیک سلیک ہے، یا رہی ہے۔مگر سہہ پہر کے بعد میں یہ خبر سُن کے لرز گیا کہ حساس ترین پنڈی ڈویژن کا چارج ’ایک سائیکو پیتھ‘ کے ہاتھ میں تھا، جس کا رابطہ ’لینڈ مافیا‘ سے ہے اور وہ خود بھی ’کرپٹ‘ ہے۔اس دھماکے کے بعد ایک نہیں دو نہیں، پنڈی ڈویژن کے چھ کے چھ اضلاع کے ریٹرننگ افسروں اور قائمقام ڈویژنل کمشنر نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ آٹھ فروری کے انتخابات صاف و شفاف تھے اور ہم پر کسی جانب سے کسی بھی طرح کا کوئی دباؤ نہیں تھا۔ نہ کسی کو زبردستی ہرایا گیا، نہ جتایا گیا۔

الیکشن کمیشن نے تحقیقاتی کمیٹی قائم کر دی ہے جو انہی ریٹرننگ افسروں کے بیانات بھی قلمبند کرے گی جو پریس کانفرنس میں پہلے ہی اپنا مؤقف دے چکے ہیں۔کہا جا رہا ہے کہ کمشنر، ڈپٹی کمشنر ایک انتظامی عہدہ ہے۔ اس کا انتخابات یا پولنگ یا گنتی سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔(ویسے تو پری اینڈ پوسٹ پولنگ انتخابی عمل سے فوج، ایجنسیوں، پولیس، پٹواری اور سیاسی جماعتوں کے مسلح ڈشکروں اور نقاب پوشوں کا بھی کوئی براہ راست لینا دینا نہیں ہوتا ؟ کیا ایسا ہی ہے؟)۔مسلم لیگ نون جو ابھی تکنیکی اعتبار سے برسرِ اقتدار جماعت نہیں۔ تادمِ تحریر واحد پارٹی ہے جس نے گرفتار کمشنر لیاقت علی چٹھہ کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا مطالبہ کیا ہے۔(جب احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے ویڈیو گفتگو میں کہا تھا کہ اُن پر نواز شریف کو سزا دینے کے لیے بہت دباؤ تھا اور جب اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج شوکت عزیز صدیقی نے کہا تھا کہ آئی ایس آئی والے ہائیکورٹ کے چیف جسٹس پر نواز شریف اور مریم کی سزا برقرار رکھنے کے لیے دباؤ ڈالتے رہے ہیں۔ تب کسی نے مطالبہ نہیں کیا کہ ان الزامات کی چھان بین تک دونوں ججوں کے نام ای سی ایل میں ڈالے جائیں)۔

شکر ہے مولانا فضل الرحمان نے سابق حکومت کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لانے کے مبینہ منصوبے میں شریک دو اعلیٰ ترین ریٹائرڈ فوجی افسروں کے نام ایک انٹرویو میں اُگلنے کے بعد دوسرے ہی انٹرویو میں واپس لے لیے اور قاضی حسین احمد بننے سے بچ گئے جنھیں اس ریاست کے سب سے فٹ دماغ پرویز مشرف نے ’ایک نفسیاتی مریض‘ کے خطاب سے سرفراز فرمایا تھا۔سوال یہ ہے کہ اگر کمشنر پنڈی کا دماغ کل دوپہر نہ گھومتا تو کیا آج بھی یہ ’سائیکو پیتھ‘ بطور ایک فرض شناس ذمہ دار سینیئر بیورو کریٹ ملک و قوم کے لیے مارچ میں اپنی باعزت ریٹائرمنٹ تک گرانقدر خدمات انجام دیتا رہتا؟ اس بات کا فیصلہ کون سی تحقیقاتی کمیٹی، کمیشن یا طبی بورڈ کرے گا کہ اس ملک کی باگ ڈور جن جنرلوں، سیاستدانوں، ججوں اور بیوروکریٹس کے ہاتھوں میں تھی، ہے اور رہے گی وہ سب کے سب ذہنی طور پر فٹ ہیں؟ باہوش و حواس فیصلے کر رہے ہیں اور فرائضِ منصبی مکمل غیر جانبداری اور شفافیت سے نبھا رہے ہیں؟ برطرفی یا ریٹائرمنٹ یا ریاستی بیانیے کو چیلنج کرنے کے بعد ہی یہاں کیوں پتہ چلتا ہے کہ فلاں تو ’بدکردار‘ تھا، ’بے ایمان‘ تھا، ’نااہل‘، ’نشئی‘، ’نفسیاتی مریض‘ اور ’غدار‘ تھا۔

ریاست کبھی باہر سے نہیں ٹوٹتی۔ اندر سے کھوکھلی ہوتی ہوتی اچانک ڈھ جاتی ہے۔ بھلے کتنی ہی لیپا پوتی کر لی جائے۔ تاریخ کی گاڑی سرپھروں اور پاگلوں کے دھکے سے ہی آگے بڑھی ہے۔فی الحال تو یہ ملک سعادت حسن منٹو کا ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ لگ رہا ہے۔’اوپڑدی گڑگڑدی انیکس دی بے دھیانادی منگ دی دال اف دی لالٹین۔‘

بشکریہ بی بی سی اردو
واپس کریں