دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
احمد بخاری نہیں، عبدالخبیر آزاد، معتبر۔ کشمیریوں کا اعلان بغاوت
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام نے مودی کے اس پروپیگنڈے کو یک لخت اور یک زبان مسترد کر دیا کہ 5 اگست 2019ء کی آئینی اصلاحات اور ترقیاتی کاموں کے باعث وہ بھارت سے خوش اور مطمئن ہیں۔ موقع ملتے ہی کشمیریوں نے جبر اور پنجرہ نما ماحول میں بھی بھارت کے خلاف اعلان بغاوت کیا اور مودی کو علانیہ بتا دیا کہ ہماری گھڑیوں کی سوئیاں اور دل بھارت کے ساتھ نہیں دھڑکتے۔ یہ اعلان بغاوت معزز دنیا کے لیے یہ پیغام بھی ہے کہ ہم پرتشدد نہیں, ہمارے پاس اسلحہ نہیں، ہم دہشت گرد نہیں۔ پرامن لوگ ہیں، سیاسی اور تحریکی ہیں۔ ہمارے اندر سیاسی تدبر ہے۔ یہ محض ریکارڈ پر لانا مقصد ہے کہ جو قوم اپنی خوشیاں بھی سانجھی نہیں کر رہی وہ اٹوٹ انگ کیسے ہو سکتی ہے۔ کشمیریوں نے بھارت کو بتا دیا کہ ہم الگ تہذیب و تمدن، الگ قوم و الگ ریاست ہیں، لہٰذا ہمیں ہندوستانی شناخت کی کوئی ضرورت نہیں۔ مفتی اعظم مفتی ناصر الاسلام سمیت جموں و کشمیر کے جملہ علمائے کرام اور مفتیان عظام نے جامع مسجد دہلی کے شاہی امام و صدر مرکز رویت ہلال کمیٹی ہندوستان سید احمد بخاری کی گواہی کو مسترد کرتے ہوئے مولانا عبدالخبیر آزاد کی گواہی کو معتبر جانا، متفقہ فیصلہ اور اعلان کیا کہ اسلام آباد میں شوال کا چاند دیکھنے کی گواہی موصول ہو چکی لہذا مقبوضہ جموں و کشمیر میں عیدالفطر جمعرات 11 اپریل ہندوستان کے مسلمانوں کے ساتھ نہیں بدھ 10 اپریل ہی کو پاکستان کے مسلمانوں کے ساتھ ہو گئی۔ علماء کے اس اعلان کو مسترد کرنے کے حوالے سے، مختلف اکائیوں اور ثقافتوں میں تقسیم خطہ جموں کشمیر کے کسی بھی حصہ سے آواز نہیں آئی کہ ہم دھلی کو ہی معتبر مانتے اور جانتے ہیں، حالاں کہ انتظامیہ نے بہت کوشش بھی کی اور ڈرایا دھمکایا بھی، لیکن کارگل ہو یا سلطنت ہمالیہ کا پایۂ تخت لیہہ، وادی چناب یا پیر پنجال کی اونچی نیچی وادیاں سب نے سری نگر کے ساتھ ہاں میں ہاں ملایا، اور عیدالفطر بدھ 10 اپریل کو پاکستانی بھائی بہنوں کے ساتھ منا کر مودی کو یہ پیغام دیا کہ کشمیریوں کو فتح کرنے کا تمارا دعوی غلط ہے۔ 16 لاکھ مسلح افواج کے زیر نگرانی مقبوضہ کشمیر کو جیل اور پنجرہ بنا کر انسانوں کو قید تو کیا جا سکتا ہے لیکن ان کی خواہش اور مرضی کے خلاف دلوں پر حکمرانی نہیں کی جا سکتی۔ بھارت نے اس کے جواب میں وہی کیا جس کی توقع تھی کہ تاریخی جامع مسجد سری نگر اور روایتی مرکزی عیدگاہ پر تالے ڈال کر فوج تعینات کر دی اور حکم ہوا جو مساجد اور عید گائیوں کی طرف بڑھے گا وہ دہشت گردی اور ملک دشمنی کے زمرے میں پکڑا جائے گا۔ یہ تحریر لکھے جانے تک تفصیل نہیں ملی کہ کتنے پکڑے گئے اور کتنے شہید ہوئے۔ لیکن بدھ کو ساری قوم ہی نکل پڑھی، جہاں میسر ہوا وہاں نماز عید ادا کر دی گئی۔ مودی سٹپٹا کر رہ گیا کہ اب کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ البتہ قابض فوجیوں کی پھرتیاں تیز ہو گئیں اور آخری اطلاعات آنے تک جو سرچ آپریشن عیدالفطر سے چند دن پہلے شروع کیا تھا اس میں ہوش ربا اضافہ کر دیا گیا۔ بارہمولہ کے علاقے سریور پورہ پٹن کے مجید ملک، ڈار محلہ پلہالن کے عبدالاحد ڈار اور تانترے پورہ پلہالن کے خورشید احمد وازہ کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار اور پلوامہ میں ایک نوجوان کو شہید کر دیا گیا۔جب کہ بارہ مولہ کے علاقے اوڑی میں محمد لطیف، صدر الدین اور عزیز الدین کی کروڑوں روپے مالیت کی جائیدادیں ضبط کر لی گئی۔ محمد مقبول پنڈت، ہلال احمد گنائی، مدثر شفیع گیلانی، حبیب اللہ شیخ، شبیر احمد نجار، محمد اشرف ڈار، غلام نبی نجار اور فیاض احمد میر کو اشتہاری مجرم قرار دیا گیا ہے۔ ان کی جائیدادیں ایک ماہ بعد ضبط کی جائیں گی۔ اس سے پہلے بھی حریت رہنماﺅں سمیت درجنوں افراد کی جائیدادیں ضبط کی جا چکی ہیں جس کا مقصد آزادی کی آواز بلند کرنے کی سزائیں دینا اور باقی کو باز رہنے کی تلقین کرنا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق قابض فوج نے عیدالفطر کا پورا دن جامع مسجد اور مرکزی عید گاہ سمیت ریاست بھر کی عید گائیوں اور مساجد کے اطراف علاقوں کے محاصرے اور تلاشی کے علاوہ پرتشدد کارروائیوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ میرواعظ عمر فاروق کو عید الفطر کی نماز ادا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی اور گھر میں نظربند کر دیا گیا۔ دختران کشمیر، مائیں،بیٹیاں، بیویاں اور بہنیں عید کے روز کبھی گھر واپس نہ آنے والے پیاروں کے انتظار میں دروازے پر کھڑی رہیں جن کو بھارتی فوجی ان کے سامنے اٹھا کر گھسیٹتے ہوئے لے گئے تھے۔ کسی کی شناخت تو ندی نالے میں پڑی نہ معلوم میت سے ہوئی اور اکثریت کا نام ابھی مسنگ پرسن کی فہرست میں ہے۔ جن کی تعداد 8 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ عیدالفطر کے روز راجوری میں سرکاری سرپرستی میں ہندوتوا غنڈوں نے عید کی نماز ادا کرنے کےلئے جانے والے ایک مسلم گروپ پر حملہ کر کے اُنہیں بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ محبوبہ مفتی کی جانب سے سوشل میڈیا پر جاری ویڈیو پوسٹ میں گجر اور بکروال برادری کے کئی افراد کو ہندوتوا غنڈوں کے تشدد کی وجہ سے زخمی حالت میں دیکھا جا سکتا ہے۔ محبوبہ مفتی نے اس عمل کی شدید مذمت کی اور کہا کہ " غنڈوں کےلئے یہ بات کافی تھی کہ یہ لوگ مسلمان ہیں جنہیں کسی بھی وقت ، کسی بھی جگہ نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ غنڈوں اور شرپسندوں کو اس طرح کی کارروائیوں کو انجام دینے کی کھلی چھٹی حاصل ہے اور وہ جانتے ہیں کہ اس کے لیے وہ آزاد ہیں اور اُنہیں کوئی کچھ نہیں کہے گا۔" فاروق عبداللہ نے کشمیر میں ہونے والے مظالم پر لب کشائی نہیں کی البتہ ہندوستان اور فلسطین کے مسلمانوں کے مسائل کو یکساں قرار دے کر باپ کی طرز سیاست کو زندہ رکھنے کی اپنی سی کوشش کی۔ پاکستان کے ساتھ عیدالفطر منانے کے ردعمل کے طور پر بھاجپا حکومت نے عید تعطیلات منسوخ کر کے سرکاری اور نجی اداروں کے ملازمین کو عید کے روز ڈیوٹی پر حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کی جس پر عمل نہ کرنے والے سزا کے مستحق ٹھیرے۔ سزائیں بھی وہ جو غیرقانونی، غیراخلاقی ہیں۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ فرقہ پرست حکومت غیرقانونی طور پر نظربند کشمیریوں کے ساتھ انتہائی ظالمانہ سلوک کر رہی ہے۔ ایک ہزار سے زائد سیاسی قائدین اور کارکنوں، صحافیوں اور انسانی حقوق کے نمائندوں کو تحریک آزادی کشمیر کے عزم کو متزلزل کرنے کے لیے کشمیر سے دور ہندوستان کے مختلف علاقوں ہریانہ، پنجاب، تہاڑ دہلی اور اُترپردیش وغیرہ کی جیلوں میں منتقل کرنے کی پالیسی میں تیزی لائی گئی ہے۔ عید الفطر سے چند دن قبل کئی سیاسی قیدیوں کو کشمیر سے بھارت کی جیلوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ جن کو طبی سمیت تمام بنیادی سہولیات سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ دور دراز علاقوں کی جیلوں میں بند کرنے کی وجہ سے نظربندوں کے اہلخانہ عیدالفطر کے موقع پر ان کے ساتھ ملاقات سے قاصر رہے۔ کیوں کہ ہزاروں میل کا سفر طہ کرنا ان کے لیے مشکل تھا۔ نظربندوں اور ان کے اہلخانہ کو اس بہیمانہ سلوک کا نشانہ بنانا نہ صرف عالمی قوانین اور اصول و ضوابط کی خلاف ورزی ہے، بلکہ بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلہ کی بھی خلاف ورزی ہے ۔لیکن انسانی حقوق کے عالمی اداروں نے ابھی تک کوئی نوٹس نہیں لیا۔ نہ ہندوستان کی سول سوسائٹی اس پر آواز بلند کرتی ہے۔ افسوس کا امر تو یہ ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم کی جانب سے جاری عیدالفطر کے پیغام میں فلسطینیوں کے ساتھ کشمیریوں کے نام کے باوجود پاکستان میں کشمیریوں کے اس جذبہ محبت اور خیرسگالی کی اس انداز میں پذیرائی نہیں دی گئی جس کی اس وقت ان کو ضرورت ہے۔ خال خال ہی کسی مسجد کے مولوی نے اپنی دعا اور خطبہ میں کشمیر کے مسلمانوں کا نام لیا جب کہ حکمرانوں پر بھارت کے ساتھ تجارت کی خبط سوار ہے۔ وزیر تجارت اور خارجہ کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے جس میں وہ بھارت کے ساتھ تجارت کے فوائد اور پاکستانی معیشت کو زندہ کرنے کے لیے لازمی نہ قرار دیتے ہوں۔ ممکن ہے یہ ضروری بھی ہو تاہم اس کے لیے ان کے پاس ایسا روڑ میپ نہیں جس سے کشمیریوں کو پنجرے سے آزاد کرا کر بھارت کے ساتھ دوستی اور تجارت بحال کی جائے بلکہ وہ کشمیریوں کے بہتے خون کو سائیڈ لائن رکھ کر شارٹ کٹ میں سارے مسائل فوری حل کرنے کے در پر ہیں۔ قدرت نے کیا لکھا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن کشمیریوں کی بدقسمتی ہے کہ ان کے پاس اس وقت چواین لائی، یا ماوزے تنگ، احمد سوکارنو، نیلسن منڈیلا، یا گیبریئل بورِک جیسا کوئی لیڈر نہیں جو بھنور میں پھنسی ناو کو کنارے تک پہنچائے۔ نہ یاسرعرفات جیسا ہے حتی کہ کشمیر کی سیاست اور تحریک آزادی میں اسماعیل ہانیہ بھی نہیں جس کی آواز دنیا کے حکمرانوں کے کانوں تک پہنچے اور ان کے ضمیر کو مضطرب کر دے۔ کشمیری قیادت ایسا ہونے بھی نہیں چاتی۔ ان کے پاس آزادی کا مفہوم وہی ہے، جو 1947 میں قائداعظم محمد علی جناح، گاندھی اور جوائر لال نہرو کے پاس تھا۔ لیکن وقت بہت آگئیں نکل گیا آج کی دنیا کو پونی صدی پرانا مفہوم اور فلسفہ سمجھ نہیں آتا۔ ان کو سمجھانے کے لیے کشمیریوں کو کوئی نیا بیانیہ، کوئی نئی آواز پیدا کرنا ہو گی جو جدید دنیا اور جدید زمانے سے ہم آہنگ ہو، ورنہ یہ یوں ہی چلتا رہے گا۔ ہارنے کے باوجود ہندوستان کی اسی میں کامیابی ہے۔

واپس کریں