دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
فارسی پنجاب کے کھیتوں میں دوڑائی گئی
وجاہت مسعود
وجاہت مسعود
قابل اجمیری اگست 1931 میں راجستھان کے قصبہ اجمیر میں پیدا ہوئے۔ بچپن درگاہ خواجہ معین الدین چشتی کے نواح میں گزرا۔ گوش سماعت کی تربیت کا سامان موجود تھا۔ فہم سخن کے مقامات طے کر رہے تھے کہ ملک تقسیم ہو گیا۔ قابل اجمیری لکیر کے اس طرف حیدر آباد میں آن آباد ہوئے۔۔ شعر کے ہنر کو سینچنے کی جستجو میں اکتوبر1962 میں وجود کی سرحد پار کر گئے۔ چھوٹی بحر میں بہت اچھا شعر نکالتے تھے۔ قابل اجمیری کا ایک شعرضرب المثل کا درجہ پا گیا۔ وقت کرتا ہے پرورش برسوں/ حادثہ ایک دم نہیں ہوتا۔ جو واردات ہمیں حادثہ معلوم ہوتی ہے، تاریخ بتاتی ہے کہ اس کے پیچھے مفاد اور سازش کے دو رنگے دھاگوں سے بُنی گئی چادر کا پردہ ہوتا ہے۔ 5 مارچ 1946 کو یورپ کے آر پار کھنچے آہنی پردے کے بارے میں چرچل کی تقریر اتفاقی واقعہ نہیں تھا۔ اس کے پس پشت ماسکو میں امریکی سفیرجارج کینن کا فروری 46ء میں لکھا طویل تار تھا۔ اس تمثیل کے کچھ کردار جارج مارشل، جان فوسٹر ڈلس اور جوزف میکارتھی تھے۔ سرمایہ دار دنیا نے سرد جنگ میں پراپیگنڈے کی جو بساط بچھائی اس میں کچھ حصہ ڈاکٹر جارج گیلپ کا بھی تھا جس نے مئی 1947 میں گیلپ انٹرنیشنل کے نام سے رائے سازی کا ایک ادارہ قائم کیا۔ پراپیگنڈہ سچ اور جھوٹ کا ایک لطیف امتزاج ہوتا ہے جس کی ایک حالیہ جھلک ڈونلڈ ٹرمپ کے پوسٹ ٹروتھ میں دیکھی جا سکتی ہے۔

دسمبر 1979 میں سوویت افواج کابل میں اتریں تو پاکستان میں ضیا آمریت کو گویا آکسیجن مل گئی۔ لیفٹیننٹ جنرل مجیب الرحمن، ضیا آمریت کے نفس ناطقہ تھے اور1977 کے موسم خزاں ہی میں نشریاتی اداروں کو ہدایت جاری کر چکے تھے کہ ریڈیو، ٹیلی ویژن اور اخبارات میں کھیلوں، مزاح نیز مذہبی تلقین کو زیادہ سے زیادہ وقت دیا جائے۔ سیاسی موضوعات سے ہر ممکن گریز کیا جائے تاہم سیاسی عمل اور سیاست دانوں کی تضحیک پر پابندی نہیں ہو گی۔ جماعت اسلامی کے محمود اعظم فاروقی کی بطور وزیراطلاعات تقرری بھی اسی بندوبست کا حصہ تھی۔ اس دوران نیا نصاب تعلیم متعارف کرایا گیا جس میں مذہبی رنگ نمایاں تھا۔ سائنس، معیشت اور جغرافیے کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے مسخ شدہ تاریخ پر خصوصی زور تھا۔ ایک خاص اقدام یہ تھا کہ تعلیم کے شعبے کو ریاستی ترجیحات سے خارج کر کے نجی شعبے کے سپرد کر دیا گیا۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ 1980 میں خواندگی کی عالمی شرح 68 فیصد تھی جو اب 86.3 فیصد ہو چکی ہے۔ پاکستان گزشتہ کئی برس سے اٹھاون فیصد کی شرح خواندگی پر زلیخائی کر رہا ہے۔ (اس وقت دنیا کے 195 ممالک میں پاکستان تعلیم میں 133ویں درجے پہ ہے اور اس درجہ بندی میں تعلیمی معیار کی قدر پیمائی شامل نہیں)۔ اس پر طرہ یہ کہ سیاسی سرگرمیوں پر پابندی تھی۔ سیاسی جماعتیں کالعدم تھیں اور ہزاروں سیاسی قیدی بندی خانوں میں عقوبت جھیل رہے تھے۔ دلائی کیمپ کی داستانیں بیان کرنے والے صحافی خود ساختہ صدر پاکستان کے خطاب کی ’جھلکیاں ‘تحریر کر رہے تھے۔ محمد علی باکسر اور انوکی پہلوان کے مقابلوں کی لمحہ بہ لمحہ تفصیل صفحہ اول کی خبر قرار پاتی تھی۔ یہ قوم کو سیاسی اور سماجی شعور سے محروم کرنے کا ہمہ جہتی منصوبہ تھا۔ جمہوری رجحان اور تاریخی شعور کی شہرت رکھنے والے اساتذہ اور صحافیوں کو تڑی پار کر دیا گیا تھا۔ پریس پر کڑی سنسر شپ تھی۔ اس صورتحال میں اسلام آباد کی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں سوشل سائنسز کے ڈین ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی نے 1980 میں ادارہ رائے عامہ پاکستان قائم کیا جس کا ایک ذیلی شعبہ گیلپ سروے تھا۔ اپنی زمین پر بسنے والے سادھارن عوام کے خلاف ایسی چہار طرفہ یلغار جس عرق ریزی سے مرتب کی گئی تھی اس سے آدھی توانائی قوم کی تعمیر پر صرف کی جاتی تو آج پچیس کروڑ کی قوم آئی ایم ایف کے دروازے پر کشکول نظر کھولے نہ بیٹھی ہوتی بلکہ زیادہ امکان تو یہ ہے کہ آبادی میں ایسا بے محابا اضافہ ہی نہ ہوتا۔ سادہ حساب یہ ہے کہ معیشت کی شرح نمو 1.5 فیصد ہو اور آبادی 2 فیصد کی شرح سے بڑھ رہی ہو تو عوام کا معیار زندگی ترقی نہیں کر سکتا۔ ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں یا وزیراعلیٰ ہاﺅس کی کسی تقریب میں کھانوں کی فہرست گنوانے سے معیشت کی حرکیات کا شعور پیدا نہیں ہوتا۔ اس کے لیے بجٹ میں آمدنی اور اخراجات کے کلیدی اشاریے دیکھنا ہوتے ہیں۔

گیلپ پاکستان نے اپنے تازہ سروے میں بتایا ہے کہ حالیہ انتخابات میں تعلیم یافتہ نوجوانوں نے مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کی بجائے تحریک انصاف کو زیادہ ووٹ دیے ہیں۔ بے شک یہ رائے درست ہے لیکن گیلپ سروے ہمیں یہ نہیں بتا رہا کہ پاکستان میں یونیورسٹی گریجوایٹ آبادی کی شرح دس فیصد سے کم ہے۔ نیز یہ کہ نام نہاد تعلیم یافتہ نوجوانوں کے ماں باپ ستر کی دہائی سے قومی شعور کو مسخ کرنے کی پالیسی کا شکار چلے آتے ہیں۔ پاکستان میں سیاسی تاریخ رکھنے والی جمہوری قوتوں کے لیے ناخواندہ یا کم تعلیم یافتہ طبقے کی حمایت سیاسی شعور کا نتیجہ تو نہیں ہو سکتی۔ اس کی وجہ تو ان طبقات کا بااثر افراد کے ہاتھوں بے دست و پا ہونا ہے۔ ہمیں یہ بتایا جائے کہ یہ ’تعلیم یافتہ طبقہ ‘جو عمران خان صاحب کے سیاسی بیانیے کی حمایت کرتا ہے، کیا یہ وہی شہری اشرافیہ نہیں جس نے پرویز مشرف کا خیر مقدم کیا تھا۔ کیا ان تعلیم یافتہ نوجوانوں نے طالبان کے خلاف آواز اٹھائی۔ کیا عمران اسماعیل، فیصل واؤڈا اور علی زیدی نے اپنے شہر کراچی کے ساتھ زبان کے نام پر تیس برس تک مجرمانہ کھلواڑ کی مزاحمت کی۔ کیا یہ ’تعلیم یافتہ طبقہ‘ فرقہ وارانہ جماعتوں کے خلاف کھڑا ہوا۔ کیا اس طبقے نے سوال کیا کہ کینیڈا سے تشریف لانے والے مذہب فروش نے 2018 سے 2022 تک ماڈل ٹاﺅن کے شہیدوں کے لیے انصاف کیوں نہیں مانگا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ نام نہاد تعلیم یافتہ طبقہ کل بھی غیر جمہوری سوچ رکھتا تھا اور آج بھی غیر جمہوری طور طریقوں سے سیاسی اقتدار میں اپنا حصہ مانگتا ہے۔ تعلیمی اسناد کے نام پر ان کے ہاتھوں میں تھامے کاغذ کے ٹکڑوں پر نہ جائیے۔ یہ تعلیمی اہلیت اور تاریخی شعور میں خلیج کا سوال ہے۔

بشکریہ ہم سب
واپس کریں