دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مریضِ پاکستان اور اس کا قابل معالج
وسعت اللہ خان
وسعت اللہ خان
چلیئے یہ بھی ہو گیا 2014 کے دھرنے سے اب تک کی اکھاڑ پچھاڑ ، تجربات، ناکامیوں، چار وزراِ اعظم اور تین حکومتیں بدلنے کے بعد وہ جو پنجابی میں کہتے ہیں کہ مڑ گڑ کے کھوتی بوہڑ تھلے یعنی گھوم پھر کے سسٹم کی گدھی اسی برگد تلے دوبارہ آن کھڑی ہوئی۔یہ سب کیوں کیا گیا؟ اس کا طویل و صغیر المیعاد فائدہ یا نقصان کسے پہنچے گا؟ اب اس ذرا سی بات پر کیا اڑنا۔ یہ بتائیے کہ آگے کیا کرنا ہے؟ اگلا تجربہ کیا ہونے جا رہا ہے۔ صرف شراب ہی بدلتے رہیے گا یا کبھی بوتل بھی بدلیے گا؟ نہ آپ سے آج تک یہ ملک سنبھلا، نہ ہی کسی اور کو سنبھالنے کا پورا موقع دیا۔ نہ آپ نے اپنی صلاحیت و قابلیت کی خود احتسابی کی اور نہ ہی کبھی عام آدمی کو اس قابل سمجھا کہ اپنی قسمت کا فیصلہ خود کر پائے۔ آپ نے تو پچھلے سات عشروں میں جن جن پتھروں کو دھڑکنیں عطا کر کے بت بنایا ان کو بھی جب جب زباں ملی تو آپ ہی پر برس پڑے۔ نہ ہی خود آپ کبھی ڈھنگ کا ایسا بیانیہ مرتب کر پائے کہ جس پر کثیر قومیتوں پر مشتمل یہ ملک سہمت ہو سکے۔

نہ ہی خود کچھ ایسا سلیقے کا نظام بنا یا اپنا سکے کہ قوم سیاستدانوں پر لعنت بھیج کر ڈنڈے کے خوف کے بجائے دل سے آپ کی پوجا کرنے لگے کہ جس کی آرزو میں آپ نے اس ملک سے اس کے 76 سال چھین لیے۔ نتیجہ پھر بھی ڈھاک کے وہی تین پات۔آپ نے کبھی ہم سے تو پوچھا ہوتا کہ آخر ہمیں کیا چاہیے؟ آپ ہی بتاتے رہے کہ ہمیں دراصل کیا چاہیے۔ ہماری اندرونی کیفیات و علامات بھی ہم سے سرسری سن کے خود ہی مرض کی تہہ تک پہنچنے کا دعوی کرتے رہے۔ کبھی ایلوپیتھک تو کبھی ہومیوپیتھک دوائیں تو کبھی حکیمی معجونات و جلاب تجویز کرتے رہے۔ دواؤں پر دوائیں بدلتے رہے۔ ایک کے بعد ایک آپریشن کے لیے ٹیبل پر لٹاتے رہے اور بار بار ہمیں سے پوچھتے رہے کہ آخر افاقہ کیوں نہیں ہو رہا ؟ کہیں چھپ کے کوئی بد پرہیزی تو نہیں کر رہے ہو؟

ہم کبھی دبے دبے تو کبھی چیخ چیخ کر بتانے کی کوشش کرتے رہے کہ اپنی دوا دارو ایک جانب رکھ کے کبھی ہمیں کھلی فضا میں سانس لینے اور چہل قدمی یا کم ازکم کمرے کی کھڑکیاں روشن دان کھول کے بیرونی مناظر دیکھنے کی ہی اجازت دے دیں۔جی بہلے گا تو دواؤں کا کسیلا پن بھی کم محسوس ہو گا۔ ہو سکتا ہے ہم ٹھیک ہو جائیں۔ یا کم ازکم کسی اور تجربہ کار معالج سے سیکنڈ اوپینین لینے کی اجازت دے دیں۔کسی ماہرِ نفسیات سے ہمیں ہمارا کیس تنہائی میں ڈسکس کرنے دیں۔مگر آپ تو ہیں ہی عقلِ کل۔چنانچہ ہر بار آپ سے جھڑکیاں ہی ملیں۔ ’ڈاکٹر تم ہو یا میں؟ کتنی مقدار میں کیا دوا دینی ہے اور کون سی نہیں دینی یہ تم بہتر جانتے ہو یا میں؟ کسی اور ڈاکٹر کے پاس جاؤ گے تو کھال اتار لے گا۔ یہ میں ہی ہوں جو مفت میں علاج کر رہا ہوں اور تم ہو کہ مسلسل ناشکرے پن میں مبتلا ہو۔‘

مسئلہ دواؤں میں نہیں۔ دراصل تمہیں میری حکمت و مہارت پر ہی اعتماد نہیں۔ جب تمہیں علاج پر اعتقاد ہی نہیں تو صحت یاب کیسے ہو گے؟ اور یہ تمہیں کس گھامڑ نے پٹی پڑھائی کہ کمرے سے باہر کھلی فضا میں سانس لینے یا چہل قدمی سے تمہاری حالت بہتر ہو جائے گی؟ دیکھو میری جان۔ باہر کی فضا میں صرف تازہ ہوا اور گلابوں کی مہک ہی نہیں ہوتی۔ مکھی، مچھر، گندگی، آلودگی، دھواں اور سینکڑوں اقسام کے جراثیم و وائرس بھی ہوتے ہیں۔کیا تم چاہتے ہو کہ میری اب تک کی سب معالجانہ محنت رائیگاں جائے؟ کچھ کچھ عرصے بعد ذرا دیر کے لیے کھڑکیاں اور روشندان کھولنا تو ٹھیک ہے۔ آدھے پون گھنٹے کی چہل قدمی میں بھی حرج نہیں۔بس تمہارے جسم میں اتنی طاقت آ جائے کہ اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکو۔ مسلسل کھڑکیاں دروازے کھلے رکھنا تمہاری طویل المعیاد جسمانی و ذہنی صحت کے لیے ٹھیک نہیں۔پہلے اپنا خیال رکھنا تو سیکھ لو۔

مگر مجھے بہت اچھے سے معلوم ہے کہ تم میرے بارے میں کیا الٹا سیدھا سوچتے رہتے ہو۔یہی نا کہ میں کوالفائیڈ معالج ہوں بھی کہ نہیں؟ یہی نا کہ میں نے تمہیں اس لیے باندھ کے رکھا ہے کہ میری پریکٹس کا جواز برقرار رہے۔ یہی نا کہ تم باہر جا کے موقع ملتے ہی ہر راہ گیر کو پکڑ پکڑ کے بتاؤ کہ تمہاری بیماری تمہاری وجہ سے نہیں بلکہ معالج کی ضد کے سبب طول پکڑ رہی ہے؟ یا پھر تم مجھے بھی ویسا ہی ڈاکٹر تو نہیں سمجھ رہے جس کے پاس ایک قصائی کا بیٹا لایا گیا۔ بچے کے پاؤں میں ہڈی چبھی ہوئی تھی۔باپ نے کہا ’مائی باپ آپ کی دوکان کی طرح میرا کاروبار بھی مندا چل رہیا ہے ۔فیس کے پیسے تو میں نہ دے پاؤں گا پر روزانہ ایک سیر گوشت ضرور پہنچا دیا کروں گا۔‘ڈاکٹر چاہتا تو قصائی کے بیٹے کے پاؤں میں چبھی ہڈی نکال کے اسے ایک دن میں بھلا چنگا کر سکتا تھا۔پر وہ روزانہ مریض کے پاؤں کی پٹی بدلتا رہا۔ ہڈی نکل جاتی تو پاؤں ضرور ٹھیک ہو جاتا مگر پھر فیس کے بدلے روزانہ سیر بھر گوشت سے بھی تو محروم ہونا پڑتا ۔‘

بشکریہ بی بی سی اردو
واپس کریں