دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
حریت قیادت کی اولادیں، بھارتی حلف وفاداری کے چرچے
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
مقبوضہ جموں و کشمیر حریت رہنما شبیر احمد شاہ کی لائق فائق بیٹی اور سید علی گیلانی کی نواسی کا بھارتی آئین اور ریاست کے ساتھ حلف وفاداری کے چرچے سری نگر سے نکل کر پاکستان اور اب دنیا کے میڈیا کی زینب بن چکے ہیں، جب کہ سوشل میڈیا صارفین میں غیر مسلم کشمیری ان کے اس اقدام کو پرکھوں کی غلطیوں کو بھول کر راہ راست پر آنے اور مسلمان طنز کے نشتر چلا رہے ہیں۔ کشمیری نوجوانوں کی آج تو یہ حالت ہے کہ '' ہمارے پرکھوں کو کیا خبر تھی کہ ان کی نسلیں اداس ہوں گی ، دعائیں عمروں کی دینے والوں کو کیا خبر تھی دراز عمری عذاب ہو گی '' ، کے مصداق، بند گلی میں پھنسے ہوئے ہیں، جہاں سے نکلنے کا ان کو کوئی راستہ نہیں مل رہا اور نہ کوئی سہارا ہے۔ کچھ سال پہلے تک تو حریت قیادت کا بڑا نام تھا،لیکن اب ان کی اولادوں کے پاس اس کے سوائے کوئی چارہ نہیں رہا کہ پرکھوں کی اس سوچ سے لاتعلقی اور بھارت کی وفاداری کا دم بھریں۔

اختلافات جتنے بھی ہوں لیکن مودی کی انتظامی صلاحیتوں اور سیاسی سوج بوج کو تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ جس نے 70 سالہ پرانی اور حق پر مبنی تحریک آزادی کا اپنی سیاسی بصیرت سے جنازہ نکال لیا۔ اور ہمارے وکیل محض وعدوں باتوں پر ٹرخاتے رہیاور بلآخر کشمیر فال ہو گیا۔ اس میں کچھ حریت کانفرنس کی قیادت کا بھی قصور ہے کہ مزاحمتی جدوجہد کے ساتھ بین الاقوامی سطح پر جاندار قیادت نہیں متعارف کرائی جو کشمیریوں کی نمائندگی کرتی۔ اب مودی کشمیر پر قبضہ جمانے میں کامیاب ہو گیا اور کشمیریوں نے ابھی تک ایک دوسرے کی ٹانگیں نہیں چھوڑی جو گرتا دوسرے کو بھی ساتھ لے جانے چاہتا ہے۔۔ اب تو مقبوضہ کشمیر کے مظالم پر بات بھی کوئی نہیں کرتا۔ ایسے میں مقبوضہ کشمیر کے نوجوان کیا کریں، ان کو وہی کرنا چاہئے جو شبیر احمد شاہ کی صاحبزادی اور سید علی گیلانی کی نواسی نے کیا۔ ان دونوں دختران کشمیر نے اپنے پرکھوں کے نظریات سے بغاوت اور بھارت سے وفاداری کا اعلان کر دیا ہے۔

سری نگر سے جمعرات 21 مارچ 2024 کے اخبارات میں شائع ہونے والے اشتہار میں تہاڑ جیل میں قید معروف حریت قائد شبیر احمد شاہ کی صاحبزادی سما شبیر نے کہا ہے کہ "وہ یہ واضح کرنا چاہتی ہیں کہ جموں و کشمیر ڈیمو کریٹک فریڈم پارٹی (جے کے ڈی ایف پی) سے کبھی وہ وابستہ رہی ہیں اور نہ اب ان کا اس کے ساتھ کوئی تعلق ہے ان کا جے کے ڈی ایف پی اے کے سیاسی نظریے کی طرف کسی طرح کا بھی جھکا نہیں۔ اگر کوئی شخص یا اشخاص اس کا نام اس تنظیم کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے گی" اشتہار میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ "میں مزید کہنا چاہتی ہوں کہ میں بھارت کی ایک وفادار شہری ہوں اور کسی بھی ایسے فرد یا تنظیم کے ساتھ میری کسی بھی طرح کی وابستگی نہیں ہے جو ہند یونین کی حاکمیت کے خلاف ہے۔''

واضح رہے کہ سید شبیر شاہ نے 1998 میں اس تنظیم کو قائم کیا تھا۔ بھارت نے اکتوبر 2023 میں شبیر شاہ کی اس سیاسی تنظیم کو غیر قانونی قرار دے کر اس پر پانچ سال کے لیے پابندی عائد کردی تھی۔ اس پر الزام تھا کہ اس تنظیم کو پاکستان کے حق میں سرگرمیاں جاری رکھنے اور جموں وکشمیر میں دہشت گردی کو پروان چڑھانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ پابندی جموں و کشمیر میں ہی نہیں بلکہ بھارت کی تمام ریاستوں اور وفاق کے زیرِ انتظام علاقوں میں بھی لگائی گئی اور جے کے ڈی ایف پی کے اثاثے ضبط کرنے کے احکامات جاری کئے گئے تھے۔ جب کہ مقبوضہ کشمیر میں شبیر شاہ یا تنظیم کے نام پر پر جتنی بھی جائیداد تھی ضبط کرلی گئی تھی۔ حتی کہ شبیر شاہ کی اہلیہ ڈاکٹر بلقیس شاہ، 2 بیٹیاں سما شبیر اور سحر شبیر کو ستمبر 2019 کے آخر میں نوٹس جاری کیا گیا تھا کہ سری نگر کے علاقے راولپورہ میں واقع ان کے آبائی گھر کو 10 روز میں خالی کر دیا جائے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق اس وقت ڈاکٹر بلقیس شاہ محکمہ ہیلتھ میں ملازم تھی، دس روز بعد پولیس نے تینوں ماہ بیٹیوں اور ان کے سامان کو فٹ پاتھ پر رکھ کر گھر کو سیل کر دیا تھا۔۔ لگ بھگ 70 سالہ کشمیری حریت رہنما شبیر شاہ آزادی کا نام لینے پر مجموعی طور پر 36 برس جیل کاٹ چکے۔ گزشتہ تقریبا سات برس سے دہلی کی تہاڑ جیل میں بند ہیں۔ ان پر جو الزامات عائد کیے گیے ہیں ان میں غیر قانونی ذرائع سے بھاری رقومات حاصل کر کے انہیں جموں و کشمیر میں دہشت گردی کو طول دینے اور دیگر بھارت مخالف سرگرمیوں میں ملوث افراد کی مالی معاونت کے لیے استعمال شامل ہیں۔

انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے جولائی 2017 میں انہیں گرفتار کیا تھا تا حال تہاڑ جیل میں بند ہیں۔ بھارتی ریاست سے وفاداری کا اعلان کرنے والی سما شبیر نے 2018 میں انٹر کے امتحانات میں پورے جموں و کشمیر میں 8۔97 فیصد نمبر حاصل کر کے پہلی پوزیشن حاصل کر چکی وہ بیرون ملک قانونی کی طالبہ ہیں لیکن سری نگر آنے کے بعد واپسی پر پابندی ہو گئی تھی۔ دور طالب علمی میں میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے سما نے کہا تھا کہ سری نگر سے تہاڑ جیل کا طویل سفر ہے۔ والد کو ملنے جاتی ہوں اور ملاقات میں تاخیر یا التوا کے باعث تہاڑ جیل کی دیوار کے ساتھ کھڑے ہو کر مطالعہ کرتی ہوں، انہوں نیکہا تھا کہ میں باپ کو مایوس نہیں دیکھنا چاتی کہ ان کی غیر موجودگی میں ان کے بچوں کی تعلیم و تربیت صحیح نہیں ہوئی۔ بتایا جاتا ہے کہ سما شبیر آج کل سری نگر کے علاقے آفندی باغ میں اپنی والدہ بلقیس شاہ اور بڑی بہن سحر شبیر شاہ کے ساتھ رہتی ہیں۔

دریں اثنا مرحوم سید علی شاہ گیلانی کی نواسی رووا شاہ نے بھی چند روز قبل اسی طرح کے ایک اشتہار میں اپنے نانا اور باپ الطاف شاہ کی حریت سوچ کے ساتھ لا تعلقی کا اظہار کیا۔ رووا شاہ نے کہا کہ " میں ہندوستان کی ایک وفادار شہری ہوں، کسی ایسی تنظیم یا ایسو سی ایشن سے وابستہ نہیں ہوں جس کا ایجنڈا یونین آف انڈیا کے خلاف ہے اور میں اپنے ملک بھارت کے آئین کے ساتھ وفاداری کی مقروض ہوں۔ حریت کانفرنس کے ساتھ بھی کوئی تعلق نہیں ہے جس کی سربراہی ان کے نانا کرتے تھے۔میرا اس نظریے کی طرف کوئی جھکا ہے اور نہ میں اس کے لیے کوئی ہمدردی رکھتی ہوں۔ اس تنظیم کے لیے میرے نام کا کسی بھی طرح کا استعمال میری طرف سے قانونی کارروائی کا موجب بنے گا"۔ رووا شاہ کے والد الطاف احمد شاہ خود بھی بڑے حریت لیڈر تھے اور انہوں نے بھی طویل عرصہ جیل کاٹی۔ بلآخر 2022 میں ان کا انتقال جیل ہی میں ہوا۔ رووا شاہ صحافت سے وابستہ ہے۔ والد کی بیماری کے دوران وزیر اعظم مودی سے بہت اپیلیں کی تھی کہ ان کے والد کو علاج معالجہ کی سہولت گھر پر دی جائے تاکہ وہ آخری ایام خاندان کے ساتھ گزار سکیں لیکن ان کی عرضی پر غور نہیں ہوا۔

الطاف شاہ کو انتقال سے دو ہفتے قبل عدالتی احکامات پر نئی دہلی کے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمز) میں منتقل کیا گیا تھا لیکن اس وقت ان کی پوزیشن بہت خراب ہو چکی تھی جب کہ اس پوزیشن میں بھی رووا شاہ کو باپ کو دیکھنے کی اجازت بڑی مشکل سے ملتی تھی وہ بھی چند منٹ کے لئے جب کہ اس وقت الطاف احمد شاہ ہوش و حواص میں بھی نہیں تھے۔۔ اتنے سخت حالات دیکھنے والی یہ دونوں اعلی تعلیم یافتہ خواتین نے اپنے والدین کی سوچ کو دیدا دلیری سے مسترد کر دیا۔ جذباتی کشمیری نوجوان تو ان خواتین پر طنز کے نشتر چلا رہے ہیں لیکن یہ نہیں سمجھتے کہ تحریکیں جذبات کے ساتھ ہوش سے بھی چلتی ہیں۔ کشمیریوں نے بہت غلطیاں کی ہیں اب غلطی کی گنجائش کم ہے۔

مذاکرات جنگ کی بہترین حکمت عملی ہے، میری رائے میں ان دونوں دختران کشمیر نے مذاکرات کے ذریعے جو فیصلہ کیا وہ وقت کی ضرورت تھی، ممکن ہے آنے والا کل ایسا نہ ہو نا انہوں نے عمر بھر کی توبہ کی۔ مبینہ طور پر رووا شاہ اور سما شبیر کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ہے، دونوں ملک سے باہر نہیں جاسکتی۔ رووا شاہ ترکیہ میں اعلی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ 2021 میں چھٹیاں منانے سری نگر آئی تھی۔ جب کہ سما بھی بیرون ممالک قانون کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ ای سی ایل میں نام شامل ہونے کے باعث سری نگر سے باہر جانا ان کے لیے مشکل تھا۔ ان کے پاس دو ہی راستے تھے اپنے بزرگوں کی طرح بھارت کی جیل میں سڑتی رہیں یا آزاد فضاوں میں کشمیر کا نام لیں انہوں نے دوسرا راستہ چن کا بروقت درست فیصلہ کیا جس کے دورس نتائج برآمد ہوں گے ۔
واپس کریں